اِس برس کے اوائل میں ملائشیا کے ایک قبیلے سے تعلق رکھنے والے سات بچے سکول سے بھاگ کر جنگل چلے گئے اور کبھی واپس نہ لوٹے۔


اس واقعے کے سات ہفتوں بعد صرف دو بچ جانے والے بچوں کو تلاش کیا جا سکا۔ اِس چونکا دینے والے کیس سے ملائشیا میں اقلیتوں سے برتاؤ کے ضمن میں سنگین سوالات سامنے آئے ہیں۔


بانس سے بنی ہوئی جھونپڑی کے فرش پر بچے بیٹھے تصویریں بنانے میں مصروف تھے۔ یہ دوپہر کا وقت تھا اور اِن بچوں کو اِس وقت سکول میں ہونا چاہیے تھا، لیکن اِس قصبے کے بچے اب سکول نہیں جاتے۔


پہلے پہل تو یہ نو اور دس سالہ بچے تھوڑا گھبرائے ہوئے تھے لیکن بعد میں اُنھوں نے مجھے اپنے رہائشی سکول کے ایک اُستاد کے بارے میں بتایا جہاں وہ کبھی جایا کرتے تھے۔


اُن بچوں میں سے ایک نے کہا ’اگر ہم کچھ غلط نہ بھی کرتے تب بھی ہمیں سزا ملتی تھی۔ وہ گھنٹوں ہمیں باہر دھوپ میں کھڑا رکھتے تھے۔ سزا کے وقت ہماری کرسی ہمارے سروں پر اور ہماری ٹانگیں جھکی ہوئی ہوتی تھیں۔‘


اگر ہم کچھ غلط نہ بھی کرتے تب بھی ہمیں سزا ملتی تھی۔ وہ گھنٹوں ہمیں باہر دھوپ میں کھڑا رکھتے تھے۔ سزا کے وقت ہماری کرسی ہمارے سروں پر اور ہماری ٹانگیں جھکی ہوئی ہوتی تھیں۔


سکول کا ایک بچہ


جب اُس نے مجھے یہ سب عملی طور پر کر کے دکھایا تو دوسرے بچے ہنسنے لگے لیکن دھاری دار ٹی شرٹ میں ملبوس ایک بچی بالکل خاموشی سے اپنی تصویر دیکھ رہی تھی۔


اُس کی عمر دس برس ہے اور اُس کا نام نورین یعقوب ہے۔ گذشتہ گرمیوں میں وہ اور اُس کے چھ ہم جماعت ساتھی سکول کا سخت نظم و ضبط برداشت نہ کر سکے، اور جنگل میں بھاگ گئے۔


اِن بچوں کا تعلق اُورنگ قبائل سے ہے۔ ملائی زبان میں اِس کا مطلب ’اصلی لوگ‘ ہے۔ اور یہ جزیرہ نما ملائشیا کے اولین باسیوں میں سے ہیں۔


یہاں اُورنگ کے 18 مختلف قبائل آباد ہیں اور تھائی سرحد کے قریب ملائشیا کے شمال میں کیمپونگ پیناڈ نامی قصبے میں رہنے والی نورین کا تعلق تیمار قبیلے سے ہے۔


یہاں والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانا چاہتے ہیں، لیکن قریبی سکول گاڑی پر تقریباً دو گھنٹے اور پیدل ایک روز کی مسافت پر ہے۔ دیگر بچوں کی طرح اِس پہاڑی علاقے کے بچے بھی اپنے سکول کے پاس والے ہاسٹل میں رہتے تھے۔


اِس کہانی کی درست کیفیت بیان کرنا تو تھوڑا مشکل ہے، کیونکہ اِس کی چشم دید گواہ صرف دو دہشت زدہ بچیاں، نورین اور مِکسودیئر آلوج ہیں، جن کی عمریں 11، 11 برس ہیں۔


نورین کی والدہ میدا کا کہنا ہے کہ سرکاری ایجنسی جبتان کیماجون اور پولیس افسران اُرونگ اصلی قبائل کے ’خاندانوں سے مجرموں کی طرح کا سلوک کرتے ہیں۔‘


اُن کا کہنا ہے کہ اُنھوں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ اُن کے ایک اُستاد نے دریا میں نہانے کی پاداش میں کچھ بڑے بچوں کو مارا تھا۔ اُن کو اِس بات کا ڈر تھا کہ اگلا ہدف وہ ہو سکتی ہیں۔


نورین کے سات سالہ بھائی ہیکال، مِکسودیئر اور چار دیگر بچیاں، جن کی عمریں سات سال سے نو سال کے درمیان ہیں، تمام کے تمام بچے 23 اگست کی صبح کو جنگل فرار ہو گئے تھے۔


جنگل میں بچوں کو پتے کھانے پڑے اُنھیں کھانے کو کچھ زیادہ نہ مل سکا۔ جو پھل انھیں کھانے کو ملے وہ بھی کافی سخت اور ناقابل ہضم تھے۔


بعد میں نورین کا بھائی ہیکال پانی پینے کی کوشش میں دریا میں جا گرا اور کمزوری کے باعث دیگر بچے اُس کی مدد نہ کر سکے۔ اُن کی والدہ نے بتایا کہ ’وہ پانی میں بہہ گیا۔ زیادہ امکان ہے کہ وہ فوراً ہی ڈوب گیا ہو گا۔‘


اِسی دوران سات سالہ بچی جووینا کی ٹانگ ٹوٹ گئی جس کے باعث وہ چلنے پھرنے سے معذور ہو گئی۔ ایک شام وہ کھانا مانگ رہی تھی لیکن اگلی ہی صبح جب نورین نیند سے بیدار ہوئی تو جووینا موت کے منہ میں جا چکی تھی۔


نورین نے ایک کونے میں لے جا کر اُس کا جسم پتوں سے ڈھانپ دیا۔


سکول سے قصبے کی جانب جانے والی سڑک سے تھوڑی دور سے سنگائی پیریاس کا دریا نظر آتا ہے۔ یہاں آپ کو جنگل میں موبائل سگنل مل سکتے ہیں۔ بچوں کے غائب ہونے کے 45 روز بعد سات اکتوبر کو ایک ٹرک ڈرائیور کال کرنے کے لیے اُس جانب نکل آیا۔


کوالالمپور سے تعلق رکھنے والے وکیل سیتی قاسم کا کہنا ہے کہ ’وہ یہاں چہل قدمی کر رہے تھے، کہ اُنھوں نے پانی میں کسی چیز کو اوپر نیچے حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔


’اُنھیں پانی میں دو پیر نظر آ رہے تھے۔ پہلے اُنھیں لگا کہ یہ کوئی گڑیا ہے لیکن بعد میں اُنھیں غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ بچے کی لاش ہے۔‘


دو دن بعد نورین اور مِکسودیئر کو بڑے سے درخت کی جڑوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تلاش کر لیا گیا۔ کمزوری کے باعث اُن کی حالت بہت نازک تھی اور وہ دونوں موت کے بےحد قریب تھے۔


نورین اور مِکسودیئر کو قریبی قصبے کے اسپتال لے جایا گیا جبکہ دیگر بچوں کی لاشوں کو مردہ خانے منتقل کر دیا گیا۔ لیکن ساسا کی لاش اب تک نہیں مل سکی ہے۔


اِس المناک کہانی میں کئی باتیں حیرانی میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ پولیس اور فوج کے جوان سراغ رساں کتوں اور ہیلی کاپٹر کا استعمال کرتے ہوئے وسیع علاقے میں بچوں کو کھوجتے رہے۔ جبکہ بچے سکول سے صرف دوکلومیٹر سے بھی قریب کے علاقے میں موجود تھے۔ پھر اُنھیں بچوں کو تلاش کرنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟


ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بچوں کی تلاش کے لیے کارروائی کا آغاز فوری طور پر اُس وقت نہیں کیا گیا تھا جب بچے تازہ دم تھے۔


بچوں کی گمشدگی کے تقریباً 11 روز بعد ان کے اہل خانہ کو سکول انتظامیہ کی جانب سے خط ملا کہ اگر وہ فوری طور پر واپس نہیں آئے تو اُن کے بچوں کو نکال دیا جائے گا۔






ایک اُستاد نے دریا میں نہانے کی پاداش میں کچھ بڑے بچوں کو مارا تھا۔ اُن کو اِس بات کا ڈر تھا کہ اگلا ہدف وہ ہو سکتی ہیں


نورین کی والدہ میدا کا کہنا ہے کہ سرکاری ایجنسی جبتان کیماجون اور پولیس افسران اُرونگ اصلی قبائل کے ’خاندانوں سے مجرموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔‘


وکیل سیتی قاسم سکول میں زیر تعلیم بچوں سے واقعے کی اصل تصویر معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، تاکہ سکول اور حکومت دونوں کے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی کی تیاری کی جا سکے۔ حادثے میں بچ جانے والی بچی مِکسودیئر اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہے۔


جب میں نے سکول کا دورہ کیا اور اساتذہ سے مبینہ مار پیٹ کے بارے میں سوال پوچھا تو اُن میں سے ایک اُستاد ہچکچاتے ہوئے ہنسنے لگے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’نہیں، نہیں، یہ بالکل غلط بات ہے۔‘ دوسرے اُستاد نے بتایا کہ ’یہ صرف افواہیں ہیں۔‘


کوالالمپور میں نائب وزیر تعلیم پی کمل ناتھن نے مجھے بتایا کہ حکومت اُورنگ قبائل کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے۔


اُن کا کہنا ہے کہ پوس توہوئی پرائمری سکول میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، لیکن اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ ملائشیا کے سکولوں میں طالب علموں کو جسمانی سزا دینے کی اجازت نہیں ہے۔



حکومت کا کہنا ہے کہ اُن کی کوشش ہے کہ پسماندہ اُرونگ اصلی قبائل کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں لایا جائے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours