مشرقی ترکی سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کئی دیہات کے لوگ شہابی پتھروں کے ٹکڑے فروخت کر کے مالامال ہو گئے ہیں۔

انھوں نے اب تک اس سے دس لاکھ لیرا یا ساڑھے تین لاکھ امریکی ڈالر کما لیے ہیں۔

خیال رہے کہ یہ ٹکڑے اس علاقے میں ستمبر میں گرے تھے۔

’خبر‘ نامی ترک نیوز ویب سائٹ کے مطابق ترکی کے بنگول صوبے میں ساری سیسیک کے مقامی باشندے اب بھی اس علاقے میں خاک چھان رہے ہیں اور ان میں سے بعض لوگوں نے انھیں بیچ بیچ کر گاڑیاں اور گھر خرید لیے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان شہابی پتھروں کی قیمت تقریباً 60 ڈالر فی گرام ہے۔

گاؤں کے تقریبا 3200 باشندوں میں سب سے خوش قسمت 30 سالہ حسن بلدک نکلے جنھیں ڈیڑھ کلو کا ٹکڑا ملا۔ ان کی خوش دامن نے شہابی پتھروں کی تلاش کے لیے ان کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔

انھوں نے نیوز سائٹ کو بتایا: ’جب میں ان کو برداشت نہ کر سکا تو میں باہر نکلا اور سوچا کہ چلو کوشش کرتے ہیں۔ میں نے اس علاقے کی تین چار گھنٹے تک خاک چھانی تب میں نے دیکھا کہ مٹھی بھر جسامت کا ایک سیاہ چمکیلا پتھر میری طرف دیکھ رہا ہے۔‘

بلدک نے اس ٹکڑے کے لیے ساڑھے تین لاکھ لیرا یعنی ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر کی پیشکش کو ٹھکرا دیا ہے کیونکہ ان کے خیال میں اس کی قیمت اور زیادہ ہو گي۔

انھوں نے کہا کہ جو پیسہ ملے گا اس سے وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ استنبول میں پیسٹری کی دکان کھولیں گے۔

اسی طرح کے ایک آسمانی خزانے کی تلاش نے روس کے چیلیابنسک علاقے کو سنہ 2013 میں اپنی گرفت میں لے رکھا تھا جب ایک بڑا شہابیہ جھیل میں گرا تھا اور اس کے ٹکڑے ایک وسیع علاقے میں بکھر گئے تھے۔

ایک سائنس دان نے بتایا کہ شہابیے کے یہ ٹکڑے معدنیات کے لحاظ سے کسی سائنسی دلچسپی کا باعث نہیں ہیں تاہم محقوق اور نوادرات کو اکٹھا کرنے والے افراد کی نگاہ میں بڑے ٹکڑے کی ابھی بھی بہت قدر و قیمت ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours