فرانس میں جمعے کی شب جب فائرنگ شروع ہوئی تو سیفر کیسا نوسترا ریسٹورنٹ میں کاؤنٹر کے پیچھے اپنے کام میں مشغول تھا۔

وہ ایسی جگہ تھا جہاں وہ مرگیا ہوتا تاہم وہ پرسکون رہا۔ بعد میں انھوں نے واقعات کے بارے میں بتایا:

’میں کاؤنٹر پر تھا، ہم نے دھماکے سنے۔ بڑے زور کے دھماکے، سب نے زور زور سے چیخنا شروع کردیا۔ شیشے ٹوٹ کر ہمارے اوپر آ گرے۔ یہ بہت دہشت ناک تھا۔ چاروں طرف شیشے کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے بہت سے ہمارے چہروں پر لگے۔‘

’ہم نے دیکھا کہ باہر ٹیرس پر دو خواتین کو گولی لگی ہے ایک کو کلائی پر دوسرے کو کندھے پر۔ ان کے زخموں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔‘

خطرے کے باوجود سیفر کو یہ محسوس ہوا کہ اسے ان کی مدد کرنی چاہیے۔ اس نے فائرنگ میں کمی کا انتظار کیا اور پھر وہ دوڑ کر ان زخمی خواتین کے پاس پہنچا۔

اس نے بتایا: ’میں نے انھیں اٹھایا اور انھیں لے کر تہہ خانے کی جانب بھاگا۔ میں ان کے ساتھ رہا اور خون کو روکنے کی کوشش کرتا رہا۔

’تہہ خانے سے ہم لوگ گولیوں کی آوازیں سنتے رہے۔ یہ سب بہت خوفناک تھا۔

’جب ہم باہر نکلے تو ہم نے سڑکوں پر لاشیں دیکھیں۔ بہت سے لوگ زخمی تھے۔‘

کاسا نوسترا 11 ویں مشرقی ضلعے میں ہے جہاں مسلمانوں کی مخلوط آبادی رہتی ہے۔

سیفر مسلمانوں کے اسی علاقے میں رہتا ہے ان کا تعلق الجیریا سے ہے لیکن انھیں یہ نہیں معلوم کہ ان حملوں کا مقصد کیا ہے۔

کئی معاملے میں ان کی کہانی مالی کے نوجوان تارکین وطن کی کہانی سے ملتی ہے جس نے کوشر سپرمارکٹ میں جنوری میں ہونے والے حملے میں لوگوں کو بچایا تھا۔

دونوں مسلمان ہیں اور دونوں نے لوگوں کی زندگی بچانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈالی تھی۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours