2014

پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد سر شاہ نواز بھٹو مشیر اعلی حکومت بمبئی اور جونا گڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے1950 میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات میں گریجویشن کی۔ 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر کی ڈگری لی۔ اسی سال مڈل ٹمپل لندن سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ پہلے ایشیائی تھے جنھیں انگلستان کی ایک یونیورسٹی ’’ساؤ تھمپئین‘‘ میں بین الاقوامی قانون کا استاد مقرر کیا گیا۔ کچھ عرصہ مسلم لاء کالج کراچی میں دستوری قانون کے لیکچرر رہے۔ 1953ء میں سندھ ہائی کورٹ میں وکالت شروع کی


1958ء تا 1960ء صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر تجارت ، 1960ء تا 1962ء وزیر اقلیتی امور ، قومی تعمیر نو اور اطلاعات ، 1962ء تا 1965ء وزیر صنعت و قدرتی وسائل اور امور کشمیر جون 1963ء تا جون 1966ء وزیر خارجہ رہے۔ دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔دسمبر 1971ء میں جنرل یحیٰی خان نے پاکستان کی عنان حکومت مسٹر بھٹو کو سونپ دی ۔ وہ دسمبر 1971ء تا 13 اگست 1973 صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔ 14 اگست 1973ء کو نئے آئین کے تحت وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔



1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے سبب ملک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ 5 جولائی 1977 کو جنرل محمد ضیا الحق نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ ستمبر 1977ء میں مسٹر بھٹو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ 18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔ 4 اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔



آپ کے بعد محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے۔

بھٹو کیس ری ٹرائل



بھٹو کی پھانسی کے 32 سال بعد پی پی پی کے شریک چئیرمین آصف علی زرداری کے ریفرنس پر سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت شروع کرتے ہوئے لارجر بینج تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔

جنرل آغا محمد یحٰیی خان (4 فروری 1917ء - 10 اگست 1980ء) پاکستان کی بری فوج کے تیسرے سربراہ اور پانچوے صدر مملکت تھے۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں انھیں1966ء میں بری فوج کا سربراہ نامزد کیا۔ 1969ء میں ایوب خان کے استعفٰی کے بعد عہدۂ صدارت بھی سنبھال لیا۔ یحیی خان کے یہ دونوں عہدے سقوط ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971ء میں ختم ہوئے جس کے بعد انھیں طویل عرصے تک نظر بند بھی رکھا گیا۔



ابتدائی زندگی


1917ء میں پنجاب کے شہر چکوال[1] میں پیدا ہوئے۔ سات بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر تھے۔[1] ان کے علاوہ ان کا ایک بھائی آغا محمد علی اور پانچ بہنیں بنام حسینہ بی بی، حمیدہ بی بی، حمایت بی بی، وفا بی بی اور اختر بی بی تھیں۔[1]

یحٰیی خان کے بیٹے علی یحٰیی کے بقول ان کے آباواجداد 200 سال قبل براستہ افغانستان برصغیر میں آئے اور پشاور کو مسکن بنایا۔ یحٰیی خان کے خاندان کا تعلق قزلباش ذات سے ہے۔[1] والدخان بہادر آغا سعادت علی خان انڈین پولیس میں ایک اعلی عہدیدار تھے۔

ابتدائی تعلیم گجرات سے حاصل کرنے کے بعد جامعہ پنجاب سے گریجویشن کیا۔ اس کے بعد انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون چلے گئے۔ 1938ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران متعدد محاذوں پر خدمات انجام دیں۔ 1945ء میں سٹاف کالج کوئٹہ سے کورس مکمل کرکے مختلف سٹاف عہدوں پر متمکن رہے ۔ بعد ازاں سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد مختلف ڈویژنل ہیڈ کوارٹروں اور جنرل ہیڈ کوارٹر میں اعلی عہدوں پر فائز ہوئے۔ 1962ء میں مشرقی پاکستان کے گیریژن آفیسر کمانڈنگ مقرر کیے گئے۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں نمایاں خدامت کے صلے میں ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا۔ ستمبر 1966ء میں جنرل محمد موسی خان کے ریٹائر ہونے پر افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف مقرر ہوئے۔

دوسرا مارشل لاء


1965ء کی جنگ کے بعد طلباء نے معاہدۂ تاشقند کے خلاف تحریک کا آغاز کیا جو کافی شدت اختیار کر گئی رفتہ رفتہ ایوب خان خلاف ایک قوت کی شکل اختیار کر گئی لیکن اس بعد ازاں بزور قوت دبا دیا گیا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان چھننے کے بعد بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور عوام میں موجود ایوب مخالف جذبات کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 1966ء میں مشرقی پاکستان کی سیاسی جماعت عوامی لیگ سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات پر مشتمل مطالبات پیش کر دیے۔ ان نکات کو مغربی پاکستان میں، سیاسی اور عوامی دونوں سطوح پر، شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور علیحدگی پسندی کا مترادف قرار دیا گیا۔ اس کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کر لیا گیا۔ جبکہ مغربی پاکستان میں ایوب خان کے خلاف تحریک زور پکڑتی گئی اور امن عامہ کی صورت حال خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔

نومبر 1968ء میں مخالف جماعتوں کے متحدہ محاذ نے ملک میں بحالی جمہوریت کی تحریک چلائی جس نے خوں ریز ہنگاموں کی شکل اختیار کر لی۔ مارچ 1969ء تک حکومت پر ایوب خان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی تھی۔ 23 مارچ 1969ء کو یحیٰی خان نے ایوب خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاریوں کو حتمی شکل دی اور کور کمانڈروں کو ضروری ہدایات دیں۔ 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے قوم سے خطاب میں اقتدار سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا جس کے بعد یحیٰی خان باقاعدہ مارشل لاء نافذ کرنے کا اعلان کر دیا اور اگلے سال عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا۔ 30 جون 1970ء کو سرحد اور بلوچستان کی صوبائی حیثیت بحال کر دی۔ سابق ریاست بہاول پور کو پنجاب میں اور کراچی کو سندھ میں شامل کر دیا گیا۔ اور سابق سرحدی ریاستوں سوات، دیر اور چترال کو ملا کر مالاکنڈ ایجینسی قائم کی گئی ۔

7 ستمبر 1970ء کو قومی اسمبلی اور 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ جنھیں ملکی و غیر ملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ میں پہلے آزادانہ و منصفانہ انتخابات قرار دیا۔ 16 دسمبر 1971ء کو مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کے قبضے اور مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر ملک میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ 20 دسمبر 1971ء کو جنرل یحیٰی نے اقتدار پیپلز پارٹی کے چیرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا ۔ 8 جنوری 1972ء کو انھیں، عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے ، نظر بند کر دیا گیا۔ جولائی 1977ء میں ملک میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد خرابی صحت کی بنا پر رہا کر دیے گئے

ذاتی زندگی

یحییٰ خان کو بھاری شرابی کے طور پر جانا جاتا تھا شراب میں انکی ترجیح وہسکی تھی۔ دور حکومت میں یحییٰ خان کی قریبی دوست اور گھریلو ساتھی اکلیم اختر تھیں جنہیں جنرل رانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [2]


ابتدائی زندگی

صدر محمد ایوب خان 14 مئی 1907 کو ہری پور ہزارہ کے قریب ایک گاؤں ریحانہ میں ایک ہندکو پشتو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد میر داد خان کی دوسری بیوی کے پہلے بیٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کا نام سرائے صالح کے ایک سکول میں داخل کروایا گیا اور اس کے علاوہ ایک قریبی گاؤں کاہل پائیں میں بھی حاصل کی جو کہ ان کے گھر سے 5میل کے فاصلے پر تھا۔ آپ خچر کے ذریعے سکول جایا کرتے تھے۔ آپ نے 1922 میں علیگڑھیونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن تعلیم مکمل نہ کی کیونکہ اس دوران آپ نے رائل اکیڈمی آف سینڈہسٹز کو قبول کر لیا تھا۔
frameفیلیڈ مارشل محمد ایوب خان

ابتدائی فوجی دور

آپ نے اس تربیت گاہ میں بہت اچھا وقت گزارا اور آپ کو 14 پنجاب رجمنٹ شیر دل میں تعینات کیا گیا جو کہ اب 5 پنجاب رجمنٹ ہے۔ جنگ عظیم دوم میں آپ نے بطور کپتان حصہ لیا اور پھر بعد میں برما کے محاذ پر بطور میجر تعینات رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے پاکستان آرمی جوائن کرلی جبکہ اس وقت آپ آرمی میں دسویں نمبر پر تھے۔ جلد ہی آپ کو برگیڈئر بنا دیا گیا اور پھر 1948 میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 1949 میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر آپ کو ڈپٹی کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ آپ محمد علی بوگرہ کے دور میں بطور وزیر دفاع خدمات انجام دیتے رہے۔(1954)۔ جب اسکند مرزا نے 7 اکتوبر 1958 میں مارشل لاء لگایا تو آپ کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹیٹر بنا دیا گیا۔ یہ پاکستانی تاریخ میں پہلی دفع تھا کہ کسی فوجی کو براہ راست سیاست میں لایا گیا۔

صدرِ پاکستان 1958-1969

صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا پر مرزا صاحب سے ایوب خان کے اختلافات بڑھتے گیے اور بلا آخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنھبال لی اور اسکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمد ید کہا کیونکہ پاکستانی عوام اس دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاستدانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔ ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو کہ صدارتی طرز کا تھا اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے، جب مارشل لاء اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جزوی طور پر تھا۔ ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو کہ قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ یہی وجہ ان انتخابات کو مشکوک بناتی ہے۔
17 ستمبر1965 کو شائع ہونے والے ٹائمز میگزین کا سرورق جس میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور صدر ایوب کو دیکھایا گیا ہے
اگرچہ صدر ایوب کے دور میں پاکستان نے دن دگنی رات چونگنی ترقی کی لیکن عوام مسلسل دس سالہ آمر حکومت سے بیزار آگئی، اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے وقت سے فائدہ اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا اور صدر ایوب کو مجبوراً عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے صدارت سے استعفٰی دے دیا اور اپنا اقدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ 2007 میں چھپنے والی ایوب خان کی ڈائری کے مطابق امریکہ براہ راست صورتحال کو خراب کرنے میں ملوث تھا۔ دولتانہ اور چوھدری محمد علی ملک میں افراتفری پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ امریکہ ایک زوال پذیر پاکستان چاہتا تھا تاکہ خطے میں بھارت ایک طاقتور ملک بنے جسے چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔ [1]

یاداشت

اپنی یاداشت میں ایوب خان نے سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور یحییٰ خان ملک توڑنے پر اتفاق کر چکے تھے۔  
اسکندر مرزا

اسکندر مرزا میر جعفر کے پڑپوتے تھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا۔ پاکستانی فوجی افسر اور سیاست دان تھے۔ الفنسٹن کالج بمبئی میں تعلیم پائی ۔ کالج کی تعلیمی زندگی میں ہی رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ میں داخلہ مل گیا ۔ وہاں سے کامیاب ہو کر 1919ء میں واپس ہندوستان آئے۔ 1921ء میں کوہاٹ کے مقام پر دوسری سکاٹش رائفل رجمنٹ میں شریک ہوئے اور خداداد خیل میں لڑائی میں حصہ لیا۔ 1924ء میں وزیرستان کی لڑائی میں شریک ہوئے۔ 1922 سے 1924ء تک پونا ہارس رجمنٹ میں رہے جس کا صدر مقام جھانسی تھا۔ 1926ء میں انڈین پولیٹکل سروس کے لیے منتخب ہوئے اور ایبٹ آباد ، بنوں ، نوشہرہ اور ٹانک میں بطور اسسٹنٹ کمشنر کام کیا۔ 1931ء سے 1936ء تک ہزارہ اور مردان میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ 1938ء میں خیبر میں پولیٹکل ایجنٹ مامور ہوئے۔ انتظامی قابلیت اور قبائلی امور میں تجربے کے باعٹ 1940ء میں پشاور کے ڈپٹی کمشنر مقرر ہوئے۔ یہاں 1945ء تک رہے۔ پھر ان کا تبادلہ اڑیسہ کر دیا گیا۔ 1942ء میں حکومت ہند کی وزارت دفاع میں جائنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد حکومت پاکستان کی وزارت دفاع کے پہلے سیکرٹری نامزد ہوئے مئی 1954 میں مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے ۔ پھر وزیر داخلہ بنے۔ ریاستوں اور قبائلی علاقوں کے محکمے بھی ان کے سپرد کیے گئے۔ ملک غلام محمد نے اپنی صحت کی خرابی کی بنا پر انھیں 6 اگست 1955 کو قائم مقام گورنر بن گئے۔ 5 مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ اور مارچ 1956ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1958ء کو سیاسی بحران کے سبب ملک میں مارشل لاء نافذ کیا۔ 27 اکتوبر کو مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے انھیں برطرف کر دیا ۔ اور وہ ملک چھوڑ کر اپنی بیگم کے ہمراہ لندن چلے گئے۔ وہیں وفات پائی اور وصیت کے مطابق ایران میں دفن ہوئے۔

اسکندر مرزا افسر شاہی اور فوج کی پروردہ شخصیت تھے اس لیے ملک کو جمہوریت سے آمریت کی طرف دھکیلے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ان کے اقتدار کوبھی آگ لگی گھر کے چراغ سے اپنے یار غار فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہاتھوں ملک سے جلا وطن کر دیئے گئے۔