نومبر 2015
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں تاریخ کے پہلے بلدیاتی انتخابات میں پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور ساتھ ہی نتائج کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے جس میں غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کو برتری حاصل ہے۔
وفاقی دارالحکومت کی 50 یونین کونسلوں میں پولنگ کا عمل صبح ساڑھے 7 بجے شروع ہوا جو بلا تعطل شام ساڑھے 5 بجے تک جاری رہا،حلقے میں پولنگ شروع ہوتے ہی انتہائی جوش و خروش دیکھا گیا اور لوگوں کی بڑی تعداد نے پولنگ اسٹیشن کی جانب رخ کیا۔ پولنگ کے روز وزارت داخلہ نےعام تعطیل کا تو اعلان نہیں کیا تاہم تعلیمی اداروں میں مکمل جب کہ سرکاری دفاتر میں آدھے دن کی چھٹی رہی اور سرکاری ملازمین نے دوپہر 2 بجے کے بعد اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔
اسلام آباد میں پرامن اندازمیں انتخابات کے انعقاد کے لئے سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے اور8 ہزارسے زائد پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے سیکیورٹی کے فرائض انجام دیئے اس کے علاوہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے 625 فوجی جوان اور رینجرزکے 700 اہلکار بھی کوئیک رسپانس فورس کے طورپرالرٹ رہے۔ پولیس، ایف سی، اسپیشل برانچ اور پاک فوج کے جوانوں کو خصوصی موبائل سمیں فراہم کی گئیں جن کی مانیٹرنگ جی پی آر ایس کے ذریعے کی گئی۔

وفاقی دارالحکومت کی 600 نشستوں پر 2 ہزار396 امیدواروں میں مقابلہ ہورہا ہے، چیئرمین کے لئے 255 ، جنرل نشستوں پرایک ہزار210 ، خواتین کی نشستوں پر351، کسان اور مزدوروں کی نشستوں پر 248، نوجوانوں کی نشستوں پر230 جب کہ اقلیتی نشستوں پر102 امید وارمدمقابل ہیں۔
شارجہ: انگلینڈ نے تیسرے اور آخری ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو سپر اوور میں شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کردیا۔
شارجہ میں کھیلے گئے تیسرے اور آخری ٹی ٹوئنٹی میں بھی پاکستانی بیٹنگ لائن کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکی اور صرف 11 رنز پر ہی 3 کھلاڑی پویلین لوٹ گئے، احمد شہزاد پہلے اوور کی پانچویں ہی بول پر 4 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے جب کہ اگلی ہی گیند پر حفیظ اور رفعت اللہ نے رننگ میں وہی غلطی کی جو پہلے میچ میں عمر اکمل اور صہیب مقصود نے کی تھی دونوں وکٹ کے ایک ہی اینڈ پر پہنچ گئے یوں محمد حفیظ کو بغیر کوئی رنز بنائے واپس جانا پڑا اور تیسرے اوور میں رفعت اللہ بھی بغیر کوئی رن بنائے حفیظ کا ساتھ دینے ڈریسنگ روم پہنچ گئے۔ چوتھی وکٹ کے لیے شعیب ملک اور محمد رضوان نے 39 رنز کی شراکت داری قائم کی لیکن رضوان 24 رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد عادل رشید کا شکار بنے جب کہ عمر اکمل صرف 4 رنز بنانے میں ہی کامیاب رہے۔ شعیب ملک نے شاہد آفریدی سے ملکر چھٹی وکٹ کے لیے 63 قیمتی رنز جوڑے تاہم آفریدی اٹھارویں اوور میں 29 رنز پر پویلین لوٹ گئے، پاکستان کو جیت کے لیے 2 اوورز میں 18 اور آخری اوور میں 10 رنز درکار تھے لیکن شعیب ملک آخری اوور کی پانچویں گیند پر اس وقت آوٹ ہوئے جب قومی ٹیم کو صرف 2 رنز درکار تھے، شعیب ملک نے2 چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 75 رنز بنائے جب کہ سہیل تنویر آخری گیند پر ایک رنز بنانے میں کامیاب رہے یوں میچ ٹائی ہوگیا جس کے بعد دونوں ٹیموں کے درمیان سپر اوور ہوا۔
انگلینڈ کی جانب سے ڈیوڈ ویلے 3، کرس ووکس ، عادل رشید اور معین علی نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔
سپر اوور میں پاکستان کی جانب سے کپتان آفریدی عمر اکمل کے ہمراہ بیٹنگ کے لیے آئے تاہم انگلش بالر کرس جورڈن نے ساری گیندیں یارکر ماری جو دونوں کھلاڑی کھیلنے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور پاکستان نے صرف 4 رنز کا ہدف دیا۔ انگلینڈ کی جانب سے کپتان مورگن اور جوز بٹلر بیٹنگ کے لیے آئے تاہم شاہد آفریدی نے بھی شاندار بولنگ کا مظاہرہ کیا اور انگلش ٹیم نے پانچویں گیند پر میچ اپنے نام کیا۔
اس سے قبل انگلش کپتان ایون مورگن نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا اور مقرررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 154 رنز بنائے۔ جیس روئے اور جیمس وینس نے اننگ کا آغاز کیا تو پہلے ٹی ٹوئنٹی میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے عامر یامین نے پہلی ہی گیند پر جیس روئے کو آؤٹ کردیا جب کہ دوسری وکٹ کے لیے جوئے روٹ نے وینس سے ملکر 48 رنز کی شراکت داری قائم کی جسے کپتان آفریدی نے رووٹ کو 32 رنز پر آؤٹ کرکے توڑا اور اگلی ہی گیند پر معین علی کو اپنی ہی گیند پر کیچ کرکے پویلین بھیجا۔ کپتان مورگن نے یونس کے ہمراہ چوتھی وکٹ کے لیے 20 رنز جوڑے لیکن مورگن کو شعیب ملک نے 15 رنز پر بولڈ کردیا، اگلے ہی اوور میں محمد رضوان نے جوز بٹلر کو 2 رنز پر رن آؤٹ کرکےان کی اننگز کا خاتمہ کیا، انور علی نے سیم بلنگز کو 7 رنز پر پویلین بھیجا تاہم وینس نے کرس ووکس کے ساتھ ملکر ساتویں وکٹ کے لیے 60 قیمتی رنز جوڑے، دونوں بلترتیب 46 اور 37 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔
پاکستان کی جانب سے شاہد آفریدی اور سہیل تنویر نے 2،2اور شعیب ملک اور انور علی نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔
دوسری جانب تیسرے ٹی ٹوئنٹی میں شکست کے بعد قومی ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر پہنچ گئی۔ پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف سیریز کا آغاز رینکنگ میں دوسری پوزیشن سے کیا مگر ابتدائی دونوں مقابلوں میں شکست کی وجہ سے سیریز ہارنے کے باعث چوتھے نمبر پر پہنچ گیا تھا اور آج کے میچ کے بعد وہ چھٹی پوزیشن پر جا پہنچا۔
کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سروری جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم امین فہیم کو نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد آبائی شہر میں سپرد خاک کردیا گیا۔
4 اگست 1939 کو مٹیاری میں پیدا ہونے والے امین فہیم بلڈ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور گزشتہ کئی روز سے کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ امین فہیم کے اہل خانہ کی جانب سے ان کے انتقال کی تصدیق کے بعد ان کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد اسپتال کے باہر جمع ہوگئی، امین فہیم کی میت کو ایمبولنس کے ذریعے آبائی شہر ہالا منتقل کیا گیا جہاں بعد نماز عصران کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد والد کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو،وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، منظور وسان،خورشید شاہ،راجہ پرویز اشرف اور دیگر پارٹی رہنماؤں سمیت عوام اور سروری جماعت کے مریدین کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
مخدوم امین فہیم نے 1970 میں سیاست کا آغاز کیا اور 1977 سے لے کر 2013 تک مسلسل 8 مرتبہ ممبر قومی اسمبلی رہے۔ امین فہیم وزیر مواصلات و اطلاعات اور وزیر صنعت و تجارت بھی رہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 2002 میں امین فہیم کو وزیراعظم بننے کی پیشکش کی جسے انھوں نے ٹھکرادیا۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی کے دور میں امین فہیم ہی پیپلز پارٹی کے تمام امور دیکھا کرتے تھے، امین فہیم کچھ عرصے تک پیپلز پارٹی سے ناراض بھی رہے لیکن پیپلزپارٹی میں ہی رہتے ہوئے سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ مخدوم امین فہیم ایک سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ سروری جماعت کے روحانی پیشوا بھی تھے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان کے ماننے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے امین فہیم کے انتقال کر دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امین فہیم کا خلا پر نہیں کیا جا سکتا۔ شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ امین فہیم بہت اعلیٰ صفت کے انسان تھے اور وہ ہی مجھے سیاست میں لائے تھے، ان کے انتقال سے پیپلز پارٹی ایک بہترین سیاستدان سے محروم ہو گئی۔

دل کا دورہ، فالج اور کینسر، ان سب کے رونما ہونے سے پہلے اگر ان کی تشخیص ہو جائے تو طبی سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب آجائے۔ انسان اس انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں اور انہیں شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد سرچ انجن گوگل کر رہا ہے۔

گوگل آخر ہے کیا؟

اس سوال کا جواب دینا کوئی آسان بات نہیں۔ ماضی میں محض ایک سرچ انجن کی حیثیت رکھنا والا گوگل اب ہمارے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہماری گاڑیوں، ہمارے گھروں اور اب ہماری جسمانی صحت کے لیے بھی گوگل ایسی ایجادات پر کام کر رہا ہے جو ہمیں پیشگی طور پر صحت کے سنگین مسائل سے متنبہ کر سکیں گی۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کی سانتا کلارا کاؤنٹی کے علاقے ماؤنٹین ویو میں قائم گوگل کارپوریٹ کے ہیڈ کواٹرز میں اب ایسی ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے جو مستقبل میں انسانی جسم میں کسی مہلک عارضے کے پیدا ہونے کی نشاندہی کر سکے گی۔

سائنس فکشن

یہ سب کچھ سائنس فکشن سے کم نہیں لگتا۔ تاہم یہ حقیقت ہے جس کے بارے میں ایک معروف جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے ایک مصنف تھوماس شُلس نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ وہ خود گوگل کی اُس لیبارٹری میں جاکر وہاں طبی ٹیکنالوجی پر ہونے والے کاموں کا جائزہ لے چُکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ دلچسپ اور تعجب خیز تجربہ ایسے پِل یا گولی کا ہے جو نینو پارٹیکلز یا انتہائی چھوٹے ذرات سے تیار کی گئی ہے۔ اس ایک گولی کو نگل کر اور ایک ڈیوائس کو کلائی پر باندھ لینے سے جسم کی تمام تر تشخیص ڈیٹا کی شکل میں ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔ اس طرح ماہرین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آیا مذکورہ شخص میں ہارٹ اٹیک یا دل کے دورے، فالج یا ذیابیطس کے مستقبل قریب میں جنم لینے کے امکانات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا پتہ لگ جائے تو اس کا بر وقت سد باب کیا جا سکتا ہے۔

گوگل کے ماہرین ایک ایسے کانٹیکٹ لینز پر بھی کام کر رہے ہیں جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ہے۔ اس کا استعمال ذیابیطس کے مریضوں کو بلڈ شوگر یا خون میں شکر کی مقدار ناپنے کے لیے انجکشن کی سوئیاں نہیں چُبھانا پڑیں گی۔

گوگل سرچ انجن نے اب صحت سے متعلق ایسے آلات کی ایجاد کا تجریہ اس لیے شروع کیا ہے کہ اس کے ماہرین کا خیال ہے کہ کمپوٹر سائنس آئندہ سالوں میں طب کے شعبے میں ترقی کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔ میڈیسن اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے ایجاد ہونے والے آلات ادویات ساز کمپنیوں کی صحت کے شعبے پر اجارہ داری کو بھی ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔


گوگل کی یہ کوششیں تاہم اُس وقت کامیاب ہوں گی جب خوراک اور ادویات کی ایڈمنسٹریشن کے امریکی ادارے FDA کی طرف سے اسے اپنی مصنوعات کو مارکیٹ میں لانے کے لیے اجازت ملے گی۔
ماہ دسمبر کے پہلے عشرے میں روس اور پاکستان مشترکہ بحری مشقیں کریں گے۔ اس بارے میں روس پاک بین حکومتی کمیشن کے شریک چیرمین ویتور اوانوو نے اعلان کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی ملاقات پاکستانی بحریہ کے سربراہ سے ہوئی ہے، ملاقات میں تکنیکی معاملات زیر غور آئے۔ بحری مشقوں میں روس اور پاکستان کے جنگی بحری جہاز اور انسداد منشیات سے متعلق روس کے ادارے کا خصوصی دستہ بھی حصہ لے گا۔ علاوہ ازیں مشقوں میں فضائیہ کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ایران کے چند جنرل پہلی بار مبصرین کے طور پر مشقیں دیکھیں گے۔

اوانوو نے یاد دہانی کرائی کہ یہ دوسری روس پاکستان بحری مشقیں ہوں گی، پہلی مشقیں پچھلے سال ماہ اکتوبر میں ہوئی تھیں۔
پیرس میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد امریکہ میں اسلام مخالف رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں ایک خاتون نے امریکی نیوز چینل فاکس نیوز پر اپنے عقائد اور حب الوطنی کا اظہار امریکی جھنڈا اوڑھ کر کیا۔

صبا احمد رپبلکن مسلم اتحاد کی بانی ہیں۔ وہ ایک ٹی وی پروگرام میں امریکی مسلمانوں کا دفاع کر رہی تھیں اور انھوں نے اپنا سر امریکی جھنڈے سے ڈھانپ رکھا تھا۔

انھوں نے پروگرام میں امریکی مسلمانوں کو حاصل عبادت کے حقوق اور امریکہ کے آئین کے مطابق اپنی مرضی سے مذہب کے انتخاب سے متعلق موقف کا دفاع کیا۔ اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے انھوں نے امریکی جھنڈے کا حجاب پہن رکھا تھا۔

صبا احمد نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا: ’میں نے آخری لمحوں میں ایسا کرنے کا فیصلہ کیا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ انھوں جامنی رنگ کا سکارف پہنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن فاکس نیوز کے سٹاف نے کہا کہ یہ رنگ بہت گہرا ہے۔

ٹی وی پروگرام کے دوران اُن کے ساتھ ڈانلڈ ٹرمپ بھی موجود تھے، جن کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے امریکہ میں مساجد کو بند کر دینا چاہیے۔

صبا احمد نے کہا کہ ’ہم جو پیغام دینا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم امریکی ہیں، ہم مسلمان ہیں اور رپبلکن ہیں، ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔‘

صبا احمد کے حجاب پر سوشل میڈیا میں کافی بحث ہوئی ہے۔

بعض افراد اُن کی حب الوطنی کی تعریف کی: ’ایک خاتون جس نے فاکس نیوز پر امریکی جھنڈے کا سکارف پہن رکھا تھا، اُس نے تمام ایوارڈ جیت لیے۔‘

دوسری جانب بعض افراد نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا: ’خدا جانتا ہے کہ امریکی فوجی اس جھنڈے کی خاطر جان قربان کر دیتے ہیں۔ یہ کوئی احمقانہ حجاب نہیں ہے۔‘

ایک صارف نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’اگر آپ امریکی خواتین کو امریکی جھنڈے کی بکینی پہنے کے اجازت دے سکتے ہیں تو ایک مسلمان امریکی خاتون حجاب بھی پہن سکتی ہے۔ حجاب کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے جمعرات کو روسی صدر ولادی میر پوتن کو رسمی طور پر دعوت دی ہے کہ وہ پاکستان آ کر شمال جنوب گیس پائپ لائن کی تعمیر کا افتتاح کریں۔

وزیر اعظم موصوف نے جمعرات کو وزیر اعظم ہاؤس میں ایک روسی وفد کے ساتھ ہوئی ملاقات میں ایسا کہا۔ اس وفد کی سربراہی معیشت، سائنس اور سائنسی و تکنیکی تعاون کے پاکستان روس بین الحکومتی کمیشن کے شریک چیئرمین وکتور ایوانوو کر رہے تھے۔ پاکستان افغانستان میں امن کے لیے ایسے حل کی حمایت کرتا ہے جس کے مالک افغان ہوں اور رہنما بھی افغان کیونکہ یہ پورے خطے اور دنیا کے لیے اچھا ہوگا، انہوں نے کہا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان اور روس کے تعلقات مضبوط رشتے کے نئے مرحلے میں داخل ہو رہے ہیں جس سے ایک نئے عہد میں داخل ہوا جائے گا جو دونوں ملکوں کے لیے باثمر مفادات کا حامل ہوگا۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی اور انتہا پسندی پر ایک مضبوط روش اپنا لی ہے تاکہ پرامن، مستحکم اور سرمایہ کار دوست فضا یقینی بنائی جا سکے۔

مؤثر حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کی کچھاریں اور انفراسٹرکچر منہدم کیا جا چکا ہے، وزیر اعظم نے کہا۔ نواز شریف نے کہا کہ پاکستانی قوم، موجودہ حکومت کی قیادت میں، دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو اپنی جنگ سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے معاشی اشاریے تیزی سے بلند ہو رہے ہیں اور پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے، خاص طور پر توانائی کے میدان میں ایک پرکشش مقام بنتا جا رہا ہے۔

روسی وفد کے سربراہ وکتور ایوانوو نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے جس کی بھرپور تاریخ ہے اور پاکستان و روس کے درمیان تجارت کے بہت زیادہ امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان براہ راست پروازوں کا اہتمام کیے جانے کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ملکوں کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کو خاص طور پر فائدہ پہنچ سکے۔

پاکستان کے وزیر برائے مالیات و معاشی معاملات اسحٰق ڈار، بیورو برائے سرمایہ کاری کے چئیرمیں مفتاح اسمٰعیل اور حکومت کے سینیر افسر اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ روس کے وفد کے اراکین میں کرنل جنرل وائی کوئیکو، وفاقی منشیات مخالف ادارے کے نائب وزیر میجر جنرل ولادیمیر وسوتسکی، پاکستان میں روس کے سفیر الیکسی دیدوو اور پاکستان میں روس کے منشیات مخالف وفاقی ادارے کے نمائندے ماکسم مارچینکو شامل تھے۔
روس کے مسلمانوں کے مرکزی بورڈ اور مفتیوں کی کونسل نے اپیل کی ھے کہ اسلام کی حفاظت کے بہانے وحشیانہ جرائم کرنے والے دھشت گردوں اور انتہا پرستوں کے خلاف کوششیں یکجا کی جائیں۔

'آج کل ھمارا فرض ھے کہ تمام مذاھب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اور تمام ممالک کے لیڈر ساتھ ملکر دھشت گردی اور انتہا پرستی کی لعنت کے خلاف سرگرم و موثر کوششیں کریں'، روس کے مفتیوں کی کونسل کے اوّل نائب سربراہ روشن عباسوو نے کہا ھے۔ انہوں نے نشاندھی کی کہ داعش اور القاعدہ جیسی دھشت گرد تنظیموں کا اسلام کی امن پسند تعلیمات سے کوئی رابطہ نہیں ھے، یہ تنظیمیں سب سے پہلے اسلام اور مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قائم کی گئیں۔ اپنی طرف سے روس کے مفتی اعظم طلعت تاج الدین نے بیان دیا کہ شدت پسند عناصر اسلام کی اقدار کی خاطر جد و جہد کی آڑ میں اپنا بنیادی مقصد حاصل کرنے یعنی مختلف قومیتوں اور مذاھب سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں نفرت اور دشمنی کو پروان چڑھانے کیلئے کوشاں ھیں۔
سائی خان نامی چچنیا کا ایک باسی اپنے کنبہ والوں کو داعش کے چنگل سے آزاد کرانے کیلئے شام چلا گیا ھے۔

بات یہ ھے کہ اس سے پہلے اس کی بیوی اپنے 3 کم سن بچوں یعنی ایک بیٹے اور دو بیٹیوں کو لیکر داعش میں شامل ھونے کے مقصد سے خفیہ طور پر شام کیلئے روانہ ھو گئی تھی۔ سائی خان نے مقامی پولیس اھلکاروں سے درخواست کی تھی کہ اس کی کنبہ والوں کو لوٹائے جانے میں مدد کی جائے۔ پولیس نے متعلقہ جانچ کرکے سائی خان کے غیر ملکی سفر کا انتظام کئے جانے میں مدد کی تھی۔ اب سائی خان شام میں ھے۔ وہ مستقل طور پر روسی پولیس سے رابطے میں ھے۔ اطلاعات کے مطابق شام میں سائی خان اپنے کنبہ والوں کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ھوا اور وہ سب ملکر داعش کے زیر کنٹرول علاقے سے فرار ھو گئے لیکن سائی خان اور اس کے کنبہ والوں کو ابھی تک وطن لوٹنے کا موقع نہیں ملا، وہ کہیں شام میں چھپے ھوئے ھیں۔ سائی خان نے بتایا کہ اسے اور اس کے کنبہ والوں کو مقامی باشندے مدد فراھم کر رھے ھیں لیکن اس علاقے میں لڑائیاں زوروں پر ھیں اور حالات کافی کشیدہ ھیں۔
ایک امریکی جج نے ایک پاکستانی ڈاکٹر کو کم عمر لڑکی کو غلط نیت سے چھونے کے تمام الزامات سے بری کر دیا ہے۔

ان پر امریکن ایئر لائنز کی نیویارک سے شکاگو جانے والی پرواز کے دوران تنہا سفر کرنے والی ایک لڑکی کو غلط نیت سے چھونے کا الزام تھا۔

شکاگو میں ہونے والی دو روزہ عدالتی کارروائی کے دوران 57 سالہ محمد آصف چودھری اور سکول جانے والی عمر کی بچی نے عدالت میں اپنے بیانات قلم بند کروائے۔

آصف چودھری نے گواہی دی کہ اگر ان کا کسی قسم کا جسمانی رابطہ ہوا بھی تو نادانستگی میں ہوا تھا۔

استغاثہ نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ جولائی میں دوران سفر وہ اپنے لیے مختص نشست تبدیل کر کے آئیووا سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے نزدیک جا کے بیٹھ گئے تھے۔ وہ ہوائی کمپنی کے ’کم عمر تنہا سفر کرنے والے بچوں‘ کے پروگرام کے تحت سفر کر رہی تھیں۔

مبینہ طور پر لڑکی نے جہاز سے اپنی والدہ کو خوف کے عالم میں ان کے موبائل فون پر ایک میسج بھیجا تھا۔ اس میسج میں انھوں نے لکھا تھا کہ انھیں ایک آدمی نے چھوا ہے اور کیونکہ سیٹ بیلٹ باندھے رکھنے کی ہدایت والی بتی جلی ہوئی ہے جس کے باعث وہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھ سکتیں۔

تاہم پیر کے روز امریکہ کی ڈسٹرکٹ جج شیرن جانسن کولمین نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آصف چودھری اپنے اوپر لگائے گئے 12 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے دونوں الزامات سے بری ہو گئے تھے۔ دونوں الزامات کی زیادہ سے زیادہ سزا دو دو سال جیل تھی۔

آصف چودھری اوکلاہاما میں رہائش پذیر اپنے جاننے والوں سے ملنے امریکہ آئے تھے۔ کیس کی سماعت کے دوران انھیں جیل میں نہیں رکھا گیا تھا تاہم رواں سال کے اوائل میں الزامات باقاعدہ عائد ہونے کے بعد حکام نےان کا پاسپورٹ اپنے قبضے میں لے لیا گیا تھا۔

منگل کے روز شکاگو میں ان کی وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل اپنے ملک واپس لوٹنے اور اپنی زندگی دوبارہ شروع کرنے کے منتظر ہیں۔

اینڈریا گیمبینو کہتی ہیں کہ فیصلے کے بعد ’اب وہ انتہائی پُرسکون ہیں۔‘

دوسری جانب منگل کے روز استغاثہ کے ترجمان جوزف فٹزپیٹرک نے اس کیس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

بی بی سی نے اپنے سنہ 2015 کے ’100 خواتین‘ سیزن کے لیے دنیا بھر سے، زندگی کے تمام شعبوں اور عمر کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین کا انتخاب کیا ہے جو دیگر خواتین کے لیے زندگی میں باعثِ تحریک ہیں۔

اس سال اس سیزن میں خصوصی توجہ دنیا بھر میں نرسنگ کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے علاوہ ایسی بزرگ خواتین پر رہے گی جن کے پاس اپنی زندگی کے تجربات سے بتانے کو بہت کچھ ہے۔

اس کے علاوہ ان سو منتخب شدہ خواتین میں 30 سال سے کم عمر کی 30 ایسی خواتین بھی ہیں جنھوں نے کاروبار کی دنیا میں نام بنایا ہے۔

18 نومبر سے شروع ہو کر دو ہفتوں تک جاری رہنے رواں برس کے’100 خواتین‘ سیزن میں فکر انگیز نشریات اور آن لائن کہانیاں پیش کی جائیں گی۔

اس میں ایسی نوجوان خواتین فلم سازوں کا ذکر بھی ہوگا جو اپنی برادری میں دباؤ اور توقعات کو دستاویزی شکل دینے میں منہمک ہیں۔

اس کے علاوہ ان 100 خواتین میں سائنس، سیاست، کھیل، تعلیم اور فن کے شعبے میں دیگر خواتین کے لیے مثال بننے والی خواتین بھی شامل ہیں۔

بھارتی ٹینس سٹار ثانیہ مرزا، آسکر انعام یافتہ اداکارہ ہلیری سوانک اور سوڈان کی سپر ماڈل ایلک ویک بھی رواں سال کی فہرست کی زینت ہیں۔

2015 کے سیزن میں پاکستان سے بھی دو خواتین 28 سالہ فنکار اور ٹی وی پر میزبانی کرنے والی منیبہ مزاری اور 17 سالہ طالبہ عائشہ اشتیاق کا انتخاب کیا گیا ہے۔

منیبہ مزاری ساڑھے سات برس قبل ایک ٹریفک حادثے کے نتیجے میں اپنی ٹانگوں کے استعمال کی صلاحیت سے محروم ہوگئی تھیں تاہم وہیل چیئر تک محدود ہونے کے باوجود وہ ماڈلنگ کرتی ہیں اور ملک کے سرکاری ٹی وی سے بطور میزبان منسلک ہیں۔

حادثے کے بعد جب منیبہ زیرِ علاج تھیں تو انھوں نے مصوری شروع کی اور وہ پرامید ہیں کہ وہ اپنے کام کے ذریعے لوگوں میں امید جگا سکتی ہیں۔

عائشہ کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور وہ 12ویں جماعت کی ایک ایسی طالبہ ہیں جو معاشرے میں موجود صنفی امتیاز کے خاتمے کا عزم رکھتی ہیں۔

امریکہ میں خواتین کے امور یا صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کی متمنی عائشہ حقوقِ انسانی اور خواتین کے حقوق پر مذاکروں کا اہتمام کرتی ہیں۔

اس سیزن کے دوران بی بی سی اردو کے پروگراموں میں پاکستان میں ہونے والے خواتین کے واحد اور اولین جرگے کا بھی ذکر کیا جائے گا، اور اس کے علاوہ ’گرلز ایٹ ڈھاباز‘ تحریک کی بات بھی ہو گی جس کے ذریعے خواتین کے عوامی مقامات پر موجودگی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

بھارت سے ہماری کوریج میں مغربی ریاست مہاراشٹر میں پیدا ہونے والی ان بچیوں کا ذکر شامل ہوں گا جنھیں ’نکوشا‘ یعنی غیر مطلوب یا بے ضرورت کا نام دیا گیا تھا۔ ہم ان میں اسے ایسی کچھ لڑکیوں سے بات کریں گے جنھیں چار سال قبل ہی اپنا نام ملا ہے۔

مشرق وسطی میں ہم اردن میں رہنے والی 16 سالہ پناہ گزین اور ’شام کی ملالہ‘ کہلائی جانے والی معیصون الملحان سے ملیں گے جو کہ پناہ گزین لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور سکول جانے کی تحریک دیتی ہیں۔

بی بی سی کا ’100 خواتین‘ سیزن 2013 میں شروع کیا گیا تھا اور اس سے بی بی سی کے اس عہد کا بھی آغاز ہوا تھا کہ بین الاقوامی خبروں کے پروگراموں میں خواتین کی نمائندگی میں بہتری لائی جائے گی۔

رواں برس کے سیزن کا اختتام لندن میں بی بی سی کے ہیڈکوارٹر سے لے کر البانیہ، کوسوو، سماؤ، فیجی، اسرائیل اور جمیکا سمیت دنیا کے 100 مختلف مقامات پر ’شبیہ، سربراہی اور رشتے‘ کے موضوع پر ایک روزہ بحث و مباحثے پر ہوگا۔

مشرقی ترکی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کئی دیہات کے لوگ شہابی پتھروں کے ٹکڑے فروخت کر کے مالامال ہو گئے ہیں۔

انھوں نے اب تک اس سے دس لاکھ لیرا یا ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر کما لیے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ ٹکڑے اس علاقے میں ستمبر میں گرے تھے۔

’خبر‘ نامی ترک نیوز ویب سائٹ کے مطابق ترکی کے بنگول صوبے میں ساری سیسیک کے مقامی باشندے اب بھی اس علاقے میں خاک چھان رہے ہیں اور ان میں سے بعض لوگوں نے انھیں بیچ بیچ کر گاڑیاں اور گھر خرید لیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان شہابی پتھروں کی قیمت تقریباً 60 ڈالر فی گرام ہے۔

گاؤں کے تقریبا 3200 باشندوں میں سب سے خوش قسمت 30 سالہ حسن بلدک نکلے جنھیں ڈیڑھ کلو کا ٹکڑا ملا۔ ان کی خوش دامن نے شہابی پتھروں کی تلاش کے لیے ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔

انھوں نے نیوز سائٹ کو بتایا: ’جب میں ان کو برداشت نہ کر سکا تو میں باہر نکلا اور سوچا کہ چلو کوشش کرتے ہیں۔ میں نے اس علاقے کی تین چار گھنٹے تک خاک چھانی تب میں نے دیکھا کہ مٹھی بھر جسامت کا ایک سیاہ چمکیلا پتھر میری طرف دیکھ رہا ہے۔‘

بلدک نے اس ٹکڑے کے لیے ساڑھے تین لاکھ لیرا یعنی ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس کی قیمت اور زیادہ ہو گي۔

انھوں نے کہا کہ جو پیسہ ملے گا اس سے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ استنبول میں پیسٹری کی دکان کھولیں گے۔

اسی طرح کے ایک آسمانی خزانے کی تلاش نے روس کے چیلیابنسک علاقے کو سنہ 2013 میں اپنی گرفت میں لے رکھا تھا جب ایک بڑا شہابیہ جھیل میں گرا تھا اور اس کے ٹکڑے ایک وسیع علاقے میں بکھر گئے تھے۔

ایک سائنس دان نے بتایا کہ شہابیے کے یہ ٹکڑے معدنیات کے لحاظ سے کسی سائنسی دلچسپی کا باعث نہیں ہیں تاہم محقوق اور نوادرات کو اکٹھا کرنے والے افراد کی نگاہ میں بڑے ٹکڑے کی ابھی بھی بہت قدر و قیمت ہے۔

فرانسیسی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ فرانس کے جنگی طیاروں نے اتوار کو شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے گڑھ رقہ پر بمباری کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق اس مہم میں دس جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور اپنے اہداف پر 20 بم گرائے۔


وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ جن اہداف کو نشانہ بنایا گیا جن میں ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر اور ایک تربیتی مرکز شامل ہیں۔

ان حملوں سے قبل امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین رہوڈز نے کہا تھا کہ فرانس امریکہ کے تعاون سے شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف فضائی حملوں میں تیزی لائے گا۔

اتوار کو ترکی میں جی 20 اجلاس کے دوران اے بی سی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ فرانس کے ساتھ خفیہ معلومات کے تبادلے کے لیے مل کر کام کرے گا۔

خیال رہے کہ فرانس کی جانب سے یہ حالیہ بمباری پیرس میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 129 افراد کی ہلاکت کے بعد کی گئی ہے۔

جمعے کی شب چھ مقامات پر خودکش حملوں اور فائرنگ کی ذمہ داری خود کو ’دولتِ اسلامیہ‘ کہلانے والی شدت پسند تنظیم نے ہی قبول کی تھی۔

حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دولتِ اسلامیہ نے ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ ’فرانس اور وہ ممالک جو اس کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں انھیں معلوم رہے کہ وہ دولتِ اسلامیہ کے اہداف میں سرِفہرست ہیں۔‘

بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’پیرس پر حملہ ایک طوفان کا آغاز ہے اور سننے اور سمجھنے والوں کے لیے ایک تنبیہ ہے۔‘

تاہم اس موقع پر فرانسیسی صدر اور وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔

وزیراعظم مینوئل والس نے یہ بھی کہا تھا پیرس میں ہونے والے حملوں پر فرانس کا جواب سخت ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دشمن کو تباہ کر دینے کے لیے اس پر وار کریں گے۔ وہ فرانس ہو یا یورپ یا پھر شام اور عراق ہم اس حملے کے ذمہ داران اور منصوبہ سازوں کا تعاقب کریں گے۔ ہم یہ جنگ جیت کر رہیں گے۔‘


برطانیہ کے معروف معالج پروفیسر پال گرینگرز کہتے ہیں کہ سمارٹ فونز اور ٹیبلیٹس میں خود کار ’بیڈ ٹائم موڈ‘ ہونا چاہیے تاکہ انھیں استعمال کرنے والوں کی نیند میں خلل نہ پڑے۔

پروفیسر پال گرینگرز کہتے ہیں کہ اس میں موجود نیلی روشنی کو فلٹر ہونا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو رات دیر سے نیند آتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فون اور ٹیبلیٹس کا ہر نیا ماڈل پہلے سے زیادہ بلیو ریز کا حامل ہوتا ہے اور مزید روشن ہوتا ہے۔

پروفیسر پال گرینگرز سمجھتے ہیں ان مصنوعات کو تیار کرنے والوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب رات ہونے لگتی ہے تو جسم میں نیند کے ہارمونز میلاٹونن کا اخراج ہونے ہے لگتا جس سے انسان کو نیند آنے لگتی ہے تاہم موبائل فونز اور ٹیبلٹس کی سکرینز سے نکلنے کی روشنی کے خاص رنگوں کی طول موج نیند کے نظام میں خلل ڈال سکتی ہے۔

پروفیسر پال گرینگرز ان آلات سے نکلنے والی روشنی پر تحقیق کرنے والی ٹیم میں شامل تھے۔اس تحقیق کے نتائج کے مطابق بڑی اور روشن ڈیوائسز سے نیلی روشنی زیادہ نکلتی ہے۔

پروفیسر پال گرینگرز نے بی بی سی کو بتایا کہ ان ڈیوائسز کو دن میں استعمال کرنا اچھا ہے مگر رات میں ان کا استعمال مہلک ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر اپ رات میں فون اور ٹیبلیٹ وغیر استعمال کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اپ کو نیند دیر سے آئے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ نیند سے متعلق چند ایپس پہلے ہی تیار ہوچکی ہیں جن کا مقصد نیلی اور سبز روشنی کا اخراج روکنا ہے۔

پیرس میں جمعے کو ہونے والے حملے کے شکار افراد کے بارے میں آستہ آہستہ معلومات سامنے آ رہی ہیں۔

حکومت فرانس نے بیرونِ ملک معلومات کے لیے ایک ہاٹ لائن (0800406005) قائم کی ہے۔ اس کے علاوہ ایک ویب سائٹ بھی ہے جہاں حملے کے بعد گمشدہ افراد کے بارے میں رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔

فرانس کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ سائٹ پر عام طور پر بہت رش ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ بعض اوقات دستیاب نہیں ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ وزارت نے فرانس میں کارآمد ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کی فہرست بھی جاری کی ہے۔

برطانوی شہری نک الیگزینڈر کی موت بٹاکلان کنسرٹ ہال میں ہوئی۔ اس کی تصدیق ان کے اہل خانہ اور برطانیہ کی وزارت خارجہ نے کی ہے۔

ان کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا: ’نک وہ کام کرتے ہوئے دنیا سے گئے جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے ہمیں یہ جان کر بہت اطمینان ہے کہ انھوں نے دنیا بھر میں اپنے دوستوں کے ساتھ بہت مزے کیے۔‘

ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ rechercheParis# اورrechercheBataclan# کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا اور گمشدہ لوگوں کے نام اور تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ recherche_Paris@ کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔

خیال رہے کہ جنوری میں چارلی ایبڈو پر ہونے والے حملے کے بعد فیس بک پر ’جے سوئی چارلی‘ کا ایک صفحہ بنایا گيا تھا اس پر بھی ان لوگوں کی تصاویر پوسٹ کی جا رہی ہے جنھیں جمعے کے حملے کے بعد سے نہیں دیکھا گيا ہے۔

مقامی اور علاقائی نشریاتی اداروں اور سوشل میڈیا سائٹس سے بھی مہلوکین کے نام شیئر کیے جا رہے ہیں۔

ایک مقامی اخبار نے لکھا: ’جمیلہ ہود، 41، مغربی پیرس کے ڈیرکس کی رہنے والی۔ تمام اہل خانہ جمیلہ کی والدہ کے دکھ میں شریک ہیں۔‘

ایمیئنز کے 34 سالہ تھامس ایاد جو فرانس کی یونیورسل میوزک کے مرکیوری ریکارڈز شعبے میں کام کرتے تھے اور اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ بٹاکلان میں تھے ان کے لیے ان کا ہاکی کلب ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرے گا۔ یہ اطلاعات فیس بک پر ہیں۔

یونیورسل میوزک کے صدر پاسکل نیگرے نے وہاں مارے جانے والے باقی دو ملازمین کے نام میری اور منو ٹوئٹر پر جاری کیے۔

مرنے والوں میں آورجنے علاقے کے 44 سالہ ’ڈیڈو‘ کا نام بھی سامنے آیا ہے۔

فرانس کے فٹبالر لیسانا دیارا نے ٹوئٹر پر بتایا کہ حملے میں انھوں نے اپنے ایک رشتے کی بہن ایسٹا ڈیاکیٹ کھو دی ہے۔ انھوں نے لکھا کہ وہ ان کے لیے ’بڑی بہن کی طرح تھیں۔ خیال رہے کہ دیارا حملے کے وقت جرمنی کے خلاف میچ کھیل رہے تھے جس کے باہر دھماکے ہوئے تھے۔

کالواڈوس کے مقامی کونسل کے افسر سیڈرک موڈوئٹ اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ بٹاکلان پر تھے۔

لندن سکول آف اکانومکس نے کہا ہے کہ اس حملے میں ان کا ایک طالب علم بھی مارا گیا ہے۔

فرانس میں امریکی سفارت خانےنے کینیڈا اور امریکہ کے باشندوں کے لیے ایک نمبر(18884074747+)جاری کیا ہے کہ اگر ان کے لواحقین لاپتہ ہیں تو وہ اس نمبر پر کال کریں۔

بلجیئم نے کہا ہے کہ مرنے والوں میں دو باشندوں کا تعلق ان کے ملک سے تھا۔ بلجیئم نے بھی اپنے ملک کے باشندوں کے لیے ایک نمبر (32477403212+) جاری کیا ہے۔

سویڈن کا ایک باشندہ بھی مرنے والوں میں شامل ہے۔ سویڈن کے وزیر خارجہ نے سویڈن ٹی وی کو بتایا ہے۔

رومانیہ کے دو افراد بھی اس حملے کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ بات وزارت خارجہ نے بتائی ہے۔

میکسیکو کی حکومت کے مطابق اس کے دو شہری ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔ جبکہ سپین کے ایک اخبار کے مطابق بٹاکلان کے مرنے والوں میں وہاں کا ایک شخص بھی ہے۔

بی ایف ایم ٹی وی کے مطابق تیونس کی دو بہنیں بھی مرنے والوں میں شامل ہیں ایک عمر34 اور 35 سال تھی۔ اس کے علاوہ چلی کے دو افراد اور پرتگال کےایک شہری کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔

نیویارک: ہر گزرنے والا دن مریخ پر ایلین کی زندگی کے بارے میں کوئی نہ کوئی ثبوت سامنے لا رہا ہے اورسائنس دان اب سنجیدگی سے اس بارے میں حکمت عملی تشکیل دے رہے ہیں کہ ایلین سے کیسے نمٹا جائے جب کہ اسی دوران اب ایک اور فوٹو میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک بڑا چوہا مریخ کی سرزمین پر سیر و تفریح کے مزے لے رہا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مریخ سے موصول ہونے والی تصاویر کو دیکھ کر سائنسدان اس وقت حیران ہوگئے جب ایک بڑا چوہا انہیں مریخ کی سرزمین پر بیٹھا نظر آیا اور اس کے انداز سے لگ رہا ہے کہ یہ چوہا زندہ ہے اور اپنے کھانے کی تلاش میں مصروف ہے۔ آرٹ ایلین ٹی وی کے اسکرین پر نظرآنے والے مناظر نے دیکھنے والوں کو حیرت اور تجسس میں ڈال دیا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ نظر کا دھوکہ ہو لیکن اس چوہے کے بڑے کان، آنکھیں اور ناک اس کی نفی کر رہے ہیں اور اس حقیقت کو تقویت دے رہے ہیں کہ یہ کوئی زندہ چوہا یا اس سے ملتا جلتا کوئی زندہ جانور ہے۔

فلکیات میں دلچسپی رکھنے والوں کاکہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریخ پر کئی ایسی چٹانیں ہیں جن کی شکلیں ہماری روزمرہ کی اشیا سے ملتی جلتی ہیں لیکن تصویرمیں واضح طور پر چوہا نظرآرہا ہے اور صاف محسوس ہورہا ہے کہ وہ اپنے کھانے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ کچھ روز قبل ناسا کی براہ راست فیڈ پر اچانک ایلین کا نظرآنا اور جرمنی میں یو ایف او کا گرنا اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ کوئی خلائی مخلوق زمین کی طرف بڑھ رہی ہے۔


فرانس میں جمعے کی شب جب فائرنگ شروع ہوئی تو سیفر کیسا نوسترا ریسٹورنٹ میں کاؤنٹر کے پیچھے اپنے کام میں مشغول تھا۔

وہ ایسی جگہ تھا جہاں وہ مرگیا ہوتا تاہم وہ پرسکون رہا۔ بعد میں انھوں نے واقعات کے بارے میں بتایا:

’میں کاؤنٹر پر تھا، ہم نے دھماکے سنے۔ بڑے زور کے دھماکے، سب نے زور زور سے چیخنا شروع کردیا۔ شیشے ٹوٹ کر ہمارے اوپر آ گرے۔ یہ بہت دہشت ناک تھا۔ چاروں طرف شیشے کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے بہت سے ہمارے چہروں پر لگے۔‘

’ہم نے دیکھا کہ باہر ٹیرس پر دو خواتین کو گولی لگی ہے ایک کو کلائی پر دوسرے کو کندھے پر۔ ان کے زخموں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔‘

خطرے کے باوجود سیفر کو یہ محسوس ہوا کہ اسے ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اس نے فائرنگ میں کمی کا انتظار کیا اور پھر وہ دوڑ کر ان زخمی خواتین کے پاس پہنچا۔

اس نے بتایا: ’میں نے انھیں اٹھایا اور انھیں لے کر تہہ خانے کی جانب بھاگا۔ میں ان کے ساتھ رہا اور خون کو روکنے کی کوشش کرتا رہا۔

’تہہ خانے سے ہم لوگ گولیوں کی آوازیں سنتے رہے۔ یہ سب بہت خوفناک تھا۔

’جب ہم باہر نکلے تو ہم نے سڑکوں پر لاشیں دیکھیں۔ بہت سے لوگ زخمی تھے۔‘

کاسا نوسترا 11 ویں مشرقی ضلعے میں ہے جہاں مسلمانوں کی مخلوط آبادی رہتی ہے۔

سیفر مسلمانوں کے اسی علاقے میں رہتا ہے ان کا تعلق الجیریا سے ہے لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان حملوں کا مقصد کیا ہے۔

کئی معاملے میں ان کی کہانی مالی کے نوجوان تارکین وطن کی کہانی سے ملتی ہے جس نے کوشر سپرمارکٹ میں جنوری میں ہونے والے حملے میں لوگوں کو بچایا تھا۔

دونوں مسلمان ہیں اور دونوں نے لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالی تھی۔

ممبئی: انسان کی کچھ عادات ایسی ہیں جو اس کی صحت کو شدید نقصان پہنچاتی ہیں تاہم وہ اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے اسے تبدیل نہیں کر پاتے اسی لیے ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ان عادات کو تبدیل کر کے انسان بیماری سے بچ کر اچھی صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔
ٹوتھ برش کو تبدیل کرنا:
عام طور پر لوگ اس جانب توجہ نہیں دیتے اور کافی عرصے تک ایک ہی ٹوتھ برش استعمال کرتے ہیں جب کہ ایک خاص وقت کے بعد نہ صرف اسے تبدیل کردیا جائے بلکہ اس کا رنگ بھی بدل دینا چاہیے۔ ڈاکٹر سیمرا علی کا کہنا ہے کہ ٹوتھ برش جب اپنی مدت پوری کر لیتا ہے تو مؤثر طریقے سے کام نہیں کرتا اور دانتوں میں بیکٹریا اور ٹارٹر باقی رہ جاتا ہے جو دانت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ کچھ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ برش پرانا یا نیا ہو جیسے ہی وائرل انفیکشن ہو فوری طور اسے تبدیل کردیں۔
تولیے کو تبدیل کریں:
گھروں میں عام طورکئی افراد ایک ہی تولیہ کافی عرصے تک استعمال کرتے ہیں جس سے جسم پر الرجی اور خارش پیدا ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر روئے کا کہنا ہے کہ تولیے کو ایک دن چھوڑ کر دھونا چاہیے اور اسے مکمل خشک بالخصوص سورج کی روشنی میں خشک کریں جب کہ گیلا تولیہ جسم پر الرجی کا باعث بن سکتا ہے۔ تولیے سے جب ناگوار بو آنے لگے تو اسے فوری تبدیل کردینا چاہیے۔
تکیے کا کور تبدیل کریں:
تکیہ ایک ایسی چیز ہے جس پر انسان رات بھر گزارتا ہے اور اس کے کور پر وقت مٹی اور بیکٹریا موجود ہوتے ہی جو بالوں کے ساتھ ہمارے جسم پر الرجی، ریشز اور خارش جیسی بیماریاں پیدا کرسکتے ہیں اس لیے تکیے کے کور کو ہر متبادل دن میں دھو لینا چاہیے جب کہ ایک سال بعد کور کو تبدیل کردینا چاہیے۔
آنکھوں پر لگایا جانے والا مسکارا:
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ آنکھوں پر لگایا گیا مسکارا ایک خاص وقت کے بعد بھوؤوں کے اوپر حصے میں سوجن پیدا کردیتا ہے جب کہ یہ مزید پھیل کر آنکھ کے نچلے حصے پر سوجن، فنگل انفیکشن او کالے رنگ کے سرکل بنا دیتا ہے  جو مزید خطرناک بیماری کی شکل اختیار کر کے آپ کو پلکوں سے محروم کرسکتا ہے۔
لپ اسٹک کو تبدیل کریں:
ایک ہی قسم کی لپ اسٹک ہونٹوں پر ریشز اور خشکی پیدا کردیتی ہے جس سے ہونٹ پھٹنے لگتے ہیں اور خاص طور پر زیادہ گہرے رنگ کی لپ اسٹک زیادہ نقصان دہ ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایک سال کے اندر لپ اسٹک کو تبدیل کرلیں اور گہرے رنگ کی لپ اسٹک سے پرہیز کریں۔
کنگھی کی صفائی کریں:
گندا کنگھا استعمال کرنا بیکٹریا اور انفکیشن کا باعث بنتا ہے اور سر میں پس بھرے زخم پیدا کردیتا ہے۔ جراثیم سے پاک کنگھی کے لیے ضروری ہے کہ اسے ایک ہفتے میں ایک بار ضرور گرم پانی سے دھویں اور اسے ہر سال بعد تبدیل کردیں۔

فرانسیسی حکام کا کہنا ہے انھیں پیرس حملوں میں ملوث اس مشتبہ شخص کی تلاش ہے جو ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہو۔

فرانس کے مشرقی نواحی علاقے مونٹریول سے ایک مشتبہ گاڑی کے ملنے سے اس بات پر شکوک مزید بڑھ گئے ہیں کہ کم سے کم ایک حملہ آور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔

اس سے قبل فرانسیسی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمعے کی رات پیرس میں کیے جانے والے حملوں میں تین بھائی بھی ملوث تھے جن میں سے شاید ایک ابھی تک مفرور ہے۔

اے ایف پی نے تفتیش کاروں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ان تینوں میں سے ایک بھائی حملے کے دوران مارا گیا تھا، دوسرا بلجیئم میں زیر حراست ہے تاہم اس کے بارے میں ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی قتل و غارت میں شامل تھا۔ حکام کے مطابق لگتا ہے کہ تیسرا بھائی بھی حملے کے دوران مارا گیا ہے یا ابھی تک پولیس کے ہاتھ نہیں آیا ہے۔


فرانسیسی حکام نے بتایا تھا کہ انھیں ایک شخص کی تلاش ہے جس نے حملوں میں استعمال کی جانے والی وولکس ویگن پولو گاڑی کرائے پر لی تھی، تاہم پولیس کے مطابق ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تسرا بھائی مفرور ہے یا مارا جا چکا ہے۔

تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ انھیں ایک کار سے کئی خود کار بندوقیں (کلاشنکوفیں) ملی ہیں جو ان کے خیال میں حملہ آور فرار ہوتے ہوئے چھوڑ گئے تھے۔

تفتیش کاروں کے مطابق یہ کار اتوار کو پیرس کے مشرقی نواحی علاقے مونٹریول سے ملی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ پیرس حملوں کے سلسلے میں بلجیئم میں گرفتار کیے جانے والے افراد کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے ادارے کا کہنا تھا کہ پیرس میں مارے جانے والے سات حملہ آوروں میں سے چار فرانسیسی تھے جو بلجیئم میں رہ رہے تھے۔

بلیجیئم کے پولیس اہلکاروں کے مطابق انھوں نے کئی چھاپے مارے ہیں اور وہ بلجیئم سے کرائے پر لی جانے والی کار اور حملہ آورروں کے درمیان تعلق کی تفتیش کر رہے ہیں اور ان کی تفتیش مولن بِیک کے علاقے پر مرکوز ہے۔

بیلجیئم کی وزارتِ قانون کے مطابق بٹاکلان تھیٹر کے قریب حملے کے وقت پائی جانے والی ایک گاڑی کی نمبر پلیٹ بیلجیئم کی تھی اور یہ گرفتاریاں اسی تناظر میں ہوئی ہیں۔

اس سے قبل فرانسیسی تفتیش کاروں نے بتایا تھا کہ انھوں نے جمعے کی شب پیرس میں کیے جانے والے حملوں میں شامل ایک حملہ آور کی شناخت کر لی ہے۔


فرانسیسی میڈیا اور پارلیمینٹ کے اراکین کا کہنا ہے کہ شناخت کیے جانے والے حملہ آور کا تعلق فرانس سے ہے اور اس کا نام عمر اسماعیل مصطفی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اس حملہ آور کی عمر 29 سال تھی اور ریکارڈ کے مطابق وہ انتہا پسند تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تفتیشی ٹیموں نے بٹاکلان تھیٹر سے ملنے والے عمر اسماعیل کے متعدد فنگر پرنٹس کی مدد سے اس کی شناخت کی ہے۔

وہاں تین خودکش حملہ آورں نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا تھا۔

وزیر اعظم مینیول ویلس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں یہ سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔

اتوار کو حملوں کے ہلاک ہونے والوں اور 350 زخمیوں سمیت کئی دوسرے بچ جانے والوں کے لیے پیرس میں نوٹر ڈیم کیتھیڈرل میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
چھ مقامات سات حملہ آور

اے ایف پی کے مطابق غیر ملکی نمبر پلیٹ کے ساتھ موجود سیاہ سیٹوں والی وہ کار بھی مل گئی ہے جس کے بارے میں تفتیش کاروں کو شبہ تھا کہ وہ حملہ آوروں نے استعمال کی ہے۔

پیرس میں جمعے کی شب ہونے والے حملوں میں 129 افراد کی ہلاکت پر فرانس میں تین روزہ سوگ جاری ہے۔352 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے 99 کی حالت تشویش ناک ہے

ان حملوں کی ذمہ داری خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم نے قبول کی ہے جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ یہ ایک ’جنگی اقدام‘ ہے اور فرانس کا جواب ’بےرحمانہ‘ ہوگا۔

سنیچر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی پراسیکیوٹر فرانسوا مولنز کا کہنا تھا کہ حملوں میں ’تین ٹیمیں ملوث تھیں‘ جنھوں نے مربوط انداز میں یہ ’وحشیانہ کارروائی‘ کی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور ’ہمیں یہ پتہ چلانا ہوگا کہ وہ کہاں سے آئے اور کہاں سے انھیں مالی مدد ملی۔‘

فرانسیسی پراسیکیوٹر نے بتایا ہے کہ عمر اسماعیل نامی حملہ آور کے بارے میں خفیہ اداروں نے 2010 میں خبر دی تھی کہ وہ انتہاپسندی کی جانب مائل ہوا ہے لیکن اس کے کسی شدت پسند گروپ کا حصہ بننے کی معلومات نہیں تھیں۔ابھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا عمر کبھی شام گئے تھے یا نہیں۔

بتایا گیا ہے کہ عمر کے بھائی اور والد سمیت چھ افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔ تاہم ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ عمر اسماعیل گھر والوں سے ناراض تھے اور وہ اپنے بھائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

فرانسیسی پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سٹیڈیم کے قریب خودکش دھماکہ کرنے والے حملہ آور کی باقیات کے قریب سے ایک شامی پاسپورٹ بھی ملا ہے اور یونانی حکام نے کہا ہے کہ اس پاسپورٹ کا حامل شخص اکتوبر میں پناہ گزینوں کے ساتھ یورپ پہنچا تھا۔

یورپی یونین نے ایک بیان میں پیرس میں ہونے والے حملے کو پورے یورپ پر حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تنظیم کے تمام رکن ممالک فرانس کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

حملوں کے بعد جمعے کی شب ہی فرانس میں ایمرجنسی نافذ کر کے سرحدیں بند کر دی گئی تھیں جبکہ پیرس میں فوج کے 1500 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔

نیویارک: بچوں کو بہت چھوٹی عمر میں اسکول بھیجنے سے ان کی نفسیات پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور کنڈرگارٹن درجے میں ایک سال کی تاخیر سے بچے میں 11 برس کی عمر تک توجہ بھٹکنے اور بدترین رویئے کو 73 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں گریجویٹ اسکول آف ایجوکیشن کے ماہرین کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہےکہ اسکول تاخیر سے بھیجنے کے مثبت اثرات وقت کے ساتھ کم نہیں ہوتے اور اسکول بھیجنے میں صرف ایک سال کی تاخیر بچوں کی اگلی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

تحقیق کے لیے ڈنمارک میں 7 سے 11 سال تک کے بچوں اور ان کی ذہنی کیفیات کا بھی جائزہ لیا گیا اور والدین سے ان کے متعلق سوالات کیے گئے جن میں 35 ہزار سے زائد والدین نے سروے کے جوابات دیئے اور اس کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ جو بچے بڑی عمر میں اسکول میں داخل کیے گئے ان میں 11 برس تک پہنچتے پہنچتے بھی توجہ کا ارتکاز بہتر تھا اور ان کی تعلیمی کارکردگی بہتر تھی۔

ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہےکہ بچوں کو اسکول نہ بھیجا جائے تو وہ گھر میں ہی اپنے کھیل وضع کرکے اپنی تسلی کرتے ہیں اور اس سے ان کے جذبات کی تسکین ہوتی ہے جب کہ اسکول میں بچوں کی وہ آزادی چھن جاتی ہے جو ان کی دماغی نشوونما کےلیے ضروری ہوتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں توجہ کی کمی اور شدید سرگرمی یا اضطراب کو اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیوٹی ڈس آرڈر یا ( اے ڈی ایس ڈی) کہا جاتا ہے جس کے شکار بچے کسی بات پر ٹھیک سے توجہ دینے کی بجائے اچھل کود کرتے رہتے ہیں، اس کیفیت میں ان کی تعلیمی کارکردگی پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور اگر بچوں کو ابتدائی عمر سے اسکول تاخیر سے بھیجا جائے تو اس کیفیت میں کمی کی جاسکتی ہے۔

فن لینڈ اور جرمنی جیسے ممالک بچوں کو چھوٹی عمر میں اسکول بھیجنے کی بجائے انہیں مناسب عمرمیں اسکول میں داخل کراتے ہیں اور عالمی سطح پر ان ممالک کے 15 سالہ بچے بہترین کارکردگی دکھاتے ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں وٹامن سی اور بی سے بھرپور ہرے پتوں والی سبزیاں استعمال کی جائیں کیونکہ یہ سردی کے انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ موسم سرما میں جسم کو گرم رکھنے کے لیے گرم خوراک ، گرم مشروبات اور پھل استعمال کیے جائیں اور وٹامن سی اوربی سے بھرپور ہرے پتوں والی سبزیاں استعمال کی جائیں کیونکہ یہ سردی کے اینفیکشن کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 80 فیصد لوگ سردی کو پسند کرتے ہیں اور اس میں خوراک کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اپنے مدافعتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے دودھ اور اس سے بنی مصنوعات جیسے پنیر، دہی کااستعمال بڑھا دیا جائے کیوں کہ ان میں پروٹین اور وٹامن اے اور بی موجود ہوتے ہیں جو بھرپور کیلشیم فراہم کرتے ہیں اور ہماری ہڈیوں کو مضبوط بنانے میں مدد دیتی ہے۔

کراچی / حیدر آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ملک میں بری طرز حکمرانی کا ماحول ہے جب کہ اعلیٰ عدلیہ میں 75 فیصد مقدمات اداروں کی نا اہلی کی وجہ سے ہیں۔

حیدرآباد میں ڈسٹرکٹ بار کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے عشایئے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ عدلیہ پر تبصرے کرنے والوں کو نظام عدل اور قانون سے واقفیت نہیں، موجودہ نظام عدل بہتر، آزمودہ اور مربوط ہے اس میں کوئی بنیادی خرابی نہیں جب کہ نظام عدل سے بددل ہوجانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کا کام صرف فیصلے کرنا نہیں بلکہ انصاف فراہم کرنا ہے، ایسے فیصلے بے کار ہیں جس سے عوام کو انصاف نہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں بری طرز حکمرانی کا ماحول ہے، اعلیٰ عدلیہ میں 75 فیصد مقدمات اداروں کی نااہلی کی وجہ سے ہیں، ادارے آئین وقانون کے مطابق کام کریں تو مسائل ختم ہوجائیں گے تاہم ملک میں آج بھی کچھ ادارے کام کررہے ہیں جن میں عدلیہ بھی شامل ہے۔

اس سے قبل سینٹرل جیل کراچی میں میں انسداد دہشت گردی کی 2 عدالتوں کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک میں کئی دردناک واقعات ہوئے، معصوم جانیں ضائع ہوئیں،دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے اور عدالتوں کا قیام بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔

جسٹس انورظہیر جمالی نے کہا کہ کراچی میں بہت درد ناک سانحات ہوچکے ہیں، جن میں ججز، پولیس، وکلا اورعام شہری دہشت گردوں کے نشانے پررہے ہیں، جلدازجلدانصاف کی فراہمی ججزکی ذمے داری ہے،دہشت گردی کے جن پر قابو پانے کے لئے نیا معقول حل نکالنے میں سندھ حکومت بازی لے گئی۔ سینٹرل جیل میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی عمارتیں آئندہ برس تیارہوجائیں گی۔

پیرس: فرانس کے دارالحکومت کے مختلف مقامات پر خود کش حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 130 زائد افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے جب کہ ریسکیو آپریشن کے دوران 8 حملہ آور بھی ہلاک ہوئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس کے 7 مختلف مقامات میں دہشت گردوں کی فائرنگ اور خود کش دھماکوں کے نتیجے میں 130 افراد ہلاک جب کہ 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جب کہ پیرس میں فوج کو تعینات کردیا گیا اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا جہاں 80 کے قریب افراد زخمیوں کی حالت تشویش ناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

پیرس کے بٹاکلن کنسرٹ ہال میں امریکی میوزک بینڈ پرفارم کر رہا تھا کہ دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے 15 افراد کو ہلاک جب کہ 100 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا، پولیس کی جانب سے ریسکیو آپریشن کیا گیا تاہم حملہ آوروں نے تمام یرغمالیوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کردیا، 3 خود کش حملہ آوروں نے خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑایا جب کہ مقابلے میں 5 دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں نے شاپنگ مال اور ریستوران پر بھی فائرنگ کر کے متعدد افراد کو ہلاک کیا۔
پیرس کے فٹبال اسٹیڈیم میں فرانس اور جرمنی کی ٹیموں کے درمیان میچ کھیلا جارہا تھا جسے دیکھنے کے لئے فرانسیسی صدر اپنی پوری کابینہ اور 80 ہزار کے قریب شائقین سمیت میچ دیکھ رہے تھے کہ دہشت گردوں نے فٹبال اسٹیڈیم کے قریب 2 خود کش دھماکے کئے تاہم فرانسیسی صدر کو بحفاطت اسٹیڈیم سے نکال لیا گیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق مارے جانے والے حملہ آوروں کے تعلق سے متعلق ابھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے تاہم ایک حملہ آور کا کہنا تھا کہ یہ فرانس کی شام میں مداخلت کا نتیجہ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 4 سے 5 دہشت گردوں کے چھپے ہونے کی بھی اطلاعات ہیں جن کی گرفتاری کے لئے آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔
فرانسیسی صدر فرانسکوز ہولاندے نے دہشت گرد حملوں کے پیش نظر جی 20 کانفرنس میں شرکت منسوخ کر کے بٹاکلن کنسرٹ کا دورہ کیا اور ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد معمولی نہیں تھے اور حملہ آور عوام کو خوف زدہ کرنا چاہتے تھے لیکن دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہر صورت جاری رہے گا۔ دارالحکومت پیرس میں دہشت گردی کے ہولناک واقعے کے بعد فرانسیسی صدرنے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے تمام سرحدوں کو سیل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ نے پیرس حملوں کے لیے انتہا پسند تنظیم داعش کو قصوروارقراردے دیا ہے اور حملوں سے ہونے والی ہلاکتوں کے پیش نظرملک میں 3 روزہ سوگ کا بھی اعلان کیا ہے۔
پیرس حملوں کی ذمہ داری جنگجو تنظیم داعش کی جانب سےقبول کی گئی ہے۔ داعش کا کہنا ہےکہ حملے میں 8 دہشت گردوں نے حصہ لیا جب حملے شام میں فرانس کی مداخلت کا رد عمل ہیں۔
ادھر پیرس حملوں کے بعد دنیا بھر میں فرانسیسی سفارتخانوں کی سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے جب کہ لندن میں بھی ہائی الرٹ کردیا گیا ہے جہاں برطانوی وزیراعظم کی رہائشی گاہ ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ سمیت اہم سرکاری عمارتوں کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے، شہر میں ریلوے اور میٹرو اسٹیشن پر شہریوں کی شناخت اور چیکنگ کی جارہی ہے اس کے علاوہ عوامی مقامات پر بھی پولیس کی بھاری نفری کو تعینات کردیا گیا ہے۔
دوسری جانب پیرس میں حملوں کے بعد وزیراعظم نواز شریف، امریکی صدر براک اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے حملوں کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ امریکی صدر براک اومابا کا کہنا تھا کہ فرانس میں دہشت گرد حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور پوری فرانسیسی عوام کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فرانس ہمارا پرانا اتحادی ہے اورحملہ آوروں کا تعاقب کیا جائے گا۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستانی قومی کی دعائیں فرانسیسی عوام کے ساتھ ہیں اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے جب کہ سلامتی کونسل نے بھی دہشت گردی کے واقعہ کی پرزور مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی، مصر اور روس نے بھی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔