فرانسیسی حکام کا کہنا ہے انھیں پیرس حملوں میں ملوث اس مشتبہ شخص کی تلاش ہے جو ان کے مطابق ہو سکتا ہے کہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا ہو۔

فرانس کے مشرقی نواحی علاقے مونٹریول سے ایک مشتبہ گاڑی کے ملنے سے اس بات پر شکوک مزید بڑھ گئے ہیں کہ کم سے کم ایک حملہ آور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔

اس سے قبل فرانسیسی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمعے کی رات پیرس میں کیے جانے والے حملوں میں تین بھائی بھی ملوث تھے جن میں سے شاید ایک ابھی تک مفرور ہے۔

اے ایف پی نے تفتیش کاروں تک رسائی رکھنے والے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ ان تینوں میں سے ایک بھائی حملے کے دوران مارا گیا تھا، دوسرا بلجیئم میں زیر حراست ہے تاہم اس کے بارے میں ابھی تک یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بھی قتل و غارت میں شامل تھا۔ حکام کے مطابق لگتا ہے کہ تیسرا بھائی بھی حملے کے دوران مارا گیا ہے یا ابھی تک پولیس کے ہاتھ نہیں آیا ہے۔


فرانسیسی حکام نے بتایا تھا کہ انھیں ایک شخص کی تلاش ہے جس نے حملوں میں استعمال کی جانے والی وولکس ویگن پولو گاڑی کرائے پر لی تھی، تاہم پولیس کے مطابق ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تسرا بھائی مفرور ہے یا مارا جا چکا ہے۔

تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ انھیں ایک کار سے کئی خود کار بندوقیں (کلاشنکوفیں) ملی ہیں جو ان کے خیال میں حملہ آور فرار ہوتے ہوئے چھوڑ گئے تھے۔

تفتیش کاروں کے مطابق یہ کار اتوار کو پیرس کے مشرقی نواحی علاقے مونٹریول سے ملی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ پیرس حملوں کے سلسلے میں بلجیئم میں گرفتار کیے جانے والے افراد کی تعداد سات ہو گئی ہے۔ ایک سرکاری اہلکار کے حوالے سے ادارے کا کہنا تھا کہ پیرس میں مارے جانے والے سات حملہ آوروں میں سے چار فرانسیسی تھے جو بلجیئم میں رہ رہے تھے۔

بلیجیئم کے پولیس اہلکاروں کے مطابق انھوں نے کئی چھاپے مارے ہیں اور وہ بلجیئم سے کرائے پر لی جانے والی کار اور حملہ آورروں کے درمیان تعلق کی تفتیش کر رہے ہیں اور ان کی تفتیش مولن بِیک کے علاقے پر مرکوز ہے۔

بیلجیئم کی وزارتِ قانون کے مطابق بٹاکلان تھیٹر کے قریب حملے کے وقت پائی جانے والی ایک گاڑی کی نمبر پلیٹ بیلجیئم کی تھی اور یہ گرفتاریاں اسی تناظر میں ہوئی ہیں۔

اس سے قبل فرانسیسی تفتیش کاروں نے بتایا تھا کہ انھوں نے جمعے کی شب پیرس میں کیے جانے والے حملوں میں شامل ایک حملہ آور کی شناخت کر لی ہے۔


فرانسیسی میڈیا اور پارلیمینٹ کے اراکین کا کہنا ہے کہ شناخت کیے جانے والے حملہ آور کا تعلق فرانس سے ہے اور اس کا نام عمر اسماعیل مصطفی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اس حملہ آور کی عمر 29 سال تھی اور ریکارڈ کے مطابق وہ انتہا پسند تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تفتیشی ٹیموں نے بٹاکلان تھیٹر سے ملنے والے عمر اسماعیل کے متعدد فنگر پرنٹس کی مدد سے اس کی شناخت کی ہے۔

وہاں تین خودکش حملہ آورں نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا تھا۔

وزیر اعظم مینیول ویلس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے اور آئندہ چند گھنٹوں میں یہ سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔

اتوار کو حملوں کے ہلاک ہونے والوں اور 350 زخمیوں سمیت کئی دوسرے بچ جانے والوں کے لیے پیرس میں نوٹر ڈیم کیتھیڈرل میں خصوصی دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
چھ مقامات سات حملہ آور

اے ایف پی کے مطابق غیر ملکی نمبر پلیٹ کے ساتھ موجود سیاہ سیٹوں والی وہ کار بھی مل گئی ہے جس کے بارے میں تفتیش کاروں کو شبہ تھا کہ وہ حملہ آوروں نے استعمال کی ہے۔

پیرس میں جمعے کی شب ہونے والے حملوں میں 129 افراد کی ہلاکت پر فرانس میں تین روزہ سوگ جاری ہے۔352 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں سے 99 کی حالت تشویش ناک ہے

ان حملوں کی ذمہ داری خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم نے قبول کی ہے جبکہ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ یہ ایک ’جنگی اقدام‘ ہے اور فرانس کا جواب ’بےرحمانہ‘ ہوگا۔

سنیچر کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی پراسیکیوٹر فرانسوا مولنز کا کہنا تھا کہ حملوں میں ’تین ٹیمیں ملوث تھیں‘ جنھوں نے مربوط انداز میں یہ ’وحشیانہ کارروائی‘ کی۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں اور ’ہمیں یہ پتہ چلانا ہوگا کہ وہ کہاں سے آئے اور کہاں سے انھیں مالی مدد ملی۔‘

فرانسیسی پراسیکیوٹر نے بتایا ہے کہ عمر اسماعیل نامی حملہ آور کے بارے میں خفیہ اداروں نے 2010 میں خبر دی تھی کہ وہ انتہاپسندی کی جانب مائل ہوا ہے لیکن اس کے کسی شدت پسند گروپ کا حصہ بننے کی معلومات نہیں تھیں۔ابھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کیا عمر کبھی شام گئے تھے یا نہیں۔

بتایا گیا ہے کہ عمر کے بھائی اور والد سمیت چھ افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔ تاہم ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ عمر اسماعیل گھر والوں سے ناراض تھے اور وہ اپنے بھائی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

فرانسیسی پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ سٹیڈیم کے قریب خودکش دھماکہ کرنے والے حملہ آور کی باقیات کے قریب سے ایک شامی پاسپورٹ بھی ملا ہے اور یونانی حکام نے کہا ہے کہ اس پاسپورٹ کا حامل شخص اکتوبر میں پناہ گزینوں کے ساتھ یورپ پہنچا تھا۔

یورپی یونین نے ایک بیان میں پیرس میں ہونے والے حملے کو پورے یورپ پر حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ تنظیم کے تمام رکن ممالک فرانس کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

حملوں کے بعد جمعے کی شب ہی فرانس میں ایمرجنسی نافذ کر کے سرحدیں بند کر دی گئی تھیں جبکہ پیرس میں فوج کے 1500 اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours