بھارتی ریاست گجرات میں احمد آباد سے ممبئی کی طرف جانے والی شاہراہ پر آنند سے لے کر بھروچ کے درمیان دونوں طرف کیلے کی کاشت ہوتی ہے۔ہر روز ان میں سے قریباً 22 ہزار کلو کیلے واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان جاتے ہیں۔

آنند سے بھروچ کے درمیان یہ راستہ ایک سو کلومیٹر طویل ہے۔

گجرات میں گذشتہ چھ ماہ سے چلنے والی پاٹيدار ریزرویشن تحریک کا اس علاقے پر کوئی اثر نہیں ہوا ہے۔

یہ پورا علاقہ پٹیل ذات کے لوگوں کا ہے اور کھیتی باڑی سے منسلک تمام کسان پٹیل ذات کے ہونے کے باوجود بھی ریزرویشن کی طلب سے تعلق نہیں کیونکہ انھیں کیلے کی فصل سے ہونے والی کروڑوں کی آمدنی کی وجہ سے ریزرویشن کی طلب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

آنند سے لے کر بھروچ کے درمیان ہزاروں ایکڑ زمین پر زیادہ تر کسان کیلے ہی کی کاشت کرتے ہیں۔

وڈودرا گاؤں کے کسان اتيش پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں گذشتہ دس سال سے کیلے کی کاشت کر رہا ہوں۔ میری فصل کا بڑا حصہ پاکستان جاتا ہے۔‘

اتیش پٹیل نے مزید بتایا کہ ’اس سے ہمیں اس لیے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ہمیں بھارتی بازاروں میں کیلے فروخت کرنےکی فکر نہیں رہتی۔ پاکستان کے ساتھ کاروبار کرنے والے ایجنٹ ہمارے فارم میں آتے ہیں اور پوری فصل کی قیمت لگا کر کھیت سے ہی براہ راست کیلے کنٹینر میں رکھ کر پاکستان بھیج دیتے ہیں۔‘

’پاکستان میں گجرات کے کیلے کی زیادہ طلب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کیلے کی فصل نہیں ہوتی ہے۔‘

گجرات کے معروف زرعی ماہر پرمود چودھری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس علاقے میں اتنی مقدار میں کیلے کی فصل ہونے کی وجہ کیلے کے لئے بہترین زمین ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے اہم مناسب درجہ حرارت کا ہونا ہے۔‘

کیلے کی فصل کے لئے 22 سے 32 ڈگری کے درمیان درجہ حرارت سازگار ہے۔ اس سے کم یا زیادہ درجہ حرارت ہو تو کیلے کی فصل اچھی نہیں ہوتی ہے۔



کیلے کی فصل کے لئے زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بھی اس علاقے میں دستیاب ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours