2013
پنجاب پاکستان کا ایک صوبہ ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ پنجاب میں رہنے والے لوگ پنجابی کہلاتے ہیں۔ پنجاب جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف سرحد اور بلوچستان،‎‎‎شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد اور مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اور راجستھان سے ملتا ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی زبان بھی پنجابی کہلاتی ہے۔ پنجابی کے علاوہ وہاں اردو اور سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہے۔ پنجاب فارسى زبان كے دو لفظوں پنج بمعنی پانچ(5) اور آب بمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔اسی وجہ سے نہ ہی پنجابی کوئی قوم ہے اور نہ ہی پنجابی کوئی زبان ہے
ان پانچ درياؤں كے نام ہيں:
دریائے سندھ
دریائے جہلم
دریائے چناب
دریائے راوی
دریائے ستلج
تاریخی اعتبار سے پنجاب کے تین حصے ہیں ایک یعنی مشرقی حصہ جو کہ بھارت میں ہے اور ایک مغربی حصہ جو پاکستان میں ہے۔ تیسرا جنوبی حصہ پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صو بہ ہے اسی وجہ سے اس کی تقسیم ضروری ہے جبکہ پاکستان کے 35% لوگ سرائیکی زبان سمجھتے اور بولتے بھی ہیں۔جبکہ پنجابی پوٹو ھاری زبانیں بولی اور سمجھی جاتیں ہیں

تہوار


عید الفطر، عید الاضحٰی، شبِ برات اور عید میلاد النبی پنجاب کے علاوہ پورے پاکستان میں ‏خاص تہوار ہیں اور پورے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں کے علاوہ رمضان کا پورا مہینہ بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مگر بسنت ایک ایسا تہوار ہے جو پنجاب سے منسلک ہے۔ یہ تہوار بہار کے موسم کو خوش آمدید کہنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ جس میں لوگ پتنگ اڑا کر اور پنجاب کے خاص کھانے بنا کر اور کھا کراس تہوار کو مناتے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ بسنت منانے کے خلاف ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے کئی معصوم لوگوں اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ لاھور کی ہیرا منڈی بھی دنیا میں بہت مشہور ہےجہاں دنیاں بھر کے سیاح آکر عیاشی کرت ہیں

موسم


فروری سے پہلے پنجاب میں بہت سردی ہوتی ہے اور پھر اس مہینے سے موسم میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے اور موسم خوشگوار ہونے لگتا ہے۔ فروری سے اپریل تک بہار کا موسم رہتا ہے اور پھر گرمی شروع ہونے لگتی ہے۔
گرمی کا موسم مئی سے شروع ہوتا ہے تو اکتوبر کے آخر تک رہتا ہے۔ جون اور جولائی سب سے زیادہ گرم مہینے ہیں۔ سرکاری معلومات کے مطابق پنجاب میں C° 46 تک درجہ حرارت ہوا ہے مگر اخبارات کی معلومات کے مطابق پنجاب میںC°51 تک درجہ حرارت پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ گرمی کا ریکارڈ ملتان میں جون کے مہینے میں قلمبند کیا گیا جب عطارد کا درجہ حرارت 54 °C سے بھی آگے بڑھ گیا تھا۔ اگست میں گرمی کا زور تھوڑا ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اکتوبر کے بعد پنجاب میں شدید سردی کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔


اضلاع


ضلع رقبہ مربع کلومیٹر آبادی بمطابق 1998ء آبادی کثافت افراد فی مربع کلومیٹر
اٹک 6,857 1,274,935 186
اوکاڑہ 4,377 2,232,992 510
بہاولنگر 8,878 2,061,447 232
بہاولپور 24,830 2,433,091 98
بھکر 8,153 1,051,456 129
پاک پتن 2,724 1,286,680 472
ٹوبہ ٹیک سنگھ 3,252 1,621,593 499
جھنگ 8,809 2,834,545 322
جہلم 3,587 936,957 261
چکوال 6,524 1,083,725 166
چنیوٹ - - -
حافظ آباد 2,367 832,980 352
خانیوال 4,349 2,068,490 476
خوشاب 6,511 905,711 139
ڈیرہ غازی خان 11,922 1,643,118 138
راجن پور 12,319 1,103,618 90
راولپنڈی 5,286 3,363,911 636
رحیم یار خان 11,880 3,141,053 264
ساہیوال 3,201 1,843,194 576
سرگودھا 5,854 2,665,979 455
سیالکوٹ 3,016 2,723,481 903
شیخو پورہ 5,960 3,321,029 557
فیصل آباد 5,856 5,429,547 927
قصور 3,995 2,375,875 595
گجرات 3,192 2,048,008 642
گوجرانوالہ 3,622 3,400,940 939
لاہور 1,772 6,318,745 3,566
لودھراں 2,778 1,171,800 422
لیہ 6,291 1,120,951 178
مظفر گڑھ 8,249 2,635,903 320
ملتان 3,720 3,116,851 838
منڈی بہاؤ الدین 2,673 1,160,552 434
میانوالی 5,840 1,056,620 181
نارووال 2,337 1,265,097 541
ننکانہ صاحب --- --- ---
وہاڑی 4,364 2,090,416 479
صوبہ پنجاب 205,345 73,621,290 359
بلوچستان (انگریزی: Balochistan) رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ، اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6فیصد حصہ بنتا ہے جبکہ اس کی آبادی 1998ءکی مردم شماری کے مطابق 65لاکھ65ہزار885نفوس پر مشتمل تھی ۔اس وقت صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان ہے ۔قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خيبر پختون خواہ، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ و پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے ۔اس کا 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔

ایران میں بلوچوں کا علاقہ جو ایرانی بلوچستان کہلاتا ہے اور جس کا دارالحکومت زاہدان ہے، ستر ہزار مربع میل کے لگ بھگ ہے- بلوچوں کی آبادی ایران کی کل آبادی کا دو فی صد ہے- افغانستان میں زابل کے علاقہ میں بلوچوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے-

تاریخ


آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر ایران کی سلطنت کی حکمرانی تھی اور قدیم دستاویزات کے مطابق یہ علاقہ ُ ماکا ، کہلاتا تھا۔ تین سو پچیس سال قبل مسیح میں سکندر اعظم جب سندھو کی مہم کے بعد عراق میں بابل پر حملہ کرنے جا رہا تھا تو یہیں مکران کے ریگستان سے گذرا تھا۔اس زمانہ میں یہاں براہوی آباد تھے جن کا تعلق ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں، دڑاوڑوں سے تھا-

پاكستان كے ساحل كا ذيادہ تر بلوچستان كا ساحلی علاقہ ہے! قیام پاکستان کے وقت یہ مشرقی بنگال، سندھ، پنجاب اور صوبہ خيبر پختون خواہ کی طرح برطانوی راج کا باقاعدہ حصہ نہیں تھا بلکہ 1947 تک بلوچستان، قلات، خاران، مکران اور لس بیلہ کی ریاستوں پر مشتمل تھا جن پر برطانوی ایجنٹ نگران تھا۔ قلات کی ریاست جو كہ ان میں سب سے بڑی ریاست تھى اس كے حکمران خان قلات میراحمد یار خان نے قیام پاکستان سے دو روز قبل اپنی ریاست کی مکمل آزادی کا اعلان کیا تھا اور خصوصی تعلقات پر مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ پاکستان کے ساتھ خان قلات کے اس اقدام کی دوسرے تمام بلوچ سرداروں نے حمایت کی تھی اور بلوچستان کی علحیدہ حیثیت برقرار رکھنے پر زور دیا تھا لیکن پاکستان نے خان قلات کے اس اقدام کو بغاوت سے تعبیر کیا اور پاكستان نے خان قلات اور ان کی ریاست کے خلاف کاروائی کی آخر کار مئی سن اڑتالیس میں خان قلات کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور وہ پاکستان میں شمولیت پر مجبور ہو گئے۔ ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے البتہ قلات کی پاکستان میں شمولیت کے خلاف مسلح بغاوت کی اور آخر کار انہیں افغانستان فرار ہونا پڑا سن 1973 تک بلوچستان گورنر جنرل کے براہ راست کنٹرول میں رہا، سن چھپن کے آئین کے تحت بلوچستان کو مغربی پاکستان کے ایک یونٹ میں ضم کر دیا گیا سن ستر میں جب عام انتخابات ہوئے اس میں پہلی بار بلوچستان ایک الگ صوبہ بنا بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی فاتح رہی اور سن بہتر میں پہلی بار بلوچستان میں منتخب حکومت قائم ہوئی۔

آبادیات


تاریخی آبادی

مردم شماری آبادی شہری آبادی کا تناسب
1951 1,167,167 12.38%
1961 1,353,484 16.87%
1972 2,428,678 16.45%
1981 4,332,376 15.62%
1998 6,565,885 23.89%
حکومت

بلوچستان کی صوبائی علامات

صوبائی جانور اونٹ
صوبائی پرندہ تلور
صوبائی درخت کھجور
صوبائی پودا

بلوچستان کے اضلاع


بلوچستان کے 30 اضلاع ہیں۔
آواران
بارخان
بولان
چاغی
ڈیرہ بگٹی
گوادر
ہرنائی
جعفر آباد
جھل مگسی
قلات
کیچ
خاران
کوہلو
خضدار
قلعہ عبداللہ
قلعہ سیف اللہ
لسبیلہ
لورالائی
مستونگ
موسیٰ خیل
نصیر آباد
نوشکی
پنجگور
پشین
کوئٹہ
شیرانی
سبی
واشک
ژوب
زیارت
خیبر پختونخوا (Khyber Pakhtunkwa) پاکستان کے چار صوبوں میں سب سے چھوٹا صوبہ ہے. صوبہ خیبر پختونخوا شمال مغرب کی طرف افغانستان، شمال مشرق کی طرف شمالی علاقہ جات، مشرق کی طرف آزاد کشمیر، مغرب اور جنوب میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات، جنوب مشرق کی طرف پنجاب اور اسلام آباد سے ملا ہوا ہے. صوبے میں سب سے بڑا نسلی گروہ پشتونوں کا ہے، جن کے بعد دوسرے چھوٹے نسلی گروہ بھی موجود ہیں۔ اکثریتی زبان پشتو اور صوبائی دارالحکومت پشاور ہے۔

درۂ خیبر

صوبہ خیبر پختونخواہ کا علاقہ ارضیاتی طور پر حساس جگہ پر واقع ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہاں کئی زلزلے آچکے ہیں مثلاً زلزلۂ کشمیر. مشہور درّۂ خیبر صوبے کو افغانستان سے ملاتا ہے. صوبہ خیبر پختونخواہ کا رقبہ 28,773 مربع میل یا 74,521 مربع کلومیٹر ہے.
صوبہ خیبر پختونخواہ کا سب سے بڑا شہر پشاور ہے جو کہ صوبے کا دارالحکومت بھی ہے. دوسرے بڑے شہروں میں نوشہرہ، مردان، چارسدہ، مانسہرہ، ایوبیہ، نتھیاگلی اور ایبٹ آباد شامل ہیں. ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں، پشاور، ایبٹ آباد اور مانسہرہ بڑے اضلاع ہیں.
صوبہ خیبر پختونخواہ کا خطہ جنوب میں خشک پتھریلی علاقوں جبکہ شمال میں سبز میدانوں پر مشتمل ہے. آب و ہوا شدید ہے، سردیوں میں یخ ٹھنڈ اور گرمیوں میں نہایت گرمی پڑتی ہے. شدید موسم کے باوجود زراعت زیادہ ہے. سوات، کالام، دیر بالا، ناران، اور کاغان کی پہاڑی زمین حسین وادیوں کے لئے مشہور ہے. ہر سال کئی ملکی و غیر ملکی سیاح یہاں سیر و تفریح کے لئے آتے ہیں. سوات-کالام کو ‘‘سوٹزرلینڈ کا ٹکڑا’’ کہاجاتا ہے کیونکہ یہاں کے کئی مناظر سوٹزرلینڈ کے پہاڑی خطے سے مشابہت رکھتے ہیں.
۱۹۹۸ء کی مردم شماری کی مطابق صوبہ خیبر پختونخواہ کی آبادی ۱۷ ملین تھی جس میں سے ۵۲ فیصد مرد اور ۴۸ فیصد خواتین تھیں. آبادی کی کثافت ۱۸۷ فرد فی کلومیٹر ہے.
جغرافیائی لحاظ سے صوبہ خیبر پختونخواہ کو دو خطّوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: شمالی خطہ اور جنوبی خطہ. شمالی خطہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں سے شروع ہوکر پشاور کے سرحد، جبکہ جنوبی خطہ پشاور سے شروع ہوکر دراجت تک ہے. شمالی خطہ سردیوں میں ٹھنڈی، برفیلی اور زیادہ بارشوں والی جبکہ گرمیوں میں موسم خوشگوار ہوتا ہے ما سوائے پشاور کے جہاں گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی پڑتی ہے. جنوبی خطہ خشک اور بنجر ہے، موسمِ گرما بہت گرم اور موسمِ سرما قدرے سرد ہوتا ہے، بارشیں کم ہوتی ہیں.
صوبہ خیبرپختنونخواہ کے دریاؤ میں دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے چترال، دریائے پنجگوڑہ، دریائے باڑہ، دریائے کرم، دریائے گومل اور دریائے ژوب شامل ہیں.
صوبہ خیبر پختونخواہ جو کبھی گندھارا تہذیب کا گہوارا رہا ہے، اب یہ علاقہ پرہیزگار، پُرخلوص اور مہمان نواز مسلمانوں کے لئے مشہور ہے، جو اپنے مذہب، اقدار، ثقافت، تہذیب و تمدن، روایات اور طریقہ ہائے زندگی کی نہایت جوش و جذبے سے حفاظت کرتے ہیں.

آبادیات و سماج


صوبہ خیبرپختونخواہ کی آبادی اندازاً ۲۱ ملین ہے. سب سے بڑا نسلی گروہ پختونوں کا ہے جن کی آبادی صوبے کی کل آبادی کا تقریباً ۶۶ فیصد ہے. سب سے بڑی زبان پشتو جبکہ ہندکو دوسری بڑی عام بولی جانے والی مقامی زبان ہے. پشتو مغربی اور جنوبی سرحد میں غالب زبان ہے اور یہ کئی شہروں اور قصبوں کی اصل زبان بھی ہے جن میں پشاور بھی شامل ہے. ہندکو بولنے والے مغربی سرحد مثلاً ہزارہ ڈویژن میں اور خصوصاً ایبٹ آباد، مانسہرہ اور ہری پور شہروں میں عام ہیں. سرائیکی اور بلوچی بولنے والے صوبے کے جنوب مشرق میں خصوصاً ڈیرہ اسماعیل خان میں رہتے ہیں.
صوبہ خیبر پختونخواہ کے مرکز اور جنوب کے دیہاتی علاقوں میں کئی پختون قبیلے آباد ہیں جن میں یوسفزئی، تنولی ،دلازاک، خٹک، مروت، آفریدی، شنواری، اورکزئی، بنگش، محسود، مھمند ، بنوسی اور وزیر قبائیل شامل ہیں. شمال کی طرف سواتی، ترین، جدون اور مشوانی بڑے پشتون قبیلے ہیں. کئی غیر پشتون ق، بیلے بھی ہیں مثلاً اعوان، گجر وغیرہ. اعوان قبیلے کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اصل میں عرب ہیں اور اس قبیلے کے لوگ باقی پشتونوں اور غیر پشتونوں سے مختلف ہیں.
شمال میں ضلع چترال ہے جہاں چھوٹے نسلی گروہ جیسے کوہستانی، خوار، شینا، توروالی، کالاشا اور کالامی آباد ہیں.
اِس کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ۱.۵ ملین افغان مہاجرین بھی قیام پذیر ہیں جن میں اکثریت پشتونوں کی ہے.
صوبہ خیبر پختونخواہ کے تقریباً تمام باشندگان مسلمان ہیں جن میں سُنّی سب سے زیادہ ہیں.

تاریخ


قدیم تاریخ


خطۂ صوبہ خیبر پختونخواہ میں قدیم زمانے سے کئی حملہ آور گروہ آتے رہے ہیں جن میں فارسی، یونانی، کُشن، ہُنز، عرب، تُرک، منگول، مُغل، سکھ اور برطانیہ شامل ہیں. 1500 اور 2000 قبل از مسیح کے درمیان، آریائی قوم کی ایک ایرانی شاخ بنی جس کی نمائندگی پشتون کررہے تھے اُنہوں نے صوبہ خیبر پختنونخواہ کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کرلیا۔

۶ صدی عیسیوی سے وادئ پشاور مملکتِ گندھارا کا مرکز تھا. بعد میں یہ شہر کُشن دورِ سلطنت کا دارالحکومت بھی بنا. اس خطے پر کئی معروف تاریخی اشخاص کے قدم پڑے مثلاً دیریس دوم، اسکندر اعظم، ہیون سنگ، فا ہین، مارکوپولو، ماؤنٹسٹارٹ ایلفنسٹائن اور ونسٹن چرچل۔

خطّے پر موریائی قبضے کے بعد، بدھ مت یہاں کا بڑا مذہب بنا، خصوصاً شہری علاقوں میں جیسا کہ حالیہ آثاریاتی اور تشریحی شواہد سے پتا چلتا ہے. ایک بڑا کُشن فرماں روا کنیشکا بھی بُدھ مت کے عظیم بادشاہوں میں سے ایک تھا.
جبکہ دیہی علاقوں نے کئی شمنیتی عقائد برقرار رکھے مثلاً کالاش گروہ اور دوسرے. پشتونولی یا روایتی ضابطۂ وقار جس کی پشتون قوم پاسداری کرتی ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ اِس کی جڑیں بھی اسلام سے پہلے کی ہیں.

شاہی دور


صدی عیسوی کے اوائل میں، اسلام کی آمد سے پہلے، صوبہ خیبر پختونخواہ پر بادشاہ حکومت کرتے تھے. پہلے حکمران تُرک تھے اور انہوں نے اِس خطے پر 870 صدی عیسوی تک حکومت کی. اُن کے بعد کے حکمرانوں کا شاید ہمسایہ کشمیر اور پنجاب کے حکمرانوں سے روابط تھے. جیسا کے آثار و تاریخ مثلاً سکّوں اور دوسری بنائی ہوئی چیزیں اُن کے کثیر ثقافتی کا ثبوت دیتی ہیں. ان آخری حکمرانوں کو اپنے برادرانہ قبیلوں نے آخر کار ختم کردیا جن کی کمان محمودِ غزنوی کررہے تھے۔(محمودغزنوی کے دورحکومت میں پشتون قبیلہ دلازاک وادی پشاورمیں آبادھوچکاتھا.دلازاکوں نے خیبرکے نام سے ایک قلعہ بنایا- جوبابرکے دورحکومت میں یوسف زئ کے ہاتھوں بے دخل ھوگۓ)

اِسلام کی آمد


بدھ مت اور شمن پرستی اُس وقت تک بڑے مذاہب رہے جب تک مسلمانوں اور ترکوں نے 1000 صدی عیسوی کے آواخر میں قبضہ کرلیا. رفتہ رفتہ پشتون اور دوسرے قبیلے اسلام میں داخل ہوتے رہے. اِس دوران انہوں نے اپنے کچھ روایات برقرار رکھے جیسا کہ پشتونوں کی روایت پشتونولی یا ضابطۂ وقار و عزت. صوبہ خیبر پختونخواہ عظیم اِسلامی مملکت یعنی "غزنوید مملکت" اور مملکتِ محمد غور کا حصہ بھی رہا۔ اس زمانے میں باقی ماندہ مسلمان ممالک سے مسلمان تاجر، اساتذہ، سائنسدان، فوجی، شاعر، طبیب اور صوفی وغیرہ یہاں جوق در جوق آتے رہے۔

پشتون قوم پرستی


یہ صوبہ ایک اہم سرحدی علاقہ تھا جس پر مُغل اور فارس کے سفویوں کے درمیان اکثر اوقات تنازعہ رہتا تھا. مُغل حکمران اورنگزیب کے دَور میں، پشتون قوم پرست شاعر خوشحال خان خٹک نے اپنی شاعری کے ذریعے کئی پشتون قبائل کو حکمرانوں کے خلاف بیدار کیا، جس کی وجہ سے اِس خطے کو قابو میں رکھنے کے لئے بہت بڑی طاقت کی ضرورت تھی. خطہ بعد میں دُرّانی حکومت کے ذریعے یکجا ہوا جس کی بنیاد احمد شاہ دُرّانی نے ۱۷۴۷ء میں رکھی تھی.

برطانوی دور



افغانستان 1893ء کے ڈیورنڈ معاہدے سے پہلے
برطانیہ اور روس کے درمیان جنوبی ایشیاء پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے کئی تصادم ہوئے. جس کے نتیجے میں افغانستان کی تقسیم واقع ہوئی. افغانوں سے دو جنگوں کے بعد برطانیہ 1893ء میں ڈیورنڈ لائن نافذ کرنے میں کامیاب ہوگیا. ڈیورنڈ لائن نے افغانستان کا کچھ حصہ برطانوی ہندوستان میں شامل کردیا. ڈیورنڈ لائن، سر مورتیمر ڈیورنڈ کے نام سے ہے جو برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے معتمدِ خارجہ تھے. افغان ڈیورنڈ لائن کو ایک عارضی خط جبکہ برطانیہ اِس کو ایک مستقل سرحد سمجھتے تھے. یہ سرحدی خط قصداً ایسے کھینچی گئی کہ پختون قبیلے دو حصوں میں بٹ گئے.
برطانیہ جس نے جنوبی ایشیاء کا باقی حصہ بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کرلیا تھا، یہاں پر اُسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. پشتونوں کے ساتھ پہلی لڑائی کا نتیجہ بہت بُرا نکلا اور برطانوی فوج کا صرف ایک سپاہی جنگِ میدان سے واپس آنے میں کامیاب ہوا (جبکہ برطانوی فوجیوں کی کل تعداد 14,800 تھی). خطے میں اپنی رِٹ قائم رکھنے میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا کھیل شروع کیا. برطانیہ نے اِس کھیل میں کٹھ پتلی پشتون حکمران صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھیجے. تاکہ پشتونوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوسکے. باوجود اِس کے، موقعی پشتون حملے ہوتے رہے مثلاً محاصرۂ مالاکنڈ.
صوبہ خیبر پختونخواہ 9 نومبر 1901 کو بطورِ منتظمِ اعلٰی صوبہ بنا. اور اس کا نام صوبہ سرحد رکھا گیا۔ ناظمِ اعلٰی صوبے کا مختارِ اعلٰی تھا. وہ انتظامیہ کو مشیروں کی مدد سے چلایا کرتا تھا.
صوبے کا باضابطہ افتتاح 26 اپریل 1902ء کو شاہی باغ پشاور میں تاریخی ‘‘دربار’’ کے دوران ہوا جس کی صدارت لارڈ کرزن کررہے تھے. اُس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ کے صرف پانچ اضلاع تھے جن کے نام یہ ہیں: پشاور، ہزارہ، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان. مالاکنڈ کی تین ریاستیں دیر، سوات اور چترال بھی اس میں شامل ہوگئیں. صوبہ خیبرپختونخواہ میں قبائل کے زیرِ انتظام ایجنسیاں خیبر، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان بھی شامل تھیں. صوبہ خیبر پختونخواہ کے پہلے ناظمِ اعلٰی ہرولڈ ڈین تھے.
صوبہ خیبر پختونخواہ ایک مکمل حاکمی صوبہ 1935ء میں بنا. یہ فیصلہ اصل میں 1931ء میں گول میز اجلاس میں کیا گیا تھا. اجلاس میں اِس بات پر اتفاقِ رائے ہوا تھا کہ صوبہ سرحد کا اپنا ایک قانون ساز انجمن ہوگا. اِس لئے، 25 جنوری 1932ء کو وائسرائے نے قانونساز انجمن کا افتتاح کیا. پہلے صوبائی انتخابات 1937ء میں ہوئے. آزاد اُمیدوار اور جانے پہچانے جاگیردار صاحبزادہ عبدالقیوم خان صوبے کے پہلے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے.

آزادی کے بعد


برطانیہ سے آزادی کے بعد، 1947ء کے اِستصوابِ رائے میں صوبہ سرحد نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی. تاہم، افغانستان کے 1949ء کے لویہ جرگہ نے ڈیورنڈ لائن کو غلط قرار دیا. جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات ابھرے. 1950ء میں افغانستان نے علٰیحدگی پسند تحریک کی حمایت کی لیکن اِس تحریک کو قبائل میں پذیرائی حاصل نہ ہوئی. صدر ایوب خان کے پاکستانی صوبوں کے احذاف کے بعد، صدر یحیٰی خان نے 1969ء میں اِس ‘‘ایک اِکائی’’ منصوبے کو منسوخ کردیا اور سوات، دیر، چترال، کوہستان کو نئے سرحدات میں شامل کردیا.
1979ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے تک پختونستان کا مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی دہائیوں تک تنازعات کا مؤجب بنا. حملے کے سبب پچاس لاکھ افغان مہاجرین نے پاکستان کی طرف ہجرت کی، جو کہ زیادہ تر صوبہ سرحد میں قیام پذیر ہوئے (2007ء کے شمار کے مطابق قریباً تیس لاکھ ابھی بھی رہتے ہیں). افغانستان پر سوویت کے قبضے کے دوران، 1980ء کی دہائی میں صوبہ خیبر پختونخواہ مجاہدین کا بہت بڑا مرکز تھا جو سوویت یونین کے خلاف لڑرہے تھے.



نیا نام


2010 میں پاکستان کی پارلمینٹ میں پیش کیے جانے والے آٹھارویں ترمیم میں صوبے کا نام صوبہ سرحد سے تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ رکھا گیا۔ جو کہ یہاں کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا۔ اب اس صوبے کو اسی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حکومت


صوبہ خیبر پختنونخواہ کی صوبائی اسمبلی یک ایوانی ہے اور یہ 124 نشستوں پر مشتمل ہے جس میں دو فیصد اقلیتوں اور سترہ فیصد خواتین کے لئے مخصوص ہیں.

اضلاع



صوبہ خیبر پختونخواہ کا اضلاعی نقشہ
صوبہ خیبر پختونخواہ میں 25 اضلاع ہیں:

ایبٹ آباد
بنوں
بٹگرام
تور غر
بونیر
چارسدہ
چترال
ڈیرہ اسماعیل خان
ہنگو
ہری پور
کرک
کوہاٹ
کوہستان
لکی مروت
دیر زیریں
مالاکنڈ
مانسہرہ
مردان
نوشہرہ
پشاور
شانگلہ
صوابی
سوات
ٹانک
دیر بالا

اہم شہر



پی.ٹی.ڈی.سی قیام گاہ، مالم جبہ اسکی مرکز، سوات، پاکستان
ایبٹ آباد
بنوں
بٹگرام
بونیر
چارسدہ
چترال
ڈیرہ اسماعیل خان
دیر
جمرود
ہنگو
ہری پور
حویلیاں
لتامبر
لنڈی کوتل
مالاکنڈ
مانسہرہ
مردان
نوشہرہ
پشاور
شانگلہ
صوابی
سوات
ٹانک
کوہاٹ


معیشت


سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کی وجہ سے یہ خطہ کئی دہائیوں تک مشکلات کا سامنا کرتا رہا. آج پھر اِس خطے کے حالات خصوصاً معیشت ناگفتہ بہ ہے.
زراعت کا خیبر پختونخوا کی معیشت میں اہم کردار ہے. صوبے کے بڑے پیداوار گندم، مکئی، چاول، گنّا ہیں جبکہ کئی پھل بھی اگائے جاتے ہیں. پشاور میں کچھ صنعتی اور اعلٰی طرزیاتی سرمایہ کاری نے علاقے کے لوگوں کے لئے ذرائع آمدن مہیا کرنے میں بہت مدد کی ہے. صوبے میں ہر اُس چیز کی تجارت ہوتی ہے جس سے پاکستان کے لوگ واقف ہیں. اور یہاں کے بازار پورے پاکستان میں مشہور ہیں. صنعتوں کے قیام سے بے روزگاری میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے.

تعلیم


صوبے میں اعلٰی تعلیم کے طرف رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور صوبہ پختونخواہ میں پاکستان کی سب سے پہلی جامعۂ ہندسیات (غلام اسحٰق خان انسٹیٹیوٹ) بھی ہے. یہ جامعہ صوابی کے ایک قصبہ ٹوپی میں واقع ہے. جامعہ پشاور اعلٰی تعلیم کا ایک مشہور اِدارہ ہے.
درج ذیل خریطہ 1998ء میں حکومت کی خیبر پختونخوا کی شرح تعلیم کے اندازوں کے بارے میں ہے:

تعلیمی قابلیت شہری دیہی کُل اندازاً شرح(%)
2,994,084 14,749,561 17,743,645
ابتدائی سے پہلے 413,782 3,252,278 3,666,060 100.00
ابتدائی 741,035 4,646,111 5,387,146 79.33
وسطی 613,188 2,911,563 3,524,751 48.97
میٹرک 647,919 2,573,798 3,221,717 29.11
ثانوی 272,761 728,628 1,001,389 10.95
بی.اے، بی.ایس.سی ڈگری 20,359 42,773 63,132 5.31
ایم.اے، ایم.ایس.سی ڈگری 183,237 353,989 537,226 4.95
ڈپلومہ، سرٹیفیکیٹ 82,037 165,195 247,232 1.92
دوسرے 19,766 75,226 94,992 0.53

بڑے جامعات ،کالجیں اور ادبی تنظیمیں

اسلامیہ کالج، پشاور
زرعی یونیورسٹی پشاور
ایوب طب کالج, ایبٹ آباد
کیڈٹ کالج رزمک
فضائی ہندسیات کالج
کالج آف فلائنگ ٹریننگ
غلام اسحٰق خان ادارۂ تعلیم برائے ہندسیات و سائنسیات, ٹوپی
جامعہ گومل
جامعہ ہزارہ
اسلامیہ کالج پشاور
خیبر طب کالج پشاور
جامعہ کوہاٹ برائے سائنس و طرزیات
فوجی کالج برائے ہندسیات
قومی ادارہ برائے نقل و حمل
قومی ادارۂ تعلیم برائے شمارندیات و ظہور پذیر سائنسیات
پاکستان فضائیہ اکیڈیمی
پاکستان فوجی اکیڈیمی
جامعہ ہندسیات و طرزیات پشاور
جامعہ مالاکنڈ
جامعہ پشاور
جامعہ سائنس و طرزیات، بنوں
کھوار اکیڈمی
پشتو اکیڈمی
ہندکو ادبی بورڈ


لوک موسیقی


پشتو لوک موسیقی پورے خیبر پختونخوا میں مقبول ہے. پشتو لوک موسیقی اپنے اندر کئی سو سالوں کی روایات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے. پشتو موسیقی میں استعمال ہونے والے بڑے آلات رباب، منگے اور ہارمونیم ہیں.
کھوار لوک موسیقی چترال اور شمالی سوات میں مقبول ہے. کھوار موسیقی کے سُر پشتو موسیقی سے مختلف ہیں. چترالی ستار سب سے زیادہ استعمال ہونے والی آلۂ موسیقی ہے.
سندھ سندھی: سنڌ پاکستان کے چارصوبوں میں سے ایک اہم صوبہ ہے، جو برِصغیر کے قدیم ترین تہذیبی ورثے اور جدید ترین معاشی و صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔
لفظ ’’سندھ‘‘ دراصل دریائےسندھ ہی سے مستعار ہے، جو سنسکرت لفظ ’’سندھو‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔

آب و ہوا


ذیلی منطقہ حارہ میں واقع ہونے کی وجہ سے سندھ کی عمومی آب و ہوا، گرم اور خشک ہے جبکہ ساحلی علاقوں کا موسم قدرے مرطوب ہے۔ تاہم، گرمیوں (باالخصوص مئی۔جون) میں موسم سخت گرم اور سردیوں (باالخصوص دسمبر۔جنوری) میں موسم انتہاہی سرد رہتا ہے۔ سندھ کا علاقہ جیکب آباد اپنے ریکارڈ درجہ حرارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ جولائی اور اگست کے ماہ مون سون کے موسم ہیں۔ سندھ میں اوسطاً سالانہ سات انچ بارش ہوتی ہے۔ یہ بات کم ہی افراد جانتے ہیں کہ سندھ کے شمال میں کوہ کھیرتھرکے بعض علاقے سطح سمندر سے 6000 ہزار فٹ بلند ہیں اور موسمِ سرما میں اکثر یہاں برف باری ہوتی ہے۔

تاریخ


زمانہ قدیم سندھ اپنے دامن میں دنیا کا قدیم ترین تہذیبی ورثہ سموے ہوے ہے۔ تحقیقی شواہد بتاتے ہیں کہ دراڑوی آبادکاروں سے قبل یہاں(7000 ق م) مختلف قبائل آباد تھے ۔ دراڑویوں نے تقریباً 4000 ق م میں وادئ سندھ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ موہن جوداڑو کے کھنڈرات بتاتے ہیں کہ دراڑوی اپنے علم و فن میں یکتا، کاشتکاری اور تجارت سے آگاہ مہذب قوم تھے۔ جنہوں نےپانچ ہزار سال قبل (3000 ق م) وادئ سندھ کو علمی، فنی، اور تجارتی لحاظ سے اپنی ہم عصر مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں کے شانہ بہ شانہ لا کھڑا کیا۔ وادئ سندھ کے دامن میں کئی شہری مراکز قائم تھے، جنہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیا گیا تھا۔ موجودہ گرڈ سسٹم کے قاعدے کے مطابق آباد ان شہروں میں شاہرایں پختہ تھیں، اور نکاسی و فراہمئ آب کا زیرِ زمین نظام موجود تھا۔مگر پھر کسی ناقابلِ دریافت وجہ سے وادئ سندھ کے یہ عظیم مراکز تباہی سے دوچار ہوگئے۔ موہن جو داڑو اور دیگر دراڑوی مراکز کی تباہی کی کیا وجوہات تھیں، اس پر محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے قدرتی آفات اور سیلاب قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض محققین کے نزدیک وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ سے آریاوں کی فوجی یلغار نے یہ تہذیب نیست و نابود کردی۔ آریاوں نے یہاں ہند۔آریائی تہذیب کی بنیاد ڈالی، جو دریائےسرسوتی اور دریائے گنگا کے کناروں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ تہذیب 1500 ق م میں اپنے عروج پر تھی۔ ہند۔آریائی تہذیب (ویدک سویلایزیشن 1700-500 ق م) نے ہندوستان کے مذہب، رسوم، معاشرت و رہن سہن پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔

سندھ: کلہوڑا دور کا فنِ تعمیر

برِصغیر کے فن و ثقافت، خاص طور پر فنِ تعمیر کے ضمن میں محققین کی یہ شکایت عام ہے کہ علاقائی رجحانات پر نہ تو ریسرچ کی جاتی ہے اور نہ ہی اِن نادر و نایاب نقوش کا کوئی مستند ریکارڈ آنے والی نسلوں کےلئے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس شکایت کے ازالے کی خاطر آج سے تین برس پہلے سندھی ثقافت کے امین ادارے سندھ آرکائیوز نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کی جِسے ماہرین فنِ تعمیر کے علاوہ تاریخ کے طلباء نے بھی بہت سراہا اور بے چینی سے اس منصوبے کے نتائج کا انتظار کرنے لگے۔

حال ہی میں اس سلسلے کا تحقیقی مواد ایک کتاب کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے۔

جسکے مولّف ہیں سید حاکم علی شاہ بخاری۔

مواد کی ترتیب و پیشکش میں انھیں سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر غلام محمد لاکھو اور ڈاکٹر کلیم اللہ لاشاری کی مدد اور بھر پور تعاون حاصل رہا ہے۔

ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ ورثہ دو طرح کا ہوتا ہے: مرئی اور غیر مرئی۔ مرئی اشیا وہ ہیں جنھیں ہم ٹھوس شکل میں اپنے سامنے دیکھ سکتے ہیں مثلاً فنِ تعمیر، مصوری، صنم تراشی، نقاشی، کندہ کاری، زر دوزی وغیرہ، جبکہ غیر مرئی ثقافتی ورثے میں شعر و ادب وغیرہ آتے ہیں۔ ٹھوس شکل میں نظر آنے والا ثقافتی ورثہ خودبخود محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اگر قدیم رومن آثار، یونانی کھنڈرات، پراچین بھارت کے مندر اور جنوبی امریکہ میں قبلِ مسیح کے تاریخی آثار کو بے رحم فطرت کے مقابل بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہوتا تو آج ہمیں قدماء کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ ہوتا۔

سندھی تہذیب کی بہت سی تاریخی نشانیاں موسمی شداید کی نذر ہو کر ہمیشہ کےلئے نابود ہو چُکی ہیں، لیکن جو آثار ابھی موجود ہیں اُن کو ریکارڈ پر لانا اور اُن کے تحفظ کی جدو جہد کرنا، سندھ آرکائیوز کے مقاصد میں شامل ہے اور اس غرض سے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ زیرِ نظر کتاب ایسے ہی ایک ریسرچ پراجیکٹ کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

پاک و ہند کے فنِ تعمیر پر یوں تو گذشتہ دو صدیوں سے کام ہو رہا ہے لیکن یہ محققین یورپ سے تعلق رکھتے تھے اور اُن کی تمام تر عرق ریزی کے باوجود یہ نکتہ اُن پر عیاں نہ ہوسکا کہ وہ ہندوستانی فنِ تعمیر کو یورپ کے روائیتی کلاسیکی پیمانوں سے ناپ رہے ہیں۔ اس سقم کا احساس پہلی بار 1920 کی دہائی میں ہوا لیکن تب تک ثقافتی مطالعے کے ضمن میں کئی اور نظری مسائل سر اُٹھا چُکے تھے، مثلاً یہی کہ ایک دور کے طرزِ تعمیر کو دوسرے دور سے ممیّز کرنے کےلئے ہم ایک واضح خطِ تقسیم کیسے کھینچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور ہر کیا ہم سلطنت دور کے فنِ تعمیر کو ایک لکیر کھینچ کر مغلیہ دور کے فنِ تعمیر سے الگ کر سکتے ہیں؟

زیرِ نظر کتاب میں یہ مسئلہ مغلیہ اور کلہوڑا دور کے خطِ امتیاز کی صورت میں نظر آتا ہے، کیونکہ تاریخی طور پر جب کلہوڑا دور کا سورج طلوع ہو رہا تھا تو سلطنتِ مغلیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا لیکن ادب، آرٹ، کلچر اور تہذیب کی تقسیم دو ٹوک انداز میں نہیں ہوسکتی کیونکہ ایک دور کے اثرات اگلے دور کے انداز دُور تک مار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سندھ ارکائیوز کے ڈائریکٹر اقبال نفیس خان کی مدد سے مصنف حاکم علی شاہ بخاری نے اس پراجیکٹ کا قریب سے مطالعہ کیا اور ایک ایسی کتاب تحریر کی جو نہ صرف اسکالروں بلکہ عام قارئین کےلئے بھی دلچسپی کا باعث بنے اور کلہوڑا دور کے حوالے سے پڑھنے والوں کے ذہن میں سندھ کے قدیم اور جدید طرزِ تعمیر کی مختلف جہتوں کو روشن کرے۔

گڑھی کے مقام پر میاں نصیر محمد کی مسجد جو امتدادِ زمانہ سے کھنڈر میں تبدیل ہوچُکی تھی، لیکن حال ہی میں اسکی تعمیرِ نو ہوئی ہے

کلہوڑا دور کے فنِ تعمیر پر بڑی تختی کے ایک سو ستائیس صفحات پر مشتمل یہ کتاب سندھ آرکائیوز نے خود شائع کی ہے۔ مختلف عمارتوں کی رنگین اور سیاہ و سفید تصاویر حاصل کرنے کےلئے کراچی کے جوان سال فوٹو گرافر وقار اشرف کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ طالب علموں کی قوتِ خرید کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کتاب کی قیمت صرف 400 روپے مقرر کی گئی ہے جو کہ کتاب پر آنے والی اصل لاگت سے بہت کم محسوس ہوتی ہے۔

سندھ کی انتظامی تقسیم


سندھ کے اضلاع


موجودہ سندھ، انتظامی لحاظ سےمندرجہ ذیل 23 ضلعوں میں منقسم ہے۔

بدین
ٹھٹہ
حیدرآباد
جیکب آباد
خیر پور
دادو
ٹنڈو الہ یار
ٹنڈو محمد خان
سانگھڑ
شکارپور
سکھر
عمرکوٹ
قمبر علی خان
کراچی
کشمور
گلگت بلتستان (Gilgit Baltistan) پاکستان کا شمالی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر یہ تین ریاستوں پر مشتمل تھا یعنی ہنزہ، گلگت اور بلتستان۔ 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ سکھ راجہ نے ان علاقوں پر بزور قبضہ کر لیا اور جب پاکستان آزاد ہوا تو اس وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیرِ نگیں تھا۔ 1948ء میں اس علاقے کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ 2009ء میں اس علاقے ہو آزاد حیثیت دے کر پہلی دفعہ یہاں انتخابات کروائے گئے۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے [4][5]۔

شمالی علاقہ جات کی آبادی 11لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971مربع کلومیٹر ہے ‘ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان کا نیا مجوزہ صوبہ دوڈویژنز بلتستان اور گلگت پر مشتمل ہے۔ اول الذکر ڈویژن سکردو اور گانچے کے اضلاع پر مشتمل ہے جب کہ گلگت ڈویژن گلگت،غذر،دیا میر، استور اورہنزہ نگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ سرحد واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔[6]


تاریخ


چینی سیاح فاہیانگ جب اس علاقے میں داخل ہوا تو یہاں پلولا نامی ریاست قائم تھی جو کہ پورے گلگت بلتستان پے پھیلی ہوئی تھی اور اسکا صدر مقام موجودہ خپلو کا علاقہ تھا۔ پھر ساتھویں صدی میں اسکے بعض حصے تبت کی شاہی حکومت میں چلے گۓ پھر 9 صدی میں یہ مقامی ریاستوں میں بٹ گئی جن میں سکردو کے مقپون اور ہنزہ کے ترکھان خاندان مشہور ہیں مقپون خاندان کے راجاؤں نے بلتستان سمیت لداخ،گلگت اور چترال تک کے علاقوں پر حکومت کی احمد شاہ مقپون اس خاندا کا آخری راجا تھا جسے ڈوگرہ افواج نے ایک ناکام بغاوت میں 1840ء میں قتل کر ڈالا پھر 1947ء میں بر صغیر کے دوسرے مسلمانوں کی طرح یہاں بھی آزادی کی شمع جلنے لگی کرنل مرزا حسن خان نے اپنے ساتھیوں کے ہماراہ پورے علاقے کو ڈوگرہ استبداد سے آزاد کر ڈالا۔

اضلاع اور اعداد و شمار


گلگت و بلتستان اب نو اضلاع پر مشتمل ہے جن میں سے چار بلتستان میں، تین گلگت اور دو ہنزہ۔نگر کے اضلاع ہیں۔ اس سے پہلے ہنزہ۔نگر کو بھی گلگت ڈویژن میں شمار کیا جاتا تھا جسے اب علیحدہ کر دیا گیا ہے۔

ڈویژن اضلاع رقبہ (مربع کلومیٹر) آبادی (1998ء) مرکز
بلتستان ضلع گانچھے 9,400 165,366 خپلو
  ضلع سکردو 8,000 214,848 سکردو
  شگر 8,500 109,000 شگر
  کھرمنگ 5,500 188,000 طولطی
گلگت ضلع استور 8,657 71,666 گوری کوٹ/عید گاہ
  ضلع دیامر 10,936 131,925 چلاس
ضلع غذر 9,635 120,218 گاہ کچ
  ضلع گلگت 39,300 383,324 گلگت
  ضلع ہنزہ۔نگر 20,057 112,450 علی آباد
گلگت و بلتستان۔ مجموعاً 9 اضلاع 119,985 1,496,797 گلگت
نئے ضلع ہنزہ۔نگر کا رقبہ اور آبادی ابھی گلگت کے ساتھ شامل ہے کیونکہ درست شمار دستیاب نہیں:
گلگت و بلتستان کے کل رقبہ کا درست شمار دستیاب نہیں اور مختلف جگہ مختلف رقبے ملتے ہیں اس لیے یہاں صرف تمام رقبوں کا درست مجموعہ دیا گیا ہے۔
پاکستان ميں 4 صوبے، 2 وفاقی علاقے اور پاکستانی کشمير کے 2 حصے ہيں۔ حال ہی میں پاکستانی پارلیمنٹ نے گلگت بلتستان کو بھی پاکستان کے پانچویں صوبے کی حیثیت دے دی ہے۔

صوبہ جات

بلوچستان
پنجاب
خیبر پختونخوا
سندھ
گلگت بلتستان
وفاقی علاقے

وفاقی دارالحکومت،اسلام آباد
وفاقی قبائلی علاقہ جات
پاکستانی کشمير

آزاد کشمير
پاکستان دوسری دنيا کا ايک ترفی پزير ملک ہے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات ميں فوج كى بيجا مداخلت، کثیر اراضی پر قابض افراد (وڈیرے ، جاگیردار اور چوہدری وغیرہ) کی عام انسان کو تعلیم سے محروم رکھنے کی نفسیاتی اور خود غرضانہ فطرت (تاکہ بیگار اور سستے پڑاؤ (labor camp) قائم رکھے جاسکیں)، اعلٰی عہدوں پر فائز افراد کا اپنے مفاد میں بنایا ہوا دوغلا تعلیمی نظام (تاکہ کثیر اراضی پر قابض افراد کو خوش رکھا جاسکے اور ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی [عموماً انگریزی اور/ یا ولایت میں تعلیم کے بعد] اجارہ داری کيليے راہ کو کھلا رکھا جاسکے)، مذہبی علماؤں کا کم نظر اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کا رویہ اور بيرونی کشيدگی کی وجہ سے ملک کی معيشت زيادہ ترقی نہيں کر سکی۔ پہلے پاکستان کی معيشت کا زيادہ انحصار زراعت پر تھا۔ مگر اب پاکستان کی معيشت (جو کہ کافی کمزور سمجھی جاتی ہے) نے گیارہ ستمبر کے امریکی تجارتی مرکز پر حملے، عالمی معاشی پستی، افغانستان جنگ، پانک کی کمی اور بھارت کے ساتھ شديد کشيدگی کے با وجود کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کيا [حوالہ درکار]۔ ابھی پاکستان کی معيشت مستحکم ہے اور تيزی سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے [حوالہ درکار]۔ کراچی سٹاک ایکسچینج کے کے ايس سی انڈکس گزستہ دو سالوں سے دنيا بھر ميں سب سے بہترين کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنيا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی بہت تيزی سے بڑھ رہی ہے۔
پاکستان کے 96.7 فيصد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصد اہل تشیع 77 فيصد اہل سنت اور تقریباً 3 فيصد ديگر مذاہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ايكـ فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانی عیسائی ہيں۔ ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب و‌سرحد ميں سکھ اور شمالی علاقوں ميں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔
پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ ليکن زيادہ تر دفتری کام انگريزی ميں کیے جاتے ہيں۔ پاکستان کے خواص بھی بنيادی طور پر انگريزی کا استعمال کرتے ہيں۔ پاکستان ميں تمام تر اعلیٰ تعليم بھی انگريزی ميں ہی دی جاتی ہے۔ با وجود اس کے اردو پاکستان کی عوامی و قومی زبان ہے۔ اردو کے علاوہ پاکستان ميں کئ اور زبانيں بولی جاتی ہيں، ان ميں پنجابی، سرائکی، سندھی، گجراتی، بلوچی، براہوی، پشتو اور ہندکو زبانیں قابلِ ذکر ہيں۔
پاکستان ميں مختلف قوموں سے تعلّق رکھنے والے لوگ آباد ہيں، ان ميں زيادہ نماياں پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی اور مہاجر ہيں۔ ليکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے درميان فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کی بہت قديم اور رنگارنگ تہذيب ہے۔ پاکستان کا علاقہ ماضی ميں دراوڑ، آريا، ہن، ايرانی، يونانی، عرب، ترک اور منگول لوگوں کی رياستوں ميں شامل رہا ہے۔ ان تمام تہذيبون نے پاکستان کی موجودہ تہذيب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف صوبوں ميں لباس، کھانے، زبان اور تمدن کا فرق پايا جاتا ہے۔ اس ميں اس علاقوں کی تاريخی عليحدگی کے ساتھ ساتھ موسم اور آب و ہوا کا بھی بہت اثر ہے۔ ليکن ايک اسلامی تہذيب کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس ميں کافی تہذيبی ہم آہنگی بھی موجود ہے۔

پاکستان ميں بہت مختلف قسم کی موسيقی ملتی ہے۔ کلاسيکی موسيقی، نيم کلاسيکی موسيقی، لوک موسيقی اور اس کے ساتھ ساتھ جديد پاپولر ميوزک سب ہی کے پاکستان ميں بلند پايہ موسيقار موجود ہيں۔ پاکستان دنيا بھر ميں قوالی کا مرکز ہے۔

پاکستانی تہذيب ميں مغربی عناصر بڑھتے جا رہے ہيں۔ يہ امراء اور روساء ميں اور بڑے شہروں ميں زيادہ نماياں ہے کيونکہ مغربی اشياء، ميڈيا اور تہذيب تک ان کی زيادہ رسائ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ايک بڑھتی ہوئی تحريک ہے جو کہ مغربی اثرات کو کم ديکھنا چاہتی ہے۔ کچھ جکہوں ميں اس تحريک کا زيادہ جھکا‏ؤ اسلام اور کچھ ميں روايات کی طرف ہے۔

پاکستانيوں کی بڑی تعداد امريکہ، برطانيہ، آسٹريليا، کنيڈا اور مشرق وسطی ميں مقيم ہے- ان بيرون ملک پاکستانيوں کا پاکستان پر اور پاکستان کی بين الاقوامی تصوير پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان لوگوں نے ماضی ميں پاکستان ميں بہپ سرمايہ کاری بھی کی ہے۔

پاکستان کا سب سے پسندينہ کھيل کرکٹ ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹيم دنيا کی اچھی ٹيموں ميں شمار ہوتی ہے۔ کرکٹ کے ساتھ ساتھ پاکستان ميں ہاکی بھی بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔ ہاکی جو كہ پاكستان كا قومى كھيل بھى ہےـ چوگان (پولو) پاکستان کے شمالی علاقہ جات كے لوگوں كا كھيل ہے اور اس كھيل كى پيدايش بھى يہيں ہوئى اور آج تک ان علاقوں ميں بہت شوق سے کھيلی جاتی ہے۔
دیگر انسانی بنیادی ضروریات کی ناپیدی اور انحطاط کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کا شعبہ بھی پاکستان میں انتہائی تنزل کا شکار ہے۔ جہاں دنیا ڈی این اے ویکسین اور وراثی معالجات کی جانب سفر کر رہی ہے وہاں پاکستان میں بڑے ہی نہیں بچے تک ناقص غذا اور صفائی ستھرائی کی عدم دستیابی و غلاظت سے جنم لینے والے امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھا اور مناسب علاج صرف اعلٰی طبقے اور پیسے والے امیر افراد کے ليے مخصوص ہے جبکہ غریب سرکاری شفاخانوں میں طبیبوں اور ممرضات ہی کی نہیں چپراسیوں اور بھنگیوں تک کی باتیں اور دھتکار سے گذر دوا حاصل کر پاتے ہیں۔ سرکاری شفاخانے دنیا بھر کی تہذیب یافتہ اقوام میں اپنا ایک معیار رکھتے ہیں مگر پاکستان میں انکی حالت ایسی ہے کہ جسے دیکھنے کے بعد اس قوم کی تہذیبی اقدار کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
تعطيل نام وجہ
12 ربیع الاول جشن عید میلاد النبی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
9 اور 10 محرم یوم عاشورہ حضرت حسین بن علی کی شہادت کا دن
10 ذوالحجۃ عيد الاضحى حضرت ابراہيم علیہ السلام کی قربانی کی ياد ميں
1 شوال عيد الفطر رمضان کے اختتام پر اللہ كى نعمتوں كى شكرگزارى كا دن
1 مئی يوم مزدور مزدوروں کا عالمی دن
14 اگست يوم آزادی اس دن 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا ہوا
25 دسمبر ولادت قائد قائد اعظم کی ولادت کا دن
23 مارچ يوم پاکستان 1940میں اس روز منٹو پارک (موجودہ اقبال پارک) میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی
قومی دن - یوم پاکستان، 23 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ 23 مارچ 1940 کو قرار داد پاکستان منظور ہوئی اور اسی دن پاکستان پا پہلا آئین 1956 میں منظور ہوا۔
قومی شاعر - حکیم الامت حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال
قومی پرچم - اصل مضمون کے لیے دیکھیں قومی پرچم
گہرا سبز رنگ جس پر ہلال اور پانچ کونوں والا ستارہ بنا ہوا ہے۔ جھنڈے میں شامل سبز رنگ مسلمانوں کی، سفید رنگ کی بٹی پاکستان میں آباد مختلف مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ قومی پرچم گیارہ اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی نے دی تھی۔ اس پرچم کو لیاقت علی خان نے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا۔
قومی پھول - یاسمین
قومی لباس - شلوار قمیض، جناح کیپ، شیروانی (سردیوں میں)
جانور - مارخور قومی جانور ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں پائے جانے والے منفرد جانور نیل گائے، چنکارہ، کالا ہرن، ہرن، چیتا، لومڑی، مارکوپولو بھیڑ، سبز کچھوا، نابینا ڈولفن، مگرمچھ ہیں۔
قومی پرندہ - پاکستان کا قومی پرندہ چکور ہے۔
قومی مشروب - گنے کا رس
قومی نعرہ - پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ
یہ نعرہ مشہور شاعر اصغر سودائی نے 1944ء میں لگایا جو تحریک پاکستان کے دوران بہت جلد زبان زدوعام ہو گیا۔ ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے۔
قومی ترانہ - قومی ترانے کے لیے دیکھیں مضمون قومی ترانہ
ریاستی نشان درج ذیل نشانات پر مشتمل ہے۔
چاند اور ستارہ جو کہ روایتی طور پر اسلام سے ریاست کی عقیدت اور محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چوکور شیلڈ جس میں ملک کی چار اہم صنعتوں کی علامت کندہ ہے۔ شیلڈ کے ارد گرد پھول اور پتیاں بنی ہوئی ہیں جو وطن عزیز کے بھر پور ثقافتی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔ علامت کے چاروں طرف بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کا قول۔۔۔ اتحاد، ایمان، نظم تحریر ہے۔
زبان بیان
اردو قومی زبان
انگریزی سرکاری زبان
پنجابی 45٪
سندھی 15٪
سرائیکی (پنجابی سے ملتی جلتی) 10٪
اردو
پشتو 12٪
بلوچی
ہندکو، کھوار، براہوی، برشاشکی، چترالی اور دیگر زبانیں

شہر بلحاظ آبادی (تخمینہ 2010ء)

درجہ شہر صوبہ آبادی درجہ شہر صوبہ آبادی


1 کراچی سندھ 13,205,339 
2 لاہور پنجاب 7,129,609      
3 فیصل آباد پنجاب 2,880,675
4 راولپنڈی پنجاب 1,991,656
5 ملتان پنجاب 1,606,481          
6 حیدرآباد سندھ 1,578,367
7 گوجرانوالہ پنجاب 1,569,090
8 پشاورخیبر پختونخوا1,439,205
9 کوئٹہ بلوچستان 896,090         
10 اسلام آبادوفاقی دارالحکومت689,249
11 سرگودھا پنجاب 3,153,403
 12 بہاولپور پنجاب 543,929
13 سیالکوٹ پنجاب 510,863
14 سکھر سندھ 493,438
15 لاڑکانہ سندھ 456,544
16 شیخوپورہ پنجاب 426,980
17 جھنگ پنجاب 372,645
18 مردان خیبر پختونخوا 352,135
19 رحیم یار خان پنجاب 353,112
20 گجرات پنجاب 336,727

711 میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے جس کا دارالحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیاء کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

سن 1947 سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونی تھے اور برصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی (انگریزوں سے) کی تحریک کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک علیحدہ ملک کا مطالبہ کیا۔ "پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ" اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آیا۔ تقسیم برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1948اور 1965 میں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔ اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریا انڈیا کے زیر قبضہ کشمیر سے ہوکر آتے تھے لہذا پاکستان کو 1960 میں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا جس کے تحت پاکستان کومشرقی دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندہ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔

1947 سے لے کر 1948 تک پاکستان کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ء میں جناح صاحب کی اچانک وفات ہو گئیی۔ ان کے بعد حکومت لیاقت علی خان کے ہاتھ میں آئی۔ 1951 میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئییں اور ختم ہو گئییں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئیین نافذ ہوا۔ اس کے با وجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگ گیا۔

پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائیے گئیے۔ ایوب دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963 میں پاکستان کے دوسرے آئیین کا نفاذ ہوا۔ مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ تو ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل ہحیٰی خان کے حوالے کر دی جو کہ اس کے بالکل بھی اہل نہ تھے۔ 1971 کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحیٰی خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائیے مشرقی پاکستان میں فوجی اپریشن کو ترجیح دی۔ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان ایک علیحدہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

1972 سے لے کر 1977 تک پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں وطن عزیز کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اس دور میں سوشلسٹ اور پین اسلامک عنصر بڑھا۔ اس دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977 میں دوبارہ مارشل لاء لگ گیا۔

اگلا دور 1977 تا 1988 مارشل لاء کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988 میں ضیاء الحق نے برطرف کر دیا- 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلٰی عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔

اس کے بعد 1988 میں انتخابات ہوئے اور بينظير بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990 میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993 میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔

اس کے بعد پاکستان کے نئے صدر فاروق لغاری تھے۔ اگلے انتخابات 1993 میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ صدر فاروق احمد لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997 میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999 میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرويز مشرف بنے اور 2001 میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔

2004میں وقت کے جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فيصله کیا . مختصر عرصہ کے لیے چوہدرى شجاعت حسين نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز صاحب قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔ فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پی پی پی پی نے جناب یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔22 جون 2012 کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔ مئی 2013 میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔نوازشریف پاکستان کے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
اسلامی جمہوریۂ پاکستان جنوبی ايشياء کے شمال مغرب وسطی ایشیاء اور مغربی ایشیاء کیلی ۓدفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خودمختار اسلامی ملک ہے ۔20 کروڑ کی آبادی کیساتھ یہ دنیا کا چھٹا بڑاآبادی والا ملک ہے۔اسکے جنوب میں 1046 کلومیٹر (650میل) کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ اور يہ نام چودھری رحمت علی نے 1933ء کو تجويز کيا تھا۔پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واکھان بارڈر تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کا سرحدی حدود عمان کے سمندری حدود سے بھی ملتا ہے۔
موجودہ پاکستان کے علاقے قدیم دنیا میں وہ علاقے تھے جنمیں مہر گڑھ اور وادیٔ سندھ کی تہذیب پنپی تھی اس علاقے پر یونانی ایرانی عرب,ہندو افغان منگول اور ترک حملہ آوروں کی حکومت بھی رہی ہے۔یہ علاقہ مختلف سلطنت جیسے موریا ،حخمانیشی سلطنت عربوں کی خلافت امویہ ،مغول سلطنت ،مغلیہ سلطنت ،درانی سلطنت، سکھ سلطنت اور برطانوی راج کا اہم حصہ رہا ہے۔ اسکے بعد محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور 14 اگست 1947ء میں ہندوستان کے مشرق مغرب میں ایک آزاد اور خودمختار اسلمی ریاست قائم ہوئی۔پاکستان نے 1956ء میں اپنا پہلا قانون اپنایا۔ 1971ء میں ایک خانہ جنگی میں اسکا مشرقی حصہ الگ ہوکر ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔
پاکستان وفاقی پارلیمانی جمہوری ریاست کے تحت چلتا ہے اسکے چار صوبے اور کچھ وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقے ہیں یہ ملک لسانی اور قومی طور پر مختلف اقوام کا علاقہ ہے اور اسکا جغرافیہ بھی ہر طرح کے خطے پر مشتمل ہے۔پاکستان دنیا کا ایک اہم طاقتور ملک ہے جیسا کہ اسکی فوج دنیا کی ساتھویں بڑی فوج ہے اور اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیاء کی دوسری ایٹمی طاقت ہے اسکی معیشت دنیا میں 27 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان کی تاریخ فوجی آمریت، سیاسی عدم استحکام اور پڑوسی ملک سے جگھڑوں پر مشتمل ہے یہ ملک دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ملک ہے جبکے دیگر مسائل اہم میں غربت، جہالت ،کرپشن بجلی کے بحران شامل ہیں۔یہ ملک مؤتمر عالم اسلامی ، اقوام متحدہ ،دولت مشترکہ ممالک، سارک،ترقی پذیر 8،اقتصادی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کا اہم رکن ہے۔