خدا کی دی ہوئی یہ نعمت واقعی جادو کا پٹارا ہے۔ پان کا یہ سادہ سا پتہ خداداد خوبیوں کا مالک ہے اور نہ صرف ہندوستانی تہذیب کا اہم حصہ ہے بلکہ ہماری اجتماعی ثقافتی و مذہبی زندگی پر بھی اثرانداز ہے۔

ایک طرف گھر آئے مہمان کو پیش کرنا مہمان نوازی کی علامت ہے تو دوسری طرف شوہر اور بیوی کے تعلقات کی کڑی- جس دن شوہرِ نامدار نے بیوی کے ہاتھ سے پان کی گلوری نہیں لی سمجھیں تعلقات کی کشیدگی کا آغاز ہے۔

مہمانوں کو پان کا بیڑہ دے کر منگنی کی رسم پوری کرنا راجستھان کی پرانی روایات میں شامل ہے۔

فلمی دنیا کو بھی پان کی رومانیت اور خوبیوں سے انکار نہیں۔ امیتابھ بچن کا گانا ’کھئی کے پان بنارس والا‘ اس کی بہترین مثال ہے۔

الغرض پان ہماری تہذیب سے اس قدر جڑا ہے کہ ہر خاص و عام اس کا دلدادہ ہے۔ مذہبی روایات میں بھی پان کا بہت دخل ہے۔ اورچھا کے رام مندر میں پان بطور تبرک دیا جاتا ہے تو جنوبی ہندوستان کے ایک مندر میں بھگوان کی مورتی کے ماتھے پر لگا مکھن پان کے پتے میں ہی لپیٹ کر زائرین کو ملتا ہے۔

کچھ دلچسپ عقائد بھی پان سے جڑے ہیں۔ بہار میں دولہا دلہن کے ایک ہونے کی علامت کے طور پر وہ اپنے خون کا قطرہ پان پر ٹپکا کر ایک دوسرے کو دیتے ہیں گویا جب ایک دوسرے کا خون آپس میں مل گیا تو بس ایک ہوگئے۔

ہندوستان آنے والے غیر ملکی سیاحوں نے بھی پان کا ذکر بہت دلچسپی سے کیا ہے۔

البیرونی اپنی کتاب ’کتاب الہند‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہندوستانیوں کے دانت سرخ ہوتے ہیں۔‘ امیر خسرو نے کہا کہ پان منہ کو خوشبودار بناتا ہے۔ چینی سیاح آئی چنگ نے پان کو ہاضم قرار دیا۔

عبدالرزاق جو کالی کٹ کے بادشاہ زمورن کے دربار میں سمرقند سے سفیر بن کر آئے تھے، پان کی خوبیوں کو سراہتے دکھائی دیے۔ کہتے ہیں کہ ’پان کھانے سے چہرہ چمک اٹھتا ہے۔ دانت مضبوط اور سانس کی بدبو دور ہو جاتی ہے۔‘

پان میٹھا ہو تو گل قند اور سادہ ہو تو صرف الائچی کے دانے۔ غرض اس کے بنانے میں اور ان اجزا کو ملانے میں پان بنانے والے کا سلیقہ اور تجربہ شاملِ کار ہے۔ چونا زیادہ ہو تو زبان زخمی اور کتھا زیادہ ہو تو منہ کڑوا۔

ہندو روایات کے مطابق پان دیوی دیوتاؤں کا مسکن ہے۔ اساطیر کے مطابق پان کے ڈنٹھل میں دیوتا پاما رہتا ہے اس لیے پان بناتے ہوئے ڈنٹھل توڑ دیا جاتا ہے۔

پان نے ایک بڑی صنعت کو مروج کیا ہے۔ مختلف مہنگی، سستی دھاتوں سے بنے پاندان، خاصدان، پیک دان، ان پر چڑھانے والے ریشمی غلاف، چونے اور کتھے کی خوبصورت چھوٹی چھوٹی ڈبیائیں اور چمچے، چھالیہ کترنے کے لیے مختلف شکل کے سروتے، پان کوٹنے کے لیے ہاون دستہ، پان رکھنے کے جیبی بٹوے، پان پیش کرنے کی خوبصورت طشتریاں غرض پان سے جڑی یہ صنائع بہت سے لوگوں کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور یہ صنعت آج بھی مروج ہے۔

پرانے وقتوں میں پان بنانے کا پیشہ تنبولن کرتی تھی پھر آہستہ آہستہ سڑکوں پر پان کی دکانیں کھلنے لگیں۔ لوگ تنبول کا لفظ ہی بھول گئے بس پان اور پان والا یاد رہ گیا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours