واشنگٹن: موسیقی سنانے، شور مچانے اور بولنے والے کھلونے جہاں مہنگے ہوتے ہیں وہیں وہ چھوٹے بچوں (ٹوڈلرز) میں زبان سیکھنے اور سمجھنے کے نازک عمل کو سست کرسکتے ہیں۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں 23 دسمبرکو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ والدین مہنگے الیکٹرانک کھلونوں کو تعلیم میں مددگار سمجھ کرخریدتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بعض اوقات الٹا نکلتا ہے۔

اس سروے میں والدین کے 26 جوڑوں اوران کے بچوں کا جائزہ لیا گیا جس میں بچوں کی عمر10 سے 16 ماہ تھی۔ اس میں ماہرین نے گھروں میں آوازوں کو ریکارڈ کیا اور بچوں کے کھیلنے کے وقت کو نوٹ کیا لیکن اس سے پہلے ہرخاندان کو خاص کھلونوں کے سیٹ دیئے گئے جن میں ایک سیٹ میں بے بی لیپ ٹاپ، ٹاکنگ فارم اور بے بی سیل فون شام تھے جو سب الیکٹرانک کھلونے تھے۔ دوسرے سیٹ میں سادہ کھلونے تھے جن میں لکڑی کے پزل، تصاویراورربڑ بلاک شامل تھے۔

بولنے اور روشنی والے الیکٹرانک کھلونے بچوں کو زبان سکھانے میں بہت حد تک غیرمددگارثابت ہوئے۔جب کہ اس کے مقابلے میں سادہ کھلونوں سے بچوں کو الفاظ اور زبان سیکھنے میں مدد ملی اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بولنے اور شور مچانے والے کھلونے چلتے ہیں تو والدین اوربچے خاموش رہتے ہیں اوران کے درمیان الفاظ کا تبادلہ نہیں ہوتا اوربچے نئے الفاظ نہیں سیکھتے۔ اس لیے ماہرین کا اصرار ہے کہ بچوں کو ایسے کھلونے دیئے جائیں جن سے وہ نئے الفاظ سیکھیں جن میں کتابیں بھی ہوسکتی ہیں، الفاظ کے بلاک اورتصویری معمے وغیرہ۔

ماہرین کا اصرار ہے کہ چھوٹے بچوں کو ویڈیو گیمز سے بھی دور رکھیں اور تھوڑی مشقت کرکے انہیں کسی کتاب سے کہانیاں پڑھ کر سنائیں۔ اس سے بچوں کا ذہن وسیع ہوتا ہے اور وہ نئے الفاظ سیکھتے ہیں اور بچوں کا تخیل بھی مضبوط ہوتا ہے۔ شورمچانے، بات کرنے اور موسیقی سنانے والے الیکٹرانک کھلونوں کا ایک فوری فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ بچہ اس کی آواز اور روشنی دیکھ کر فوری متوجہ ہوتا ہے لیکن وہ نئی باتیں نہیں سیکھ پاتا کیونکہ وہ آس پاس سے بے خبرہوجاتا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours