بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک لاہور آمد کی ٹویٹ سے پاکستان کی میڈیا کو اچانک ہائی وولٹیج کا جھٹکا ملا۔

کیا سینیئر اور کیا جونیئر تجزیہ کار اچانک سے اپنے بستروں سے چھٹی کے دن جگائے گئے اور لائیو تبصروں کا آغاز ہو گیا۔

اور تو اور پاکستانی تجزیہ کاروں کو تو ٹویٹ کرنے کا بھی موقع نہیں ملا مگر سرحد کے دوسری جانب بھارتی صحافی اور اینکر برکھا دت نے ٹویٹ کی کہ ’مودی کی پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ: اپنے اصول خود وضع کرو، روایتی اور سرکاری پروٹوکول کے چکروں میں نہ پڑیں اور میڈیا کو دور ہی رکھیں۔ یہی دانشمندی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’مودی کا لاہور رکنے اور نواز شریف سے ملاقات کا فیصلہ ماسٹر سٹروک اقدام ہے۔ مودی اپنے حامیوں ہی نہیں بلکہ ناقدین کو اور حامیوں کو بالکل حیران کرتے ہیں۔‘

سدھیندرا کلکرنی نے لکھا: ’وزیراعظم نریندر مودی نے اٹل بہاری واجپئی کو اُن کی سالگرہ پر بہترین تحفہ دیا ہے اُن کے پاکستان بھارت کے درمیان امن کے قیام کی کوششوں کے مشن کو آگے بڑھانے کے فیصلے کے ساتھ۔ آپ کے نیک تمنائیں مودی جی۔‘

سپنا مشرا نے لکھا کہ ’ہمارے وزیراعظم کی جانب سے بہترین قدم۔ جس کی تعریف بنتی ہے۔ اور پاکستانی وزیراعظم کو جنم دن پر مبارکباد۔‘

پاکستان سے صحافی طلعت اسلم نے ٹویٹ کی کہ ’مودی کا آنا اچھی بات ہے مگر مجھے نہیں پتہ کہ اگر میرا ناراض ہمسایہ اچانک سے اپنے آپ کو میری سالگرہ پر دعوت دے ڈالے تو میں کیسا ردِ عمل دکھاؤں گا ۔‘

دا ہندو اخبار کی صحافی سوہاسنی حیدر نے مودی کی لاہور جانے کی ٹویٹ پر تبصرہ لکھا: ’ناشتہ کابل میں، لنچ لاہور میں اور ڈنر دہلی میں۔‘

برکھا دت نے لکھا کہ ’بھارتی جنتا پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے مودی کے لاہور میں رکنے کو واجپئی کے لاہور بس کے ذریعے جانے سے تشبیہ دی۔ ’یہ دونوں کا جنم دن ہے۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours