بھارت میں صحت سے متلعق مستند معلومات حاصل کرنا مشکل ہے۔ ملک میں آخری بار ریاستی سطح پر ایک مکمل سروے 2007 میں پیش کیا گیا تھا۔ تو کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسیف کے اشتراک سے کیا جانے والا بھارتی حکومت کا بڑے پیمانے کا خواتین اور بچوں کا سروے جاری نہیں کیا گیا؟
بھارت میں بچوں کا ’ریپیڈ سروے‘ ایک بہت بڑا کام تھا۔ تقریباً ایک لاکھ بچوں کا قد ناپا گیا، وزن لیا گیا اور ساتھ ہی تقریباً دو لاکھ افراد سے اس سلسلے میں انٹرویو کیے گئے۔ اس سروے کے نتائج پر مبنی رپورٹ کو گذشتہ سال اکتوبر میں شائع ہونا تھا، تاہم یہ رپورٹ آج تک جاری نہیں کی گئی۔
معروف ماہرِ اقتصادیات جین ڈریز کے خیال میں اس رپورٹ کا شائع نہ کیا جانا کسی سکینڈل سے کم نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کے تمام ہمسایہ ممالک بنگلہ دیش، نیپال، سری لنکا، بھوٹان، پاکستان، یہاں تک کہ پاکستان کے بھی غذا اور نشو و نما کے شائع کردہ اعداد و شمار تازہ ترین ہیں۔ ان کے مطابق ’ان دس سالوں کی معلومات نہ ہونے کا بغیر سیاسی ہچکچاہٹ کے جواز نکالنا بہت مشکل ہے۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ حکومت ابھی تحقیقی طریقۂ کار کا جائزہ لے رہی ہے تاہم انھیں امید ہے کہ اس تحقیق کو جلد شائع کر دیا جائے گا۔
بھارت میں یونیسیف میں غذائی امور کی سربراہ صبا میبراتھو کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی پالیسی سازی کے لیے ڈیٹا کا ہونا ضروری ہے۔ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا چیزیں اس کی ذمہ دار ہیں اور ان کے مقابلے کے لیے پالیسی کی توجہ کس طرف ہونی چاہیے۔
بی بی سی نے بھارتی حکومت سے پوچھا کہ انھوں نے یہ رپورٹ شائع کیوں نہیں کی اور اس کو کب تک شائع کرنے کا ارادہ ہے تو بھارتی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم بی بی سی کو اس رپورٹ کی ایک نقل مل گئی ہے۔ اور ابتدائی نظر دوڑانے سے یہ بات حیران کن لگتی ہے کہ حکومت رپورٹ کو چھپا رہی ہے۔
اس کے مطابق بھارت کی کہانی خاصی حوصلہ افزا ہے۔ غذائی کمی کی شرح اگرچہ ابھی بھی بہت زیادہ ہے (بہت سے افریقی ممالک سے بھی زیادہ) تاہم حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ دس سال قبل بھارت میں پانچ سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچوں میں غدائی قلت کے آثار تھے اور اب یہ شرح تقریباً ایک تہائی رہ گئی ہے۔ تاہم سروے میں مختلف ریاستوں کے درمیان شدید تضاد واضح ہوتا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست گجرات کی کارکردگی انتہائی بری رہی ہے۔
بطور وزیراعلیٰ مودی ایک دہائی تک ریاست گجرات کے سربراہ تھے، اور ان کی انتخابی مہم کا نعرہ یہ تھا کہ وہ بھارت کے لیے وہی کریں گے جو انھوں نے گجرات کے لیے کیا۔
اس سروے کے نتائج دیکھ کر کچھ لوگ شاید یہ سوال کریں کہ کیا گجرات کا ماڈل پورے بھارت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے؟ سروے کے مطابق اقتصادی ترقی کے باوجود وہاں صحت عامہ کی صورتِ حال بدترین ہے۔ مثال کے طور پر سروے کے مطابق گجرات کے 41.8 فیصد بچوں کا قد خطرناک حد تک کم ہے اور 43.8 فیصد کو بیماریوں سے بچاؤ کے تمام قطرے نہیں پلائے گئے۔ گجرات سے برے نتائج کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت وزیراعظم کو شرمندگی سے بچانے کے لیے رپورٹ جاری کرنے میں تاخیر کر رہی ہے۔ بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گجرات کے مسائل کم از کم جزوی طور پر پالیسی کا نتیجہ ہیں۔
ایک دہائی قبل ہمسایہ ریاست مہاراشٹر میں غذائی قلت کے اعداد و شمار گجرات جیسے ہی تھے مگر انھوں نے اس بارے میں سنجیدہ منصوبہ بندی کی۔ ریاست میں محکمہ صحت کی سربراہ سجاتا سونک کہتی ہیں کہ ان کی ریاست نے گذشتہ سروے سے معلومات لے کر انھیں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور بچوں کی صحت کے لیے مخصوص منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ منصوبہ بندی انتہائی کامیاب رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں میں قد کی انتہائی خطرناک حد تک کمی کی شرح 41 فیصد گر گئی ہے جبکہ خطرناک حد تک کم وزن بچوں کی شرح 24 فیصد تک گری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ تاہم بھارت میں قومی سطح پر ایسے ہی ڈرامائی اقدامات ہونا مشکل ہے۔ بھارت اپنی قومی آمدنی کا ایک فیصد صحتِ عامہ پر خرچ کرتا ہے جو کہ دنیا میں کم ترین شرحوں میں سے ایک ہے، اور وفاق میں مودی سرکار کے آنے کے بعد سے اس شعبے میں اخراجات کو کم کیا گیا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours