ہریانہ کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس وائی پی سنگھ نے کہا کہ ریاست میں جاری تشدد میں کم از کم دس افراد ہلاک جب تقریبا ڈیڑھ سو زخمی ہوئے ہیں۔ کشیدگی کے باعث آٹھ شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق انھوں نے بتایا کہ حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں۔ 191 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گيا ہے جبکہ تقریبا 45 افراد کو گرفتار کیا گيا ہے۔


انھوں نے کہا ’ہماری ترجیحات میں آج دہلی کے لیے پانی کی سپلائی جاری کرنا ہے۔‘

دوسری جانب دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا ہے کہ دہلی میں پینے کا پانی تقریبا ختم ہو گیا ہے کیونکہ مظاہرین نے مونک نامی نہر کو بند کر دیا ہے جہاں سے دہلی کو پینے کا پانی سپلائی ہوتاہے۔

انھوں نے کہا ’ہریانہ کی تحریک کی وجہ سے دہلی کو پانی نہیں مل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے ٹریٹمنٹ پلانٹ میں بھی پانی تقریبا ختم ہو گیا ہے۔‘

اسی سبب پیر کو دہلی کے تمام سکول کے بند رہنے کا اعلان کیا گيا ہے۔


بھارتی ریاست ہریانہ میں یہ تشدد جاٹ برادری کی ریزرویشن تحریک سے شروع ہوا۔

ہریانہ کے ریاستی دارالحکومت چنڈی گڑھ میں موجود مقامی صحافی سنجے شرما نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری پی کے داس کے حوالے سے بتایا ہے کہ جھجّر میں فوج اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم میں سات افراد مارے گئے ہیں جبکہ کیتھل ضلعے میں دو گروہوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا ہے۔

اس سے قبل ایک شخص جمعے کو روہتک میں پولیس فائرنگ میں ہلاک ہو گیا تھا۔

ہریانہ میں موجود بی بی سی کےنامہ نگار سلمان روی نےبتایا کہ احتجاج کرنے والے جاٹوں نےساری ریاست کی ناکہ بندی کر رکھی ہے اور ریاست کو دوسرے ملک سے ملانے والی شاہراہوں اور ریلوے لائنوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

تشدد سے متاثرہ علاقوں میں سنیچر کو کرفیو کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر آ گئے جبکہ روہتک اور جند میں مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں، سرکاری، نجی املاک اور بسوں کو نذرِآتش کر دیا۔

بھارت کی سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ جھجھر میں جاٹ برادری کے مظاہروں کے دوران فائرنگ اور املاک کو آگ لگانے کی کوشش کو روکنے کے لیے مسلح افواج کی فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔

جمعے کو روہتک میں نسلی فسادات کے بعد شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا جبکہ سنیچر کو کرفیو آٹھ شہروں تک بڑھا دیا گیا۔

روہتک میں فوجیوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اتارا گیا ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں فوج کا فلیگ مارچ جاری ہے۔

ریاست میں پولیس کے سربراہ وائی پی سنگھل کا کہنا ہے کہ امن و قانون قائم رکھنا پولیس کی پہلی ترجیح ہے۔

جمعرات کو جاٹ برادری کی جانب سے ملازمت اور تعلیم کے شعبوں میں ریزرویشن کے مطالبات کے لیے ریلی نکالی تھی جس کے بعد صورت حال پر تشدد ہوگئی تھی۔

جاٹ برادری سرکاری ملازمتوں میں کوٹے کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ دیگر نسلی گروہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

پولیس نے موبائل انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی ہیں اور چار سے زائد افراد کے اکٹھا ہونے پر پابندی عائد ہے۔

ریاست کے پولیس سربراہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس تحریک میں حصہ لینے کے لیے نہ بھیجیں۔ انھوں نے کھاپ پنچایتوں سے بھی فی الحال میٹنگ سے باز رہنے کی اپیل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تشدد میں ملوث افراد کی شناخت کے بعد ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

ادھر مرکزی وزیر سنجیو کمار بالیان نے لوگوں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی حکومت اس معاملے کو حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔

ریاست کے وزیراعلیٰ منوہر لال کٹر نے جمعرات کی شب حالات کا جائزہ لینے کے لیے ہنگامی اجلاس بلایا تھا۔

مرکزی حکومت نے بھی ریاستی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ جاٹ برادری سے مذاکرات شروع کرے۔

فی الحال جاٹ برادری کو اعلیٰ ذات کی حیثیت حاصل ہے تاہم وہ دیگر نچلی ذاتوں کے لیے متعین کردہ حیثیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

جاٹ برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نچلی ذاتوں کے لیے مختص کوٹے کی وجہ سے ان کی برادری کو تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں کے حصول میں ناانصافی ہوتی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours