اگست 2016

پنجاب کی حکومت نے فیس بک پر بچوں کے اغوا کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی نشاندہی کرنے پر ٹی وی اداکار حمزہ علی عباسی کو نوٹس بھجوایا ہے۔

محمکۂ قانون کی جانب سے بھیجے گئے اس نوٹس میں کہا گیا ہے کہ حمزہ علی عباسی نے صوبے پنجاب بلخصوص لاہور سے اغوا ہونے والے بچوں کی تعداد کو نہ صرف بڑھا چڑھا کر پیش کیا بلکہ اس بات کا بھی ذکر نہیں کیا کہ کتنے بچے نہ صرف بازیاب ہو چکے ہیں۔

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ حمزہ علی عباسی نے بچوں کی گمشدگی سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا جس کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔

اطلاعات کے مطابق حمزہ علی عباسی کے فیس بک پر فالوورز کی تعداد 30 لاکھ سے زیادہ ہے۔

نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر حمزہ علی عباسی نے اس معاملے پر پنجاب حکومت سے معافی نہ مانگی تو ان کے خلاف حکومت کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے سائبر کرائم کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جس میں کسی کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی سزا تین سال ہے۔

حمزہ علی عباسی نے پنجاب حکومت کی جانب سے ملنے والے نوٹس کی تصدیق کی ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے بچوں کے اغوا ہونے کی معلومات مختلف اخبارات میں چھپنے والی خبروں سے حاصل کی ہیں۔

پیرس: پاکستانی نژاد امریکی جوڑے کو غیرملکی ایئرلائن سے اس وقت اتار دیا گیا جب انہوں نے پسینہ آنے پر’’اللہ‘‘ کہہ دیا۔

فیصل علی اور نازیہ علی ڈیلٹا ایئرلائن کے ذریعے پیرس سے امریکی ریاست اوہائیو جانے کے لئے جہاز میں بیٹھے ہی تھے کہ اس دوران پسینہ آنے کی صورت میں فیصل علی نے جیسے ہی اللہ کہا تو جہاز کا عملہ مسلم جوڑے کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا جس کے بعد کریو نے پائلٹ کو سارا ماجرا بتایا جس پر پائلٹ نے جوڑے کو جہاز سے اتارنے کی ہدایت کی اور جوڑے کو جہاز سے اتار دیا گیا۔

دوسری جانب پیرس میں تفتیش کے دوران مسلمان جوڑے کو کلئیر قرار دے دیا گیا تاہم تفتیشی ٹیم نے معذرت کرتے ہوئے جوڑے کو اگلی فلائٹ سے اوہائیو کے لئے روانہ کردیا جب کہ مسلم جوڑے کے ساتھ نازیبا رویہ کے خلاف کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشن نے ایئرلائن کے خلاف درخواست جمع کرادی جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلم جوڑے کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرنے پر ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

لندن: برطانیہ کی رہائشی مسلمان خاتون کو دوران پرواز کتاب پڑھنے پر ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور طویل تفتیش کی گئی۔

27 سالہ فائزہ شاہین برطانیہ میں اسلام فوبیا کی ایک اور شکار ہوئی ہیں، وہ نیشنل ہیلتھ سروسز ( این ایچ ایس) میں ملازمت کرتی ہیں اور انہیں برطانیہ میں اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا جاچکا ہے۔

25 جولائی کو ترکی سے واپسی پر فائزہ کو جنوبی یارکشائر کے ڈونکاسٹر ایئرپورٹ پر پولیس نے روک لیا۔ فائزہ کے مطابق ان سے ان کے کام کے بارے میں پوچھا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ وہ این ایچ ایس میں دماغی صحت کی سروسز سے وابستہ ہیں جہاں نوعمر بچوں کی نفسیاتی صحت اور انہیں شدت پسندی کے شکار ہونے کے عمل سے بچانے کے لیے کام کرتی ہیں اس کے علاوہ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ شدت پسندی کے خلاف بھی کام کرتی ہیں۔

فائزہ کے مطابق 2 پولیس اہلکار ان کے پاس آئے اور انہیں ایک جانب لے جا کر ان کو پاسپورٹ دکھانے کو کہا، پولیس اہلکار سے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آپ کے پاس ایک کتاب تھی اور اسی لیے آپ سے دہشتگردی ایکٹ کے تحت پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔

فائزہ کے مطابق پولیس نے ان سے 15 منٹ تک مختلف سوالات کیے جو ان کے لیے ایک تکلیف دہ تجربہ تھا۔ فائزہ نے بتایا کہ وہ دوران سفر جس کتاب کا مطالعہ کررہی تھیں اس کا نام ’’سیرا اسپیکس‘‘ ہے جو آرٹ اور کلچر کے حوالے سے ہے جب کہ کتاب میں شام سے متعلق مختصر کہانیاں، نظمیں اور تصاویر شامل ہیں۔

ماضی کی مشہور اداکارہ اور ہدایت کارہ شمیم آرا طویل علالت کے بعد لندن میں انتقال کر گئی ہیں۔

اکتوبر 2010 میں لندن میں آپریشن کے بعد سے وہ مسلسل علیل تھیں اور جمعے کو 78 برس کی عمر میں چل بسیں۔

سنہ 1938 میں علی گڑھ میں پیدا ہونے والی شمیم آرا کا اصل نام پتلی بائی تھا، لیکن فلمی ضرورت کے تحت بدل کر اسے شمیم آرا کر دیا گیا تھا۔

تقسیمِ برصغیر کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا تھا۔

ان کی پہلی فلم کنواری بیوہ تھی جسے باکس آفس پر کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، البتہ لوگوں کو ایک نئی اداکارہ کا انداز بھا گیا۔

اس کے بعد انھیں مختلف قسم کے کردار ملتے رہے۔ بالآخر 1960 میں شمیم آرا نے فلم ’سہیلی‘ میں نگار ایوارڈ حاصل کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا۔

اس کے بعد انھوں نے 80 سے زیادہ فلموں میں کام کیا جن میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ بھی شامل ہے۔

شمیم آرا کی چند مقبول فلموں میں ’دیوداس،‘ ’صائقہ،‘ ’لاکھوں میں ایک،‘ ’انارکلی،‘ ’چنگاری،‘ ’فرنگی،‘ ’دوراہا،‘ ’منڈا بگڑا جائے،‘ وغیرہ شامل ہیں۔ وحید مراد کے ساتھ ان کی جوڑی کو شائقینِ فلم میں بےحد پذیرائی ملی۔

فلم ’قیدی‘ میں فیض احمد فیض کی مشہور نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘ انھی پر فلمائی گئی تھی جسے بےحد مقبولیت حاصل ہوئی۔

شمیم آرا کی پہلی شادی سردار رند سے ہوئی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد انھوں نے دو اور شادیاں کیں لیکن دونوں زیادہ دیر نہیں چل سکیں البتہ سکرپٹ رائٹر دبیر الحسن سے ان کی چوتھی شادی آخر تک چلی۔

1989 میں آنے والی پنجابی فلم ’تیس مار خان‘ شمیم آرا کی بطورِ اداکارہ آخری فلم ثابت ہوئی، جس کے بعد انھوں نے ہدایت کاری کے میدان میں قسمت آزمائی کی اور ’جیو اور جینے دو،‘ ’پلے بوائے،‘ ’مس ہانگ کانگ،‘ اور ’مس کولمبو‘ جیسی فلمیں بنائیں۔

انھیں پاکستان کی پہلی کامیاب خاتون ہدایت کارہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اداکاری میں چھ نگار ایوارڈ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایت کاری کے لیے بھی تین نگار ایوارڈ حاصل کیے۔