جنوری 2016
ویلنگٹن: نیوزی لینڈ نے 3 میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز کے فیصلہ کن میچ میں مہمان پاکستان کو شکست دے کر سیریز اپنے نام کرلی۔

ویلنگٹن کے ویسٹ پیک اسٹیڈیم میں کھیلے گئے میچ میں نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 5 وکٹوں کے نقصان پر196 رنز بنائے جس کے تعاقب میں پاکستان کی پوری ٹیم 101 رنز پرپویلین لوٹ گئی۔ ہدف کے تعاقب میں قومی ٹیم کو پہلا نقصان 7 رنز پر ہوا جب محمد حفیظ 2 رنز بنا کر کیچ آؤٹ ہوئے جب کہ تیسرے اوورکی پہلی گیند پراحمد شہزاد بھی 8 زنربنا کر پویلین لوٹ گئے، محمد رضوان 4، شعیب ملک 14،عمراکمل 5، شاہد آفریدی 8 اورعماد وسیم بغیرکوئی رنزبنائے آؤٹ ہوئے۔ گرتی وکٹوں کو سنبھالا دینے کے لئے وکٹ کیپربلے بازسرفرازاحمد نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن وہ بھی 92 کے مجموعی اسکورپر ہمت ہارگئے انہوں نے 5 چوکوں کی مدد سے 36 گیندوں پر 41 رنزبنائے، انور علی 8 اوروہاب ریاض 1 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے گرینٹ ایلیٹ نے 3، کوری اینڈریسن اور ایڈم ملنے نے 2،2 جب کہ ٹرینٹ بولڈ نے ایک وکٹ حاصل کی۔

اس سے قبل پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کیویز اوپنرز نے ایک بارپھرجارحانہ بلے بازی کرتے ہوئے ٹیم کو 57 رنزکا آغاز فراہم کیا۔ چھٹا اوور کرانے شاہد آفریدی آئے اور پہلے ہی اوور میں مارٹن گپٹل کو عمر اکمل کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرادیا، انھوں نے 19 گیندوں پر 42 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی۔ ساتویں اوور میں 62 کے مجموعی اسکور پر کولن منرو محمد رضوان کی شاندار تھرو پر رن آؤٹ ہوئے۔ گیارہویں اوور میں وہاب ریاض نے کیوی قائد کین ولیمسن کو 33 رنز پر آؤٹ کردیا، شعیب ملک نے ان کا کیچ تھاما۔ روس ٹیلر 6 رنز بنا کر ریٹائرڈ ہرٹ ہو گئے۔ کورے اینڈرسن نے 27 گیندوں پر جارحانہ نصف سنچری اسکور کی۔ گرانٹ ایلیٹ 14 گیندوں پر 19 رنز بنا کر رن آؤٹ ہوئے جب کہ لیوک رونچی اپنا کھاتا کھولے بغیر پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہو گئے لیکن ایک طرف سے کورے اینڈرسن نے شاندار بلے جاری رکھی اور 42 گیندوں پر 82 رنز کی ناٹ آؤٹ اننگز کھیلی۔

پاکستان کی جانب سے وہاب ریاض نے 2 جب کہ شاہد آفریدی نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا، 2 کیوی بلے باز رن آؤٹ ہوئے۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

عدالت نے یہ حکم وفاق اور صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں پر دیا جس میں شکار پر پابندی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

اگست 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

جمعے کو سنائے گئے فیصلے میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کثرتِ رائے سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

یہ فیصلہ جسٹس میاں ثاقب نثار نےتحریر کیا ہے جنھوں نے لکھا کہ ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان نسلوں کی افزائش کر کے شکار کیا جا سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات نے تلور کو اُن پرندوں میں شامل نہیں کیا جن کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قانون کا جائزہ لے کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تلور کے شکار پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ صوبوں کا اختیار ہے کہ کس پرندے کے شکار پر پابندی لگائیں اور کس پرندے کے شکار کی اجازت دیں، عدلیہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے تلور کے شکار کے پرمٹ کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

اس کے علاوہ اس فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عدالت کو کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں بتایا گیا کہ جنگلی حیات کے بارے میں صوبوں کے قوانین کیا ہیں۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے محکمہ وائلڈ لائف ایسے اقدامات کرے جو تمام جنگلی حیات کے لیے ہوں۔

فیصلے کے حق میں چار ججوں نے رائے دی جبکہ بینچ کے رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔

جسٹس عیسٰی اس بینچ کے بھی رکن تھے جس نے شکار پر پابندی لگانے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں نایاب سمجھا جانے والا پرندہ تلور موسمِ سرما گزارتا ہے۔

حکومتِ پاکستان اس کے شکار کے لیے خصوصی پرمٹ جاری کرتی ہے اور اس کے شکار کے لیے خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندانوں کے ارکان کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کرتی رہی ہے۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 1980 کی دہائی سے خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کی جاتی رہی ہیں۔

اس پرندے کے شکار کے لیے وفاقی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جو پرمٹ جاری کیا جاتا ہے اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ دس دن کے لیے شکار کر سکتے ہیں۔

ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم بلوچستان کے محکمہ تحفظِ جنگلی حیات کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں ایک سعودی شہزادے نے چاغی میں تین ہفتے کی کیمپنگ کے دوران 2100 تلور شکار کیے تھے۔
راولپنڈی: آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان کیمبل کو فون کیا اور چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی حملے سے متعلق آگاہ کیا۔

میڈیا کے مطابق سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف نے افغان قیادت اور امریکی کمانڈر جنرل جان کیمبل کو فون کیا اور انہیں چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے قبضے سے افغان سمیں برآمد ہوئیں جب کہ چارسدہ حملے کو افغانستان کے ایک مقام سے کنٹرول کیا گیا جہاں سے تحریک طالبان کا ایک آپریٹر دہشت گردوں کو فون پر ہدایات دے رہا تھا۔

جنرل راحیل شریف نے افغان صدر، چیف ایگزیکٹیو اور امریکی جنرل سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے ذمہ داران کو تلاش کرنے اور انہیں نشانہ بنانے کے لئے تعاون بھی طلب کیا۔
ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اسٹیئو اروین کے ذاتی چڑیا گھر میں موجود شیر نے اپنے ہی رکھوالے پر حملہ کر کے اُسے زخمی کر دیا ہے۔شیر کے رکھوالے کو چہرے اور بازوں پر زخم آئے ہیں۔


اروین کی بیوہ نے ٹویٹ کی ہے کہ ’شیر نے اپنے رکھوالے پر حملہ کیا اور لیکن شیر اور اُس کا رکھوالا دونوں صحیح ہیں۔‘

ماحولیات کے لیے کام کرنے والے اروین سنہ 2006 میں اُس وقت ہلاک ہوئے تھے، جب ایک دستاویزی فلم بنانے کے دوران سمندر میں مچھلی نے اُن کے سینے پر حملہ کیا تھا۔

آسٹریلیا کے چڑیا گھر کی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ شیر کی عمر 12 سال ہے اور اُس کا نام رینو ہے، شیر نے صبح کے اوقات میں اپنے رکھوالے پر حملہ کیا۔

چڑیا گھر کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’رینو اپنے اردگرد کے ماحول میں کچھ زیادہ دلچسپی لیتا ہے اور جب اُس کے رکھوالے نے اُسے دوسرے سمت موڑنے کے لیے پکڑا تو اُس نے رکھوالے کی بائیں پسلی، بازوں اور ماتھے پر پنجہ مارا۔‘

آسٹریلیا کی ایمولینس سروس نے بتایا کہ شیر کے 41 سالہ رکھوالے کو دو گہرے زخم آئے ہیں۔ پہلے انھیں چڑیا گھر میں ابتدائی طبی امداد دی گئی اور بعد میں انھیں ہسپتال لایا گیا۔

اروین اور اُن کے خاندان نے آسٹریلیا کے شہر کوئیز لینڈ میں ایک چڑیا گھر بنایا ہے۔ اس چڑیا گھر میں’دی ٹائیگر ٹیمپل‘ بھی ہے اور رینو نامی شیر چڑیا گھر کی خاص رونق ہے۔

چڑیا گھر کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد ٹائیگر اور رکھوالا دونوں خیریت سے ہیں اور وہ جلد اپنے کام پر واپس آ جائیں گے۔

چڑیا گھر کا کہنا ہے کہ رینو کافی شرارتی شیر ہے اور وہ اپنے اردگرد کے افراد کو کوئی نہ کوئی چیلنج دیتا رہتا ہے۔

’رینو کے ساتھ موجود رکھوالے کو یہ بات دماغ میں رکھنا ہو گی کہ سب سے اہم رینو ہے اور یہ بہت ضروری ہے کہ اُس کے ساتھ رہ کر برداشت کیا جائے۔‘
آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں شمالی کینیا میں انسانوں کے درمیان قدیم ترین جنگ کے شواہد ملے ہیں۔

ماہرین کے مطابق انھیں کینیا کے شمال میں واقع ترکانا جھیل کے قریب دس ہزار سال قبل ہونے والی ایک جنگ میں 27 افراد کی باقیات ملی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان کی موت تشدد کی وجہ سے ہوئی۔

ماہرین کے مطابق انھیں دفن کرنے کی بجائے مرنے کے لیے کھلے عام چھوڑ دیا گیا تھا۔

متعدد ماہرین نے دلیل دی ہے کہ اس قسم کی جنگیں صرف اسی وقت ہی ممکن ہو سکیں جب انسانوں نے بستیاں بسانا شروع کر دیں۔ تاہم اس کے برعکس یہ لوگ بظاہر خانہ بدوشوں کی طرح رہا کرتے تھے۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین سنہ 2012 سے کینیا میں کام کر رہے تھے۔ انھیں پتہ چلا کہ متاثرہ افراد کو ڈنڈوں سے مار کر گھونپ کر ہلاک کیا گیا۔

ہلاک ہونے والے افراد میں مرد، عورتوں اور بچے شامل تھے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ فولی کا کہنا ہے کہ جریدے نیچر میں چھپنے والی تحقیق میں اس بات کا پتہ نہیں چلتا کہ جنگ کی اصل وجہ کیا تھی تاہم متعدد افراد کا ایک ہی وقت میں ہلاک ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ’یہ ہلاکتیں کسی جنگ کا نتیجہ ہیں۔‘

خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان افراد کو مخالف مسلح شکاریوں نے لکڑیوں اور تیروں سے ہلاک کیا جن کے سروں پر تیز دھار پتھر لگے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں انسانوں نے دھاتیں دریافت نہیں کی تھیں۔

کینیا کی نتاروک جھیل پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ مارٹا میرازون لہر کا کہنا ہے: ’یہ قتلِ عام وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش ہو سکتا ہے۔‘
عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 30 ڈالر فی بیرل سے بھی نیچے آ گئی ہے۔

ایسے میں تیل کی برآمد پر انحصار کرنے والے ممالک سعودی عرب، دوسرے خلیجی ممالک، اور روس نے اپنے اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ تیل کی دولت سے مالا مال ونیزویلا نے ملک میں اقتصادی ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

لیکن پاکستان جیسے درآمدی خام تیل پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے قیمتوں میں کمی ایک سنہری موقع ہے کیونکہ ملک کی درآمدت کا 33 فیصد تیل کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور قیمتوں میں کمی سے پاکستان کا درآمدی بل کم ہوا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران پاکستان نے چار ارب 35 کروڑ ڈالر مالیت کی تیل کی مصنوعات درآمد کی ہیں جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے دوران ان مصنوعات کا درآمدی بل ساڑھے سات ارب ڈالر سے زائد تھا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد سے پاکستان کے درآمدی بل میں ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان مستفید ہو رہا ہے یا نہیں؟

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا ہے کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں شرح سود میں کمی سے حکومتی قرضوں کا بوجھ بھی کم ہوا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’افسوس یہ ہے کہ اس کمی کا فائدہ عوام اور صنعتوں کو نہیں ہو رہا کیونکہ مقامی سطح پر تیل کی مصنوعات کی قیتمتوں میں کمی نہیں ہو رہی اور حکومت ٹیکس کی شرح بڑھا رہی ہے۔‘

دنیا بھر میں خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر 30 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہے لیکن مقامی سطح پر حکومت نے ٹیکس بڑھا کر قیمتوں میں کمی کے فائدہ عوام کو منتقل نہیں کیا۔

پاکستان میں ڈیزل پر سیلز ٹیکس کی شرح 45 فیصد جبکہ پیٹرول پر 25 فیصد ہے۔

ماہر اقتصادیات خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیدوار فرنس آئل سے ہوتی ہے اور فرنس آئل سستا ہونے سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت بھی کم ہوئی ہے، جس سے حکومت کی سبسڈی میں کمی ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا حکومت کو چاہیے سبسڈی میں کمی سے حاصل ہونے والی رقم سے انفراسٹرکچر کی بہتری پر خرچ کیا جائے۔

خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیٹرولیئم مصنوعات پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر آمدنی کا آسان ذریعہ ڈھونڈ رہی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’درآمدی بل میں کمی سے پاکستانی کرنسی کی قدر مستحکم ہوئی ہے اور قرضے کم ہوئے ہیں۔ ان حالات میں ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے معیشت ترقی کرے۔‘

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال قدرے بہتر ہوئی ہے اور ایسے میں ضروری ہے کہ نجی شعبے کے اعتماد کو بحال کر کے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جائے۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ ’ملک میں کاروباری لاگت کم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ برآمدت کو بڑھایا جا سکے۔ ہماری پیدواری لاگت دنیا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک طرف تو درآمدی بل کم ہو رہا ہے لیکن دوسری جانب برآمدت نہیں بڑھ رہیں، اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے ہونے والا فائدہ ختم ہو رہا ہے۔‘

خرم شہزاد کے مطابق چین کی معیشت میں سست رفتاری کا نقصان پاکستان کو نہیں ہو گا۔ ’پاکستان کی چین سے برآمدات کے مقابلے میں درآمدت زیادہ ہیں اور چین کی کرنسی کی قدر میں کمی سے درآمدی مصنوعات سستی ہوں گی، جو ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔‘


اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان مستفید ہو سکتا ہے لیکن اُس کے لیے ضروری ہے کہ ایسی حکمتِ عملی بنائی جائے جس سے اقتصادی شرح نمو میں اضافہ ہو۔

ماہرین کے مطابق ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پا کر صنعتوں کو بجلی فراہم کی جائے تاکہ برآمدت میں اضافہ ہو اور پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر انحصار کے بجائے ٹیکسوں کے دائرے کار کو وسیع کرنے پر توجہ دی جائے۔
اگر آپ کسی بیماری کے خلاف کسی نئی اینٹی بایوٹک کی تلاش میں ہیں تو آغاز کہاں سے کریں گے؟ کسی دلدل سے؟ کسی ویران جزیرے سے؟

اپنی داڑھی میں کنگھی پھیرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟

بی بی سی کے پروگرام ’ٹرسٹ می آئی ایم اے ڈاکٹر میں ہم ایسے ہی کچھ تجربات کرتے ہیں جس میں بعض اوقات صحیح سائنس بھی سامنے آ جاتی ہے۔

مثال کے طور پر گذشتہ سیریز میں ہم نے یہ جانا کہ آپ پاستا پکانے، ٹھنڈا کرنے اور پھر دوبارہ گرم کرنے سے اس کے اندر موجود کیلوریز کم کر سکتے ہیں۔

یہ ایک خوشگوار نتیجہ تھا۔ لیکن ہماری حالیہ دریافت زیادہ اہم ہے، یعنی ایسے بیکٹریا کی دریافت جو اینٹی بایوٹک کا کام دیتے ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ داڑھی میں پائے جاتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ داڑھیاں عموما کالی ہوتی ہیں۔ ٹھوڑی پر لکیر کی شکل میں، گلے پر داڑھی یا وین ڈائیک سٹائل کی۔

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ داڑھیوں سے رغبت نہ صرف پریشان کن ہو سکتی ہے بلکہ یہ نامناسب جراثیم کی منتقلی کا کام بھی دیتی ہیں۔

تو ایسے کیا شواہد ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھیوں کا صحت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے؟ انگریزی زبان کا ایک لفظ ہے پوگونوفوبیا یعنی داڑھی سے ڈر لگنا۔

لیکن ایک امریکی ہسپتال کی جانب سے کی جانے والی سائنسی تحقیق میں اس کے برعکس نتائج سامنے آئے ہیں۔

جرنل آف ہاسپٹل انفیکشن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں داڑھی اور بغیر داڑھی کے ہسپتال کے 408 عملے کے ارکان کے چہروں کو پونچھ کر نمونے حاصل کیے گئے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہسپتال سے انفیکشن کی منتقلی ہسپتالوں میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ ہے۔ بہت سارے افراد ہسپتال جا کر ان بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں وہ ہسپتال جانے سے پہلے مبتلا نہیں ہوتے۔ ہاتھ، سفید کوٹ، ٹائیاں اور ساز و سامان ہی اسکا سبب بن سکتا ہے، تو پھر داڑھیوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟

محققین کے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ ڈارھی کے بغیر عملے کے چہروں پر داڑھی والے عملے کے چہروں کے مقابلے میں مضر جراثیم کی تعداد زیادہ تھی۔

اس مطالعے سے یہ واضح ہوا کہ داڑھی کے بغیر والے افراد پر میتھیسیلین ریزسٹنٹ سٹاف اوریوس (ایم آر ایس اے) نامی جراثیم داڑھی والوں کے مقابلے میں زیادہ تھے۔

ایم آر ایس اے عام طور پر ہسپتال سے منتقل ہونے والے انفیکشنوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ بہت سارے اینٹی بایوٹکس کے مقابلے میں قوت مدافعت رکھتا ہے۔

محققین کے خیال میں شیو کرنے سے جلد پر خراشیں لگتی رہتی ہیں ’جس سے بیکٹریا کی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔‘

شاید اس کی وضاحت کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ داڑھیاں انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

اپنے اس تجسس کو جانچنے کے لیے ہم نے کچھ افراد کے چہرے پونچھ کر یونیورسٹی کالج لندن کے مائیکروبیالوجسٹ ڈاکٹر ایڈم رابرٹس کو بھیجے۔ڈاکٹر ایڈم داڑھیوں میں ایک سو سے زائد قسم کے بیکٹریا دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے جن میں ایک وہ قسم بھی شامل تھی جو عام طور پر چھوٹی آنت میں پائی جاتی ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انسانی فضلے سے آیا ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے اور پریشان کن امر نہیں۔

اس سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ داڑھی میں موجود بعض جراثیم دوسرے بیکٹریا کے دشمن نکلے۔

ہم ان جراثیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں لیکن وہ ہمیں ایسا نہیں سمجھتے۔ بیکٹیریا اور پھپوند کی سطح پر وہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا رہتے ہیں، وہ کھانے اور جگہ کے لیے ایک دوسرے کے خلاف سرگرم رہتے ہیں۔ اور اس کام کے دوران وہ اینٹی بایوٹک کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

کیا ہمارے پراسرار جراثیم بھی کچھ ایسا ہی کر رہے ہیں، یعنی مضر بیکٹریا کو کسی زہر کے ذریعے مار دیتے ہیں؟

ڈاکٹر ایڈم کے مطابق ایسا ممکن ہے۔

ڈاکٹر ایڈم کے خیال میں یہ سٹیفائلوکوکس نامی جرثومے ہیں۔ جب انھوں نے اسے پیشاب کے انفیکشن کی ایک قسم کے ساتھ ٹیسٹ کیا تو دیکھا کہ انھوں نے مضر جرثوموں کا خاتمہ کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اینٹی بایوٹکس کی مزاحمت والے انفیکشن سالانہ سات لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتے ہیں اور سنہ 2050 تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔

ڈاکٹر ایڈم کے مطابق گذشتہ 30 سالوں میں کوئی نئی اینٹی بایوٹک تیار نہیں کی گئی۔
ویسے تو لہسن پاکستان میں بیشتر کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے مگر کیا آپ اس کے فوائد جانتے ہیں؟

یقیناً بیشتر افراد کو اس جڑی بوٹی نما سبزی کے بیشتر فوائد کے بارے میں علم نہیں جیسے غیر متوقع طبی فوائد، خوبصورتی اور گھر کی مرمت وغیرہ کے لیے اس کا استعمال۔

اگر آپ بھی ان افراد میں سے ایک ہیں تو لہسن کے یہ چند حیران کن فوائد جاننا ہوسکتا ہے کسی موقع پر کام آجائے۔

بالوں کو اگائیں

لہسن آپ کے بالوں کے گرنے کے مسئلے کو ختم کرسکتا ہے جس کی وجہ اس میں شامل ایک جز الیسین کی بھرپور مقدار ہے، یہ سلفر کمپاﺅنڈ پیاز میں بھی پایا جاتا ہے اور ایک طبی تحقیق کے مطابق بالوں کے گرنے کی روک تھام کے لیے موثر ہے۔ لہسن کو کاٹ لیں اور اس کی پوتھیوں کو سر پر ملیں۔ آپ تیل میں بھی لہسن کو شامل کرکے مساج کے ذریعے یہ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

کیل مہاسوں کا خاتمہ

یہ کیل مہاسوں کے لیے ملنے والی ادویات کا مرکزی جز تو نہیں مگر لہسن ایک قدرتی علاج ضرور ہے جو کیل مہاسوں کو کاتمہ کرسکتا ہے۔ اس میں موجود اینٹی آکسائیڈنٹس بیکٹریا کو ختم کرتے ہیں تو لہسن کی پوتھی کو کیل مہاسے پر رگڑنا موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

نزلہ زکام کی روک تھام

اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہونے کے باعث آپ کی غذا میں لہسن کی شمولیت جسم کے دفاعی نظام کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ اگر نزلہ زکام کا شکار ہوجائیں تو دل مضبوط کرکے لہسن کی چائے پی لیں۔ اسے بنانے کے لیے لہسن کو پیس کر پانی مین کچھ منٹ تک ابالیں، اس کے بعد چھان کر پی لیں۔ آپ اس میں تھوڑا سا شہد یا ادرک بھی ذائقے کو بہتر کرنے کے لیے شامل کرسکتے ہیں۔

وزن کو کنٹرول کریں

لہسن جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک تھقیق کے مطابق لہسن سے بھرپور غذا سے چربی کے ذخیرے اور وزن میں کمی ہوتی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے لہسن کو روزانہ اپنی غذا کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔

پاﺅں یا جسم میں پھنسی لکڑی کے ریشوں کو نکالیں

ادرک کے ایک ٹکڑے کو متاثرہ جگہ کے اوپر رکھ کر اسے بینڈیج یا ٹیپ سے کور کرلیں۔ اگر پاﺅں میں پھانس چبھی ہے تو جرابوں کو چڑھا لیں اور رات بھر آرام کریں اور صبح اسے ہٹا دیں۔ پھانس کے ساتھ ساتھ درد اور سوجن بھی ختم ہوجائیں گے۔

مچھروں کو دور بھگائیں

سائنسدان پریقین تو نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے مگر ایسا نظر آتا ہے کہ مچھروں کو لہسن پسند نہیں۔ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ لہسن کے پیسٹ کو اپنے ہاتھوں اور پیروں پر مل لیتے ہیں انہیں مچھروں کا ڈر نہیں رہتا۔ اس کے لیے آپ لہسن کے تیل، پیٹرولیم جیل اور موم کو ملا کر ایک سلوشن بنالیں جو مچھروں سے تحفظ دینے والا قدرتی نسخہ ثابت ہوگا۔

ہونٹوں پر زخم سے نجات

شدید ٹھنڈ میں ہونٹوں کا پھٹ جانا یا زخم ہوجاتا کافی عام ہوتا ہے تو اس کے علاج کے لیے پیسے ہوئے لہسن کو کچھ دیر تک متاثرہ جگہ پر لگائے رکھیں۔ اس میں شامل قدرتی سوجن کش خصوصیات درد اور سوجن کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

لہسن قدرتی گلیو بھی

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ لہسن کو کاٹنے کے بعد انگلیاں کس طرح چپکنے لگتی ہیں ؟ اس کی یہ قدرتی خوبی اسے شیشے کے معمولی کریک کو ٹھیک کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے لیے لہسن کو پیس لیں اور اس کے عرق کو کریک پر رگڑیں اور اوپر نیچے کے حصے کو صاف کردیں۔

پودوں کو تحفظ فراہم کرے

باغات میں پائے جانے والے کیڑے لہسن کو پسند نہیں کرتے تو اس کی مدد سے ایک قدرتی پیسٹی سائیڈ تیار کرلیاں جس کے لیے لہسن، منرل آئل، پانی اور لیکوئیڈ صابن کو ایک اسپرے بوتل میں آپس میں ملالیں اور پودوں پر چھڑک دیں۔

خارش سے ریلیف

لہسن سوجن کش اجزاءسے بھرپور ہے اسی لیے یہ اچانک ہونے والی خارش سے ریلیف بھی دے سکتا ہے۔ لہسن کے تیل کی کچھ مقدار کو متاثرہ جگہ پر استعمال کریں تو وہاں خارش ختم ہوجائے گی۔
سائنس دانوں نے شمالی بھارت اور چین میں پرندوں کی ایک نئی قسم دریافت کی ہے، جسے ہمالیائی جنگلی چڑیا کا نام دیا گیا ہے۔


پہاڑوں پر موجود جنگلوں میں کام کے دوران سائنس دانوں کو ان پرندوں کے بارے میں پتہ چلا جو پہاڑوں کی پتھریلی چوٹیوں پر رہنے والے پرندوں سے زیادہ سریلی آواز میں چہچہا رہے تھے۔

اس کے بعد انھوں نے ان پرندوں کے ظاہری اور جینیاتی فرق کے بارے میں بھی معلوم کیا اور بتایا کہ ’سادہ پشت والی جنگلی چڑیا کی بھی دو مختلف اقسام ہیں۔‘

پہاڑوں پر رہنے والی نئی قسم کا نیا نام ’الپائن کی چڑیا‘ تجویز کیا گیا ہے۔

اس تحقیق کے رہنما، پروفیسر آلسٹروم جن کا تعلق وئیڈن کی اپسلا یونیورسٹی سے ہے، بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’دنیا میں اب دریافت کرنے کے لیے پرندوں کی زیادہ اقسام نہیں بچی ہیں۔ ایسے میں اگر آپ کوئی نئی قسم دریافت کرتے ہیں تو بہت خوشی ہوتی ہے۔‘

ہمالیہ کی جنگلی چڑیا 1949 کے بعد سے ہندوستان میں دریافت کیے جانے والے نئے پرندوں کی چوتھی قسم ہے۔

ایوی آن ریسرچ نامی جنرل میں چھپنے والی اس تحقیقی رپورٹ پر پروفیسر آلسٹروم نے تحقیق کاروں کی ایک بین الاقوامی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔

بھارت میں پرندوں کے علم کے ماہر مرحوم ڈاکٹر سیلم علی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے چڑیا کی اس نئی دریافت کو ’زوتھیرا سلیم علی‘ کا سائنسی نام دیا گیا ہے۔


پروفیسر آلسٹرون کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر سیلم علی نے ہندوستان میں پائے جانے والے پرندوں پر بہت کام کیا ہے اور وہ پرندوں پر معلومات اور ان کے تحفظ کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم شخصیت رہے ہیں۔‘

اس نئی دریافت کا آغاز سنہ 1999 میں ہوا تھا جب ہمالیہ کے پہاڑوں پر ایک مہم کے دوران پہلی مرتبہ ان پرندوں کی آواز کو غور سے سنا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنے بھارتی ساتھی شاشانک دلوی کے ساتھ ارونا چل پردیش کے جنگلات میں تھا جہاں ہمیں پتہ چلا کہ سادہ پشت والی جنگلی چڑیا کی بھی دو اقسام ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ اس فرق کی وجہ ان کا مختلف اونچائیوں اور مختلف مقامات پر رہنا ہے۔‘

پرندوں کی ایک قسم درختوں کی قطار سے اوپر پائی گئی جن کے چہچہانے کا انداز قدرے کھردرا ور بے سرا تھا جبکہ کچھ ہی نیچے جنگلوں میں پائے جانے والی قسم کی آواز زیادہ سریلی تھی۔

پروفیسر آلسٹن کہتے ہیں کہ ’انھوں نے ہمیں مختلف گانے سنائے۔ شروع میں ہم ان کی بناوٹ اور پروں کے فرق کو محسوس نہ کرسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم جنگلوں میں رہنے والی قسم کو صحیح طور سے دیکھ نہیں پائے تھے کیونکہ وہ کہیں چھپے ہوئے تھے۔‘

کئی سال کی تفصیلی تحقیق کے دوران سائنس دانوں کی ٹیم نے دنیا بھر کے 15 عجائب گھروں میں موجود ہندوستان اور چین سے تعلق رکھنے والے جنگلی پرندوں کی اقسام کا تقابلی جائزہ لیا۔

اس تحقیق میں ان کے ڈی ان اے کا تجزیہ بھی شامل تھا جس سے سائنس دانوں کے اس خیال کو تقویت ملی کہ پرندوں کی یہ دو اقسام کئی ہزار سالوں سے الگ الگ اس خطے میں پروان چڑھ رہی ہیں۔

پروفیسر آلسٹرون بیان کرتے ہیں کہ ’یہ دونوں اقسام واقعی بہت مختلف ہیں، حالانکہ دیکھنے میں دونوں تقریبا ایک جیسی ہی لگتی ہیں۔‘

’ان دونوں اقسام کے ارتقا کی تاریخ بھی کئی ہزار سالوں سے الگ ہو چکی ہے۔ ممکن ہے یہ عمل بھی اسی وقت شروع ہوگیا ہو جب انسان اور چمپینزی کے ارتقائی عمل کی کہانی ایک دوسرے سے الگ ہونا شروع ہوگئی تھی۔‘

ٹیم کا خیال ہے کہ شروع میں دونوں اقسام ایک ہی ہوں گی لیکن بعد میں پہاڑوں کی چوٹیوں اور جنگلوں میں الگ الگ سکونت اختیار کرنے کے بعد ان کے ارتقا کا عمل بھی شروع ہو گیا۔

’الپائن کی چڑیا کی ٹانگیں اور دم جنگلی چڑیا کے مقابلے میں نسبتا لمبی ہیں۔ جس کی وجہ یقیناً ان کا پہاڑی علاقوں میں رہنا ہے، کیونکہ پہاڑوں میں رہنے والے پرندوں کو جنگلوں میں رہنے والے پرندوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی ٹانگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
چارسدہ: باچا خان یونی ورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے میں ایک پروفیسر اور 13 طلبا سمیت 20 افراد شہید اور 50 سے زائد زخمی ہوگئے جب کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران 4 حملہ آور بھی مارے گئے۔

چارسدہ یونیورسٹی میں قوم پرست رہنما باچا خان کی برسی کے موقع پرمشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کے لئے طلبہ، اساتذہ اورعملے کی بڑی تعداد موجود تھی کہ اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا اوردھماکوں کی آوازیں بھی سنیں گئیں۔ یونی ورسٹی سے موصول اطلاعات کے مطابق فائرنگ کے واقعے کے بعد بھگڈرمچ گئی اورطلبہ اپنی کلاسوں میں جب کہ طالبات ہوسٹل میں محصورہو کررہ گئی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے چارسدہ یونیورسٹی کا محاصرہ کیا اور دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا تاہم حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پاک فوج کو فوری طور پرطلب کیا گیا جس کے بعد پاک فوج کے چاق و چوبند دستوں نے یونیورسٹی کے اندرداخل ہوتے ہی بلند عمارتوں کا کنٹرول سنبھالا اور بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے یونیورسٹی پرحملہ کرنے والے چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق دہشت گردوں کے حملے میں یونی ورسٹی کے پروفیسرحامد حسین اور13 طالبعلم شہید ہوئے جب کہ مجموعی طور پر20 افراد جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے افراد کی لاشیں ڈی ایچ کیو اسپتال چارسدہ منتقل کردی گئی ہیں۔ دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں اسسٹنٹ پروفیسرحامد حسین بھی شامل ہیں جوحال ہی میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کرکے پاکستان آئے تھے اورچارسدہ یونی ورسٹی میں کیمسٹری کے استاد تھے۔ سانحے میں شہید ہونے والے طلبا میں عمران ولد سعیداللہ، شہزاد ولد فضل ربی، احمد کمال ولد کمال الرحمان، حیدرعلی ولد منتظم خان، کامران ولد مبارک زیب، فخرعالم ولد شاہ حسین، سید کمال ولد سید بلال، عبدالماجد ولد بدرالزماں، صدیق ولد میرافضل، نعمت اللہ ولد دخترخان، محمد الیاس ولد غلام امین، ساجد ولد زمین شاہ، سجاد ولد صالح محمد شامل ہیں۔ جب کہ شہید ہونے والوں میں ایک ڈرائیور رحمان اللہ ولد بہادر اور 2 نامعلوم افراد بھی شامل ہیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق چارسدہ یونی ورسٹی میں حملے کے بعد پاک فوج کے دستوں نے پہنچ کر پوزیشنیں سنبھالی اور بلند عمارت سے اسنائپرز نے چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کردیا جب کہ آپریشن کی فضائی نگرانی بھی کی گئی جس کے بعد یونیورسٹی کے تمام بلاکس میں کلئیرنس آپریشن شروع کردیا گیا ۔

چارسدہ یونی ورسٹی میں حملے کے بعد شہرکے دیگرتعلیمی ادارے بھی بند کردیئے گئے جب کہ مردان کی عبدالولی خان یونی ورسٹی کو بھی بند کردیا گیا۔ باچا خان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈآکٹرفضل الرحیم نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہا کہ 3 ہزارکے قریب طالب علم اور 600 مہمان یونیورسٹی میں موجود تھے جب کہ فائرنگ باہرسے کی جارہی تھی اور مسلح افراد دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔

ڈی آئی جی آپریشنز چارسدہ سعید وزیرکا کہنا ہے کہ حملہ آوردو ٹولیوں کی شکل میں یونیورسٹی میں داخل ہوئے، ایک ٹولی نے یونیورسٹی کے گیٹ پر تعینات نجی گارڈ کو گولیوں کا نشانہ بنایا جب کہ دوسری ٹولی دھند کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیوارسے چھلانگ لگا کریونیورسٹی کے اندر داخل ہوئی تاہم اطلاع ملنے پر مقامی پولیس نے بلاتاخیرپہنچ کر کسی بھی آرڈر کے بغیر یونیورسٹی کا محاصرہ کیا اور آپریشن شروع کیا جب کہ پولیس کے 2 سب انسپکٹراگرجلد کارروائی نہ کرتے تو مزید نقصان کا خدشہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے اپنے 54 نجی گارڈز سیکیورٹی پر مامور تھے جنہوں نے حملہ آوروں کے داخلے کے فوری بعد کارروائی کی جب کہ دہشت گرد اپنے ہمراہ 2 خودکش جیکٹس بھی لائے تھے جنہیں قبضے میں لے لیا گیا ہے۔

چارسدہ یونی ورسٹی کے ایک ملازم نے بتایا کہ دہشت گرد یونی ورسٹی کے پچھلے حصے سے اندرداخل ہوئے اوراس مقام کی جانب جانے کی کوشش کی جہاں طلبا کے لئے تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا تاہم دہشت گردوں کی فائرنگ کے بعد خوف و ہراس پھیل گیا اور جسے جہاں جگہ ملی وہ وہاں چھپ گیا۔

یونیورسٹی پر حملے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے کل بھر میں یوم سوگ کا اعلان کیا ہے جب کہ اس موقع پر ملک بھر کے علاوہ بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں میں بھی قومی پرچم سرنگوں رہے گا، اس کے علاوہ چاروں صوبائی حکومتوں اور وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی صوبے میں یوم سوگ کا اعلان کیا ہے جب کہ وزیراعظم آزاد کشمیر نے بھی 2 روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یارولی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق،قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ، مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، وزیراعلی پنجاب شہبازشریف، سابق وزیراعلی پنجاب پرویز الہیٰ اوردیگر سیاسی رہنماؤں نے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ٹیلی فون کرکے چارسدہ حملے سے متعلق تبادلہ خیال کیا جب کہ آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ قوم دہشتگردی کیخلاف جنگ میں حمایت کررہی ہے لہذا دہشتگردی کے خلاف جنگ پوری قوت سے جاری رہے گی۔ وزیراعظم نے یونیورسٹی علاقے کو محفوظ بنانے میں فوری ردعمل پر آرمی یونٹس کی کارکردگی کوسراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں کل یوم سوگ منایا جائے گا اور ملک بھر میں قومی پرچم کل سرنگوں رہے گا۔

وزیراعظم نوازشریف نے چارسدہ کی باچا خان یونیورسٹی پر دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان کہا کہ معصوم طلباء اورشہریوں کو قتل کرنے والے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،دہشت گردوی کے خلاف جنگ میں ہم وطنوں کی قربانیاں ضائع نہیں جانے دیں گے اورملک سے دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑ پھینکیں گے۔

ادھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد خود جامعہ پہنچے اور تمام امور کا جائزہ لیا۔ سربراہ پاک فوج کے پہنچنے پر پاک فوج کے ایک مخصوص دستے نے انہیں یونیورسٹی میں کلئیرنس آپریشن سے متعلق بریفنگ دی جب کہ جنرل راحیل شریف نے پاک فوج کی بروقت کارروائی کو سراہتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ چارسدہ یونیورسٹی کے بعد جنرل راحیل شریف زخمیوں کی عیادت کے لئے ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچے جہاں انہوں نے زخمیوں سے ملاقات کی اورانہیں یقین دلایا کہ دہشت گردوں کو ملک کے کسی حصے میں چھپنے نہیں دیں گے۔
اردن کی ملکہ رانیہ نے فرانسیسی متنازع جریدے چارلی ایبڈو کی جانب سے ڈوب کر ہلاک ہونے والے شامی پناہ گزین بچے ایلن کر دی کے بارے میں شائع کیے گئے ایک متنازع کارٹون کا کھرا کھرا جواب دیا ہے۔

چارلی ایبڈو کی جانب سے شائع کیے گئے کارٹون میں ایلن کردی کا تعلق جرمنی میں عورتوں پر جنسی حملے کرنے والے تارکینِ وطن سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

جریدے میں چھپنے والے کارٹون میں ایک شخص کو ایک عورت کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتاہے اور اس پر تحریر درج ہے کہ ’ایلن بھی بڑا ہوکر جرمنی میں جنسی حملے کرنے والوں جیسا بنتا۔‘

جریدے پر دنیا بھر سے نسل پرستی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

لیکن اردن کی ملکہ رانیہ نے اس کا جواب سماجی رابطوں کی سائٹ پر ایک کارٹون شیئر کر کے دیا ہے۔ اردن کے ایک آرٹسٹ کی جانب سے بنائے گئے اس کارٹون میں دیکھایا گیا ہے کہ ایلن بڑا ہوکر ایک ڈاکٹر بنتا ہے۔


سماجی رابطوں کی سائٹ پر پوسٹ کیے گئے اپنے پیغام میں ملکہ رانیہ نے لکھا ہے کہ ’ ایلن بڑا ہو کر ایک ڈاکٹر، استاد یا ایک محبت کرنے والا والد بھی ہوسکتا تھا۔‘

واضح رہے کہ چارلی ایبڈو کی جانب سے یہ کارٹون حال ہی میں جرمنی سے آنے والی ان خبروں کے بعد شائع کیاگیا تھا جن کے مطابق تارکینِ وطن عورتوں پر جنسی حملوں میں ملوث ہیں۔

دوسری جانب کینیڈا میں مقیم ایلن کے رشتہ داروں نے جریدے کی جانب سے اس طرح کے کارٹون کو شائع کرنے پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس ترکی کے ساحل پر لال قمیض پہنے اوندھے منہ پڑے شامی بچے کی لاش کی تصویر نے دنیا کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔
نیویارک: مالی بحران ایک بار پھرپوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کے باعث امریکی اور یورپی اسٹاک مارکیٹس میں شدید مندی کے بعد ایشیا میں بھی مندی دیکھی گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی اسٹاک مارکیٹ ڈاو جونز میں کاروبار کے آغاز سے ہی مندی کا رجحان دیکھا گیا اور مارکیٹ اپنے آغاز میں ہی 2.23 فیصد گر گئی جب کہ ناسدق کمپوزٹ انڈیکس 2.4 فیصد تک نیچے آگئی، اس کے علاوہ جاپان کی شنگھائی اسٹاک مارکیٹ بھی مندی دیکھنے میں آئی اور مارکیٹ دن کے آغاز میں ہی 3.6 فیصد گرگئی۔

یورپ کی اسٹاک مارکیٹس میں بھی کاروبار میں مندی دیکھی گئی جس کے باعث جرمنی کی فرینکفرٹ اسٹاک مارکیٹس 3 فیصد اور میلان اسٹاک مارکیٹ 3.1 فیصد گر گئی جب کہ دیگر یورپی ممالک کی اسٹاک مارکیٹس میں بھی مندی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ سب سے زیادہ کمی ماسکو اسٹاک مارکیٹ میں دیکھی گئی جہاں اسٹاک مارکیٹ 5 فیصد تک نیچے آگئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی اسٹاک مارکیٹس میں مندی کی بڑی وجہ تیل کی قیتموں میں مسلسل کمی ہے جو 12 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں جب کہ کچھ ماہرین تیل کے ساتھ ساتھ چینی ایکویٹی میں بڑے پیمانے پر کمی کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
کیرالہ: ہندو انتہا پسند تنظیم شیوسینا ایک بار پھر اپنی حرکتوں سے باز نہ آئی اور روایتی پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیجنڈ غزل گلوکاراستاد غلام علی کے کنسرٹ کے دوران احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو واپس بھیجنے کا مطالبہ کردیا۔

بھارتی انتہا پسند تنظیم شیوسینا کی پاکستان سے روایتی دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ممبئی میں پاکستانی غزل گائیک استاد غلام علی کو دھمکیوں کے بعد کنسرٹ منسوخ کرنا پڑا تھا تاہم اب شیوسینا نے بھارتی ریاست کیرالہ میں استاد غلام علی کے کنسرٹ کو بھی الٹنے کی کوشش کی ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا نے بھارتی ریاست کیرالہ میں روایتی پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیجنڈ غزل گلوکاراستاد غلام علی کے کنسرٹ کے دوران احتجاجی مظاہرہ کیا جس کے باعث میوزک پروگرام کو کچھ دیر کے لیے روکنا پڑا جب کہ مظاہرین نے استاد غلام علی کا کنسرٹ فوری ختم کرنے اور انہیں پاکستان واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا تاہم پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کراحتجاج کرنے والے متعدد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔

واضح رہے کہ ہندو انتہا پسند تنظیم شیو سینا کی جانب سے معروف پاکستانی غزل گائیک استاد غلام علی کو دھمکیاں دیئے جانے کے بعد 9 اکتوبر کو ممبئی میں ہونے والے کنسرٹ منسوخ کردیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے وزیر اعلی نئی دلی کی دعوت پر بھارت میں کنسرٹ کرنے کا فیصلہ کیاتھا۔
آکلینڈ: تین ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان نے نیوزی لینڈ کو دلچسپ مقابلے کے بعد 16 رنز سے شکست دے دی۔

آکلینڈ کے ایڈن پارک میں کھیلے گئے میچ میں شاہینوں نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کیویز کو جیت کے لئے 172 رنز کا ہدف دیا لیکن نیوزی لینڈ کی پوری ٹیم 20 ویں اوور میں 155 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی اور اس طرح پہلے میچ میں اعصاب شکن مقابلے کے بعد کیویز کو 16 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے کپتان کین ولیمسن سب سے زیادہ 70 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جب کہ کولن منرو نے بھی 56 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی، دونوں کھلاڑیوں کو وہاب ریاض نے پویلین کی راہ دکھائی۔ کین ولیمسن اور کولن منرو کے علاوہ صرف ایک کیوی کھلاڑی میٹ ہنری ہی ڈبل فیگر میں داخل ہو سکے اور انھوں نے 10 رنز اسکور کئے۔ پاکستان کی جانب سے وہاب ریاض نے 3، شاہد آفریدی اور عمر گل نے 2، 2 جب کہ عماد وسیم اور ساڑھے 5 برس بعد انٹر نیشنل کرکٹ میں واپس آنے والے فاسٹ بولر محمد عامر نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔

ساڑھے 5 سال بعد قومی ٹیم میں واپسی کرنے والے فاسٹ بولرمحمد عامرنے وائڈ بال کروا کر اپنی واپسی کی جب کہ عمر گل نے بھی کئی سال آرام کے بعد کم بیک کیا۔ محمد عامرنے اپنی صلاحتیوں کا لوہا ایک بار پھرمنوایا اور جارحانہ بولنگ کی بدولت کیویز بلے بازوں کو پریشان کرتے رہے جب کہ ایک موقع پرمحمد عامر کی گیند پر کین ولیمسن نے ہوا میں گیند کو اچھالا اور گیند کپتان شاہد آفریدی کے ہاتھوں میں پہنچی لیکن وہ کیچ پکڑنے میں ناکام رہے۔

اس سے قبل قومی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اوپننگ بلے بازمحمد حفیظ کی نصف سنچری کی بدولت مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر171 رنز بنائے۔ احمد شہزاد اورمحمد حفیظ نے اننگز کا آغاز کیا اورمحمد حفیظ نے پہلے سامنا کرتے ہوئے میٹ ہینری کے اوورمیں کوئی رنز نہ بنایا، دوسرے اوورمیں بھی دونوں کھلاڑی دباؤ کا شکار دکھائی دیئے لیکن دوسرے اوور کی پانچویں گیند پرچوکا لگا کر احمد شہزاد نے دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ میچ کے پانچویں اوور میں احمد شہزاد نے شاندار چھکا لگایا اوراگلی ہی گیند پر کیچ دے کر پویلین لوٹ گئے۔ احمد شہزاد نے 26 رنز کی اننگز کھیلی جس کے بعد چھٹے اوور میں محمد حفیظ نے کوری اینڈریسن کی خوب پٹائی کی اور ایک چھکا اور 3 چوکے لگا کر رن اوسط بہتر کردی۔ نئے آنے والے بلے بازصہیب مقصود بغیر کوئی رنز بنائے وکٹ کیپر کے ہاتھوں اسٹمپ آؤٹ ہوئے۔

تیسری وکٹ پر محمد حفیظ اور شعیب ملک نے محتاط انداز سے کھیلتے ہوئے گراؤنڈ کے چاروں اطراف دلچسپ اسٹروکس لگائے اور قومی ٹیم کا مجموعی اسکور 78 رنز تک پہنچا تو شعیب ملک نے چھکا لگانے کے لئے ہوا میں گیند کو اچھالا لیکن بونڈری لائن کے قریب کیچ آؤٹ ہوگئے اور وہ 20 رنز بناسکے۔ قومی ٹیم کا اسکور 110 تک پہنچا تو محمد حفیظ 2 چھکوں اور 8 چوکوں کی مدد سے 61 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جب کہ شاہد آفریدی نے کریز پرآتے ہی میٹ ہینری کے اوور میں 2 چھکے اور 2 چوکوں سے خوب تواضع کی۔ بوم بوم آفریدی کی دھواں دھار بیٹنگ سے گراؤنڈ میں موجود شائقین جھوم اٹھے، انہوں نے 8 گیندوں پر23 رنز بنائے۔ عمر اکمل نے بھی کیویز بلے بازوں کی پٹائی کی اور 24 رنز بنانے میں کامیاب ہوئے جب کہ عماد وسیم 18 اور سرفراز احمد 2 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ نیوزی لینڈ کی جانب سے ایڈم ملنے نے 4، مچل سینٹنر نے 2، ٹرینٹ بولڈ اور میٹ ہینری نے ایک ایک وکٹ حاصل کی۔ شاندار آل راؤنڈر کارکردگی پر شاہد آفریدی کو میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت صوبائی حکومتوں کے مشاورتی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ صوبوں کی مشاورت سے راہداری منصوبے کا مغربی روٹ جولائی 2018 تک مکمل کرلیا جائے گا۔ 

وزیراعظم کی زیر صدارت سیاسی قائدین کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل مغربی روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے گا اور2018 کے وسط تک اس کی تکمیل کو ممکن بنایا جائے گا اورضرورت پڑنے پراس روٹ کے لئے فنڈزمیں 40 ارب روپے کااضافہ بھی کیا جائے گا۔ اجلاس کے دوران وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویزخٹک ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت صوبے کی دیگر جماعتوں کے نمائندوں نے شکوہ کیا کہ منصوبے سے متعلق وزیراعظم نے گزشتہ برس مغربی روٹ پہلے بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن رواں مالی سال کے بجٹ میں صرف مشرقی روٹ کے لیے رقم مختص کی گئی جس پر وزیراعظم نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ باہمی مشاورت کے ساتھ ہی منصوبے کو مکمل کیا جائے گا جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں نے اقتصادی راہداری منصوبے کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔

سیاسی قائدین کے اجلاس کے اعلامیئے کے مطابق اقتصادی راہداری منصوبے کا مغربی روٹ 4 رویہ ایکسپریس وے پرمشتمل ہوگا اورموٹروے کے حصول کے لئے زمین کی ذمہ داری خیبرپختونخواہ حکومت کی ہوگی، مغربی روٹ پرپہلے مرحلے میں 4 لین بنائی جائے گی اوربعد میں وفاقی حکومت کی جانب سے زمین کی خریداری کے بعد اسے 6 رویہ بنا دیا جائے جب کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اقتصادی اورصنعتی زون کے قیام پرصوبوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے مختصربیان میں کہا گیا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے پر جاری ترقیاتی کام کا جائزہ لینے کے لئے وزیراعظم کی صدارت میں اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں اور یہ کمیٹی ہر3 ماہ بعد منصوبے پرہونے والی پیش رفت کا جائزہ لے گی جب کہ صوبوں کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لئے وزارت منصوبہ بندی میں سیل کے قیام کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ انٹرپرینیورشپ کے موضوع پر مضامین کے سلسلے کے بعد کئی افراد کی طرف سے یہ رائے آئی کہ ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن معلومات کی کمی کی وجہ سے فیصلہ سازی میں شدید مشکلات ہیں۔ اس لیے اس بارے میں مزید کچھ تحریر کریں، جبکہ کچھ خواتین و حضرات کوئی پارٹ ٹائم ‘وائٹ کالر’ کاروبار کرنا چاہتے ہیں، لیکن سمجھ نہیں آتی کیا کریں۔
سوچ بچار کے بعد میں نےفیصلہ کیا ہے کہ آئی ٹی سے وابستہ وہ کریئر جو کم وقت اور کم سرمایہ سے شروع ہوں، ان کی معلومات اکٹھی کر کے پیش کی جائیں۔ اس سلسلے میں پہلے مضمون کے لیے میں نے ویب سائٹ کے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ میرے خیال میں یہ مضمون ایسے تمام دوستوں کے لیے مفید ثابت ہوگا:
  • جو پہلے ہی سے اس بزنس سے وابستہ ہیں، اور ان معلومات سے ان کے کام میں بہتری آسکتی ہے.
  • وہ نوجوان جو انٹرپرینیورشپ شروع کرنا چاہتے ہیں.
  • ایسے خواتین و حضرات جو اپنے فارغ وقت کو استعمال کر کے کمانا چاہتے ہیں۔
  • وہ بے روزگار افراد جو نوکری کے لیے کسی ہنر کی تلاش میں ہیں.

ویب سائٹ ڈیزائننگ کہاں سے سیکھیں؟

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کم از کم میٹرک تعلیم درکار ہوتی ہے۔ یہ خواتین و حضرات دونوں کرسکتے ہیں۔ اس کا بنیادی کورس تین ماہ کا ہوتا ہے، جس کے بعد مزید چار سے چھ ماہ کے مختلف اعلیٰ کورسز بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے کم از کم ایف اے کی تعلیم درکار ہوتی ہے۔
ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھنے کے لیے پاکستان میں دونوں طریقے موجود ہیں، یعنی رسمی اور غیر رسمی طریقہ تعلیم۔ آپ اپنی پسند کے کسی بھی طریقے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی تعلیم کے رسمی طریقے

پاکستان بھر میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اور نجی ادارے اس کی بنیادی اور اعلیٰ تعلیم دے رہے ہیں، جن کی فیس پانچ ہزار سے بیس ہزار تک ہے، جبکہ صوبہ پنجاب میں ’’یو کے ایڈ‘‘ کے تعاون سے مختلف ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں مستحق افراد کو نہ صرف مفت تربیت بلکہ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ہر صوبے میں فنی تعلیم کے لیے قائم ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی ( ٹیوٹا) کے سرکاری ادارے قائم ہیں۔ جہاں اس کی سستی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اکثر بڑی یونیورسٹیاں بھی چھٹیوں میں اس کے شارٹ کورسز کرواتی ہیں۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ کی تعلیم کے غیر رسمی طریقے

اگر آپ کسی وجہ سے (مثلاً عمر زیادہ ہے، خاتون خانہ ہیں، جاب کرتے ہیں، یا طالب علم ہیں) اور کسی تعلیمی ادارے میں جا کر باقاعدہ کلاسز نہیں لے سکتے، تو بھی کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ ویب سائٹ ڈیزائننگ کی مہارت غیر رسمی طریقوں سے حاصل کرسکتے ہیں۔ مارکیٹ میں اردو اور انگریزی زبان میں بہت سی کتابیں، اور ویڈیو سی ڈیز اس موضوع پر دستیاب ہیں، جبکہ آن لائن یوٹیوب سمیت بے شمار ویب سائٹ پر اس سلسلے میں ویڈیو لیکچرز دستیاب ہیں۔
آن لائن ویڈیو کورسزکے لیے ایک بڑی مشہور ویب سائٹ lynda ہے جو 1995 سے کام کر رہی ہے اور lynda نامی ایک امریکی خاتون نے قائم کر رکھی ہے۔ اس کی کچھ ممبر شپ فیس ہے لیکن اس کے ویڈیو کورسز بہت معیاری ہیں۔ میں نے خود "کورل ڈرا" کا کورس lynda سے صرف تین دن میں مکمل کیا تھا جس کی بدولت مجھے نہ صرف مالی بچت ہوئی بلکہ وقت اور توانائی سمیت اضافی زحمت سے بھی نجات ملی۔

ویب سائٹ ڈیزائننگ سیکھ لی، اب کیا کریں؟

وہ افراد جو ابھی کاروبار کرنے کی پوزیشن میں نہیں، ان کو یہ ہنر سیکھنے کے بعد نوکری ملنے کے امکانات زیادہ ہوجائیں گے۔ مارکیٹ میں چھوٹی اور درمیانے درجہ کی آرگنائزیشنز، اخبارات، میڈیا ہاؤسز، مالیاتی ادارے، امپورٹ/ ایکسپورٹ، ای کامرس سے وابستہ اداروں، سوفٹ ویئر ہاؤسز، این جی اوز وغیرہ میں ایسے افراد کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور ہنرمند افراد کو زیادہ جلدی وائٹ کالر جاب مل جاتی ہے۔
آج کل مارکیٹ میں ایف اے پاس افراد جن کو ویب ڈیزائننگ خاص طور پر پی ایچ پی (PHP) میں ایک سالہ تجربہ ہو، 25 ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر جاب مل جاتی ہے ۔ جب کہ بی اے، ایم اے اور ایک سالہ کام کے تجربہ کار افراد کو صرف 15 سے 20 ہزار سے تک کی جاب مل رہی ہے۔
دیگر وہ افراد جو فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کوئی بزنس کرنا چاہتے ہیں، وہ ہنر کو بزنس کے لیے بطور اوزار استعمال کر کے جلدی ترقی کرسکتے ہیں خاص طور پر اگر آپ کے پاس بزنس شروع کرنے کے لیے بنیادی سرمائے کی کمی ہے۔ اس کے دو بزنس ماڈل ہیں۔ آپ اپنے حالات کے مطابق کسی ایک بزنس ماڈل کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

فری لانسنگ یا پراجیکٹ کی بنیاد پر

اس بزنس ماڈل میں آپ اپنے گاہک کی ضرورت کے مطابق اس کی ویب سائٹ ڈیزائننگ کرتے ہیں اور طے شدہ معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ اس کام کو آپ گھر میں بیٹھ کر یا چھوٹے آفس یا شیئر آفس کی صورت میں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے کام کرنے والوں کو فری لانسرز بھی کہتے ہیں۔ لوکل مارکیٹ میں اس وقت چھوٹی ویب سائٹ کی تیاری، جس میں تقریباً دو دن سے کم وقت صرف ہوتے ہیں، پر معاوضہ 6 سے 7 ہزار روپے آسانی سے مل جاتے ہیں جبکہ بڑی یا میڈیم سائز ویب سائٹ کی صورت میں یہ معاوضہ ہزاروں روپے تک ہوتا ہے۔

بیرون ملک سے کام حاصل کرنا

اگر آپ کو انگریزی زبان میں مہارت ہے تو آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر بیرون ملک سے بھی کام حاصل کرسکتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر، خاص طور پر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین و حضرات اپنے گھر میں بیٹھ کر دنیا بھر سے کام حاصل کر رہے ہیں اورحقیقت میں ماہانہ ہزاروں ڈالرز کما رہے ہیں۔
دونوں افراد (کام دینے والے اور کام کرنے والے) میں رابطے کے لیے کافی ساری ویب سائٹس قائم ہیں۔ یہ ویب سائٹ (دونوں افراد سے) کام مکمل کرنے کے بعد بل میں سے اپنا کمیشن وصول کرتی ہیں لیکن ان کی سروس اتنی شاندار ہے کہ ان کا کمیشن ادا کرتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔ ای لانس، او ڈیسک، گرو،فری لانسر، 99 ڈیزائنز، اور مائیکرو ورکرز اس طرح کی مشہور ویب سائٹس ہیں۔

اپنی مصنوعات/خدمات کی فروخت

اس بزنس ماڈل میں آپ اپنی ذاتی ویب سائٹ تیار کرتے ہیں اور خود اپنی کوئی مصنوعات یا خدمات آن لائن فروخت کے لیے پیش کرتے ہیں۔ یہ چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جیسے موبائل، کتابیں، کپڑے، وغیرہ اور خدمات بھی جیسے سوفٹ ویئر، آرٹ ورک، لوگو ڈیزائن وغیرہ۔
اس کے علاوہ آپ اپنی ویب سائٹس سے عوام الناس یا مارکیٹ کے کسی خاص طبقے کے درمیان رابطے کا کام کرنے کی خدمات پیش کرسکتے ہیں جس کی مثالیں جاب/شادی کی ویب سائٹ، جائیداد/گاڑیوں کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ، زمین ڈاٹ کام، روزی پی کے، پاک ویلز ڈاٹ کام ہیں۔ اس بزنس ماڈل میں آمدنی کے ذرائع، ممبر شپ/رجسٹریشن فیس اور اشتہارات ہیں۔ اس طرح کے کام کرنے والے افراد کو ’ویب انٹرپرینیور‘ کہتے ہیں۔

بس ہمت کریں

دوسرے شعبہ جات کے طرح اس شعبے کے مزید بہت سے فوائد ہیں اور اسی طرح اس میں کچھ نہ کچھ مشکلات بھی ضرور ہوں گی، جن سب کو یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن مشکلات در اصل ایک موقع بھی تو پیدا کرتی ہیں۔ اگر کچھ دن غور و فکر کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آپ نے اس فیلڈ میں قدم رکھنا ہے تو پھر دیر مت کریں اور ہمت کریں، تمام مشکلات آہستہ آہستہ خود ہی دور ہوجائیں گی اور کچھ ہی سالوں کے بعد آپ ایک بہتر، خوشحال اور باوقار زندگی بسر کر رہے ہوں گے
بشکریہ ڈان نیوز 
سب جانتے ہیں کہ برف سارے کرہ ارض پر نہیں گرتی کیونکہ قدرت نے کچھ ملکوں کے درجہ حرات کا خیال رکھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری زمین پر بسنے والی آدھی آبادی اپنی زندگی میں برف نہیں دیکھ پاتی۔

وہ یا تو تصویروں میں برف دیکھتی ہے یا فلموں میں یا خاص طور دیکھنے کے لیے ان ملکوں یا مقامات پر جاتی ہے جہاں برف پڑتی ہے۔

برف کی شکل بھی قدرت کا ایک اچنبھا ہے۔

دنیا بھر میں پڑنے والی برف کی ایک بھی گالا دوسرے گالا سے مماثل نہیں ہوتا۔

برف کے گالے کا وزن ایک ملی گرام ہوتا ہے، بہت بڑے گالے کا ڈھائی ملی گرام۔ مگر یہ اربوں برف کے گالے جن میں سے ہر ایک عملی طور پر بے وزن ہوتا ہے تاحتٰی زمین کی گردش کی رفتار پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔


عام طور پر موسم سرما میں شمالی نصف کرہ ارض کی زمین 13500 ارب ٹن برف سے ڈھک جاتی ہے۔ سفید چمکدار برف زمین کو سورج کی تپش سے محروم کرنے کے قابل ہوتی ہے کیونکہ وہ سورج کی تقریبا" نوے فیصد حدت کو خلا میں لوٹا دیتی ہے۔

برف سفید کیوں ہوتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ برف کے گالے بھاپ سے بنتے ہیں۔ ان میں 95% ہوا ہوتی ہے ، عین ممکن ہے کہ روشنی کی کرنیں ان کے کناروں سے منعکس ہو کر چمکتی ہو۔ مگر برف ہمیشہ سفید نہیں ہوتی۔

©تاریخ میں ایسے بھی واقعات ہوئے کہ کسی اور رنگ کی برف پڑی۔ مثال کے طور پر 1969 میں سوئٹزرلینڈ میں گرنے والی برف سیاہ رنگ کی تھی اور وہ بھی کرسمس کے روز۔ 1955 میں کیلیفورنیا میں گرنے والی برف کا رنگ سبز تھا۔

انٹارکٹک اور بلند پہاڑوں پر گلابی، بنفشی، سرخ اور زرد رنگ کی برف بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسا برف میں پلنے والے جرثوموں کی وجہ سے ہوتا ہے جو "کلیمیڈوموناس نیوالیس" کہلاتے ہیں۔

جب برف کے گالے پانی میں گرتے ہیں تو ایک بہت ہی مہین آواز پیدا کرتے ہیں جو انسانوں کو سنائی نہیں دیتی مگر سائنسدانوں کے مطابق یہ اواز مچھلیوں کو بالکل اچھی نہیں لگتی۔
ممبئی: ہندوستان کے صنعتی حب ممبئی میں پہلی بار خواتین کو رکشہ چلانے کی اجازت دے دی گئی ۔

ممبئی شہر میں ایک لاٹری کے ذریعے سینکڑوں خواتین کو رکشہ چلانے کے پرمٹ جاری کیے گئے۔

اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ آفیسر راجندرا ناولے نے بتایا کہ ممبئی میں 467 خواتین کو پرمٹ جاری کیے گئے جبکہ رواں ہفتے ریاست مہاراشٹر کی مزید 100 خواتین کو رکشہ چلانے کا پرمٹ دیے جائیں گے جو دو ماہ تک تین پہیوں کی یہ سواری چلاسکیں گیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف خواتین کی حوصلہ افزائی کرے گا بلکہ ان کےلیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گا 'بیرون ممالک خواتین ٹیکسی بھی چلاتی ہیں، ہم یہاں بھی خواتین کو پراعتماد اور کماتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ رکشے گلابی رنگ کے ہونگے تاکہ دوسرے ہزاروں رکشوں سے مختلف نظر آسکیں جنہیں مرد چلاتے ہیں۔ خواتین ڈرائیورز والے رکشوں میں خواتین مسافروں کو ترجیح دی جائے گی۔

ایک تحقیق کے مطابق سفر کے محفوظ ذرائع سے خواتین کی معیشت میں بہتری آتی ہے۔

واضح رہے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کی وجہ سے ممبئی میں خواتین مسافروں کے لیے مخصوص کوچز اور ٹرینیں عام ہیں۔

ہندوستان میں خواتین کے لیے سیکیورٹی خدشات بہت زیادہ ہیں، 2012 میں ایک لڑکی کو گیینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس پر ملک بھر میں عوام نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ہندوستان میں عصمت دری کے خلاف قوانین مزید سخت کر دیئے گئے تھے۔

2014 میں دہلی کو خواتین مسافروں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
انڈونیشیا کے ایک جزیرے پر سائنسدانوں کو پتھر کے دور کے ایسے اوزار ملے ہیں جو کم از کم 118,000 برس پرانے ہیں۔ تاہم ان سائنسدانوں کو اس دور کے انسانوں کا کوئی سراغ نہیں ملا جنہوں نے ممکنہ طور پر یہ اوزار بنائے ہوں گے۔


یہ بات ایک نئی تحقیق میں بتائی گئی ہے جس کے نتائج تحقیقی جریدے ’نیچر‘ میں بدھ 13 جنوری کو شائع ہوئے۔ اس تحقیق کے مطابق یہ پیشرفت ممکنہ طور پر براعظم آسٹریلیا پہنچنے والے ابتدائی انسانوں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سولاویسی میں چار مختلف مقامات پر کی جانے والی کھدائی کے دوران ملنے والے سینکڑوں اوزاروں اور دیگر اشیاء کا یہ ذخیرہ ممکنہ طور پر جزائر کے اس سلسلے تک پہنچنے والے اور پھر ناپید ہو جانے والے انسانوں کی ایسی نسلوں کے بارے میں دوبارہ بحث کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے، جن کے بارے میں ابھی تک معلومات موجود نہیں ہیں۔

2003ء میں ایک قریبی جزیرے فلوریس سے ’ہومینِن‘ کی فوصل شدہ باقیات ملی تھیں۔ ہومینِن کی اصطلاح دراصل ابتدائی دور اور موجودہ دور کے انسانوں یا کے گروپ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اسی ہومینِن کو ’ہوبِٹ‘ کا نام دیا گیا تھا۔

آسٹریلیا کی وولونگونگ یونیورسٹی سے منسلک محقق اور اس تحقیقی رپورٹ کے مصنف گیرِٹ فان ڈین بیرغ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئی دریافت سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’فلوریس وہ اکلوتا جزیرہ نہیں تھا جہاں موجودہ یا ماڈرن انسان سے قبل کے یا ’آرکائک‘ انسان آباد رہے ہیں۔‘‘

سولاویسی سے ملنے والے اوزاروں کے بارے میں فی الحال سائنسدان یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آیا یہ جاوا کے قریب 1.5 ملین برس قبل پائے جانے والے انسانوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا نہیں۔ تاہم فان ڈین بیرغ کے مطابق نئی دریافت سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ابتدائی دور کے انسان آسٹریلیا تک پہنچ گئے تھے۔

اس تحقیق کے مطابق ایک بات یقینی ہے کہ سولاویسی سے ملنے والے یہ اوزار ہومو سیپیئنز کی طرف سے نہیں بنائے گئے تھے۔ فان ڈین بیرغ کے مطابق یہ اوزار ہوموسیپیئنز کے دور سے کہیں زیادہ پرانے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق نئے دریافت ہونے والے تیز دھار ہتھیار لائم اسٹون یا چونے کے پتھر کو تراش کر تیار کیے گئے تھے۔ ان میں یک طرفہ اور دو طرفہ تیز دھار رکھنے والے ہتھیار بھی شامل ہیں۔
آکلینڈ: پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان 3 ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کا پہلا میچ کل کھیلا جائے گا۔

آکلینڈ کے ایڈن پارک میں کھیلا جانے والا میچ پاکستانی وقت کے مطابق صبح 11 بجے شروع ہوگا، دورہ نیوزی لینڈ میں پاکستان کا زیادہ ترانحصاراپنے فاسٹ اٹیک پر ہی ہے، ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ محمد عامر کی واپسی سے اٹیک مزید مہلک ہوچکا، اس کے سامنے ان فارم کیویز بیٹسمینوں کی ایک نہیں چل پائے گی۔ ٹیم میں یارکر اور ریورس سوئنگ میں ماہر وہاب ریاض بھی موجود ہیں جب کہ عمرگل، انور علی اور عامر یامین کی خدمات بھی میسر ہیں۔ بیٹنگ کے شعبے میں احمد شہزاد، محمد حفیظ، سرفرازاحمد اورکپتان شاہد آفریدی اہم ہتھیار ہوں گے۔

پاکستانی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ میں شاہد آفریدی، احمد شہزاد، افتخار احمد، محمد عامر، محمد رضوان، سرفراز احمد، صہیب مقصود، عمر گل، عامریامین، انور علی، عماد وسیم، محمد حفیظ، سعد نسیم، شعیب ملک، عمر اکمل اور وہاب ریاض پر مشتمل ہے۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے کین ولیمسن کیویز کی قیادت کریں گے جب کہ اسکواڈ میں ٹوڈ اسٹل، گرینٹ ایلیٹ، میٹ ہینری، مچل میکلنگن، کولن مونرو، مچل سینٹنر، کوری اینڈریسن، ٹرینٹ بولڈ، مارٹن گپٹل، ٹام لیتھم، ایڈم ملنے، لیوک رونچی اور روس ٹیلر شامل ہیں۔
حکام نے کہا ہے کہ امریکہ میں ایک ارب 60 کروڑ ڈالر کی لاٹری کے تین فاتح ٹکٹ سامنے آئے ہیں۔

’پاور بال‘ جیک پاٹ جیتنے والے ٹکٹ کیلیفورنیا، ٹینسی اور فلوریڈا کی ریاستوں میں فروخت کیے گئے تھے۔

اس تازہ ترین لاٹری سے پہلے گذشتہ 19 ڈراز منعقد کیے گئے تھے جن میں کوئی بھی ٹکٹ نہیں جیت پایا تھا۔

جیک پاٹ جیتنے کے لیے ڈرا جیتنے والے تمام چھ نمبر ملنے چاہییں۔

حکام کا کہنا ہے کہ دیگر فاتح ٹکٹوں کی معلومات حاصل کرنے کے لیے ابھی کچھ گھنٹے لگیں گے۔

جیک پاٹ جیتنے والوں کے نام اب تک سامنے نہیں آئے۔ بدھ کو ہزاروں لوگوں نے ملک بھر میں دکانوں کے باہر لاٹری جینتے کی امید میں لمبی قطاریں بنا لیں۔ تاہم کسی ایک شخص کے لیے اسے جیتنے کا امکان 29 کروڑ 22 لاکھ میں سے ایک ہے۔

’کیلیفورنیا لاٹری‘ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ریاست میں جیتنے والا ٹکٹ ’چینو ہلز‘ کے علاقے میں ایک سیون ایلیون سٹور میں فروخت کیا گیا تھا۔

لاٹری کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد کئی لوگ خوشیاں مناتے ہوئے اُس دکان کے باہر جمع ہو گئے، جہاں سے جیتنے والا ٹکٹ فروخت کیا گیا تھا۔

لاٹری کے فاتحین ایک ارب 58 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی رقم میں شراکت داری کریں گے۔

وہ اپنے پیسے یا تو 29 سالوں کے لیے سالانہ طور پر قسطوں میں وصول کر سکتے ہیں یا پھر 93 کروڑ دس لاکھ ڈالر کی رقم ایک ہی قسط میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

البتہ اس رقم پر 39.6 فیصد وفاقی انکم ٹیکس لاگو کر کے امریکی حکومت بھی اس رقم میں شراکت دار بن جائے گی۔

50 امریکی ریاستوں میں سے چھ اس لاٹری میں حصہ نہیں لیتیں جس کی وجہ سے کچھ رہائشی ٹکٹ خریدنے کے لیے گاڑی پر گھنٹوں کا سفر طے کرتے ہیں۔

الباما، مسی سپی اور یوٹا کی ریاستیں اس لاٹری میں مذہبی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے حصہ نہیں لیتیں، جبکہ الاسکا کا کہنا ہے کہ وہ بھی اس لیے لاٹری میں حصہ نہیں لیتی کیونکہ اتنی کم آبادی والی ریاست میں اس قسم کی لاٹری اقتصادی طور پر فائدہ مند نہیں ہو گی۔
no image
Russian doctor kills patient with one punch

Russian doctor kills patient with one punch روسی ڈاکٹر قاتل بن گیا، ایک ہی مکہ مار کر اپنے مریض کی جان لے لی #RussianDoctor #RussianDoctorKillsPatient #Russia #Doctor

Posted by Muhammad Farooq on Sunday, January 10, 2016
ماروتی چل: بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک گاؤں میں پہلے کبھی بڑی تعداد میں شراب نوشی کا راج تھا اور اب وہاں لوگوں فارغ اوقات میں شطرنج کھیلنا پسند کرتے ہیں یا شطرنج کی بساط پرنئی چالوں کے بارے میں بات کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ سوتے وقت بھی شطرنج کی بات ہی کرتے ہیں۔

1960 سے 1970 کی دہائی سے یہ گاؤں شراب نوشی کے حوالے سے مشہور ہوا اور کچھ سال قبل تک بھی یہاں کی اکثریت سستی اور کچی شراب کی عادی تھی۔ شراب نوشی کے عام ہونے سے یہاں کی سماجی اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوگئی، یہاں گھریلو زندگی برباد ہوکر رہ گئی جس کے بعد لوگوں نے پولیس اور دیگر مجاز اداروں سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ وہ شراب خانے بند کراکر تمام شراب کو قبضے میں لے۔

ابتدا میں دسویں جماعت کے طالب علم نے اس گاؤں میں شطرنج متعارف کرایا کیونکہ وہ امریکی شاطر بابی فشر سے متاثر تھا جس نے 16 برس کی عمر میں گرانڈ ماسٹر کا اعزاز جیتا تھا، اس نوجوان نے پہلے خود اس کھیل کو سیکھا اور اس کے بعد دوسروں کو مفت میں شطرنج سکھایا جس کے بعد گاؤں کا ہرفرد اس کے پاس شطرنج کھیلنے کے لیے آگیا اور یوں یہ اس گاؤں کا من پسند کھیل بن گیا۔ 40 سال میں اس گاؤں کے 600 افراد شطرنج کے بہترین کھلاڑی بن چکے ہیں اور شراب نوشی سے دور ہیں کیونکہ وہ شطرنج کو ہی سب سے بڑا نشہ سمجھتے ہیں۔
بھارتی پولیس نے سونے کی ایک چین نگل لینے والے ایک مبینہ چور سے مسروقہ سامان برآمد کرنے کا طریقہ یہ نکالا کہ ملزم کو زبردستی چالیس سے زائد کیلے کھلائے گئے، جس کے بعد پولیس ملزم سے ’سامان کی برآمدگی‘ میں کامیاب رہی۔

ممبئی سے پیر گیارہ جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ گزشتہ ہفتے پیش آیا اور ملزم اس بات سے انکاری تھا کہ اس نے ممبئی شہر کی ایک سڑک پر ایک خاتون سے سونے کی ایک چین چھینی تھی۔ یہی نہیں پولیس کے مطابق ملزم اس بات سے بھی انکاری تھا کہ وہ اس جرم کا مرتکب ہوا تھا۔

لیکن پولیس نے جب ملزم کا ایکسرے کروایا تو طبی شواہد ملزم کے دعووں کے برعکس نکلے۔ اس پر پولیس نے اپنی تفتیش اور اس کے نتائج کو ثابت کرنے کے لیے ملزم پر کوئی تشدد کرنے کی بجائے فیصلہ یہ کیا کہ اسے زبردستی بہت سے کیلے کھلائے جائیں۔

پولیس کے ملزم کو کیلے کھلانے کے فیصلے سے قبل یہ طریقہ بھی ناکام رہا تھا کہ ملزم کو کوئی ایسی دوائی پلا دی جائے، جس کے نتیجے میں اسے رفع حاجت کی ضرورت پڑے اور سونے کی چوری شدی چین ’برآمد‘ کرا لی جائے۔

اے ایف پی نے مغربی بھارت کے شہر ممبئی کی پولیس کے سینیئر اہلکار شنکر دھنواڑے کے بیان کو حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈاکٹروں نے پولیس کو مشورہ دیا تھا کہ ملزم کے پیٹ سے سونے کی چوری شدہ چین برآمد کرنے کے لیے اس کا آپریشن کر دیا جائے۔

تاہم پولیس کے تفتیشی ماہرین نے اس امکان کو رد کرتے ہوئے ایک دوسرا حل نکالا اور ملزم کو ایک پورا دن زبردستی اتنے کیلے کھلائے گئے کہ ان کی تعداد چالیس سے بھی زیادہ رہی۔

پولیس انسپکٹر دھنواڑے کے مطابق یہ طریقہ کارگر رہا اور سونے کی چوری شدہ چین ’برآمد‘ کر لی گئی۔ اس پولیس افسر نے طریقہ کار کی زیادہ تفصیلات بتائے بغیر محض اتنا کہا، ’’ہمیں صرف اس چین کو دھو کر disinfect کرنا پڑا۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق ملزم کی عمر 25 برس ہے اور اسے جمعہ آٹھ جنوری کو ممبئی شہر میں ایک مقامی عدالت کے سامنے پیش بھی کر دیا گیا، جس کے بعد وہ اس وقت پولیس کی تحویل میں ہے۔

اس واقعے کے بعد ایک پولیس اہلکار نے کہا، ’’ملزم کا آپریشن کروانا زیادہ مہنگا ہوتا، جو خطرناک بھی ثابت ہو سکتا تھا۔ اس کے برعکس چار درجن کے قریب کیلوں پر لاگت بھی کم آئی اور نتیجہ بھی سو فیصد کامیاب نکلا۔‘‘
اسلام آباد: پاک فوج نے ایک اور اعزاز حاصل کر لیا، آرمی چیف جنرل راحیل شریف دنیا کے 10بہترین جنرلز میں سے پہلی پوزیشن پر آ گئے۔

امریکی ادارے ’’اے بی سی‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کی نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا میں ساکھ کافی کمزور ہو چکی تھی اور ملک دہشت و وحشت کے گرداب میں گھرا ہوا تھا۔ ایسے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک مسیحا بن کر آئے اور قوم کو امن و آشتی کی نوید سنائی۔ انھوں نے نہ صرف پاک فوج کی گرتی ہوئی ساکھ کو پھر سے اوجِ کمال بخشا بلکہ کچھ اس انداز میں دہشت کے سوداگروں کے مقابل صف آرا ہوئے کہ قوم کے ہیرو قرار پائے۔

دہشت گردوں کی سرکوبی اور پاکستان کی ہر آفت و مصیبت میں خدمت کے باعث آج جہاں وہ قوم کی آنکھوں کا تارہ ہیں وہیں عالمی برادری میں بھی ایک معتبر مقام پا چکے ہیں، انھوں نے ایک ایسا اعزاز اپنے نام کر لیا جس سے پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہو گئےْ

اے بی سی نیوز کے مطابق جنرل راحیل شریف کو ملک کے اندر اور باہر موجود دشمنوں سے انتہائی موثر انداز میں نمٹنے اور دہشت گردی کی جنگ میں اعلیٰ کارکردگی پر دنیا کا بہترین کمانڈر قرار دیا گیا، انھوں نے دہشت گردوں کے خاتمے میں حیران کن کامیابیاں حاصل کیں، انھوں نے افواج پاکستان کو سنگل آرڈر سے کنٹرول کیا۔

رپورٹ کے مطابق دنیا کے دس بہترین جنرلز میں سے دوسرے نمبر پر امریکا کے چیف آف آرمی سٹاف مارٹن ڈمپسی، تیسرے نمبر پر چین کے فینگ فنگ ہوئی، چوتھے نمبر پر روس کے والرے گراسیموف، پانچویں نمبر پر ترکی کے ہولوسی اکار، چھٹے نمبر پر برطانیہ کے نک ہوفٹن، ساتویں نمبر پر جنوبی کوریا کے چون یون ہی آئے، بھارتی جنرل دلبیر سنگھ 8نمبر پر دکھائی دیے، جاپان کے کاتسوتوشی کاوانو اور جرمنی کے وولکر ویکر نویں اور دسویں نمبر پر موجود رہے۔
ٹوکیو:جاپان کی حکومت نے خسارے میں چلنے والا ایک ریلوے اسٹیشن ہائی اسکول کی صرف ایک طالبہ کی خاطر مزید تین ماہ تک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جاپان کے صوبہ ہکائیدو کے دور دراز گاؤں اینگارو میں کچھ عرصہ قبل علاقے کے عوام کی ضرورت کے تحت کامی شیرا تاکی ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہاں کی آبادی کم ہوتی گئی اور اس ریلوے اسٹیشن سے مسافروں کی آمدورفت انتہائی ختم ہو کر رہ گئی یہاں تک کہ اس علاقے سے ٹرین کے ذریعے سامان کی نقل و حمل بھی صفر ہوگئی یوں یہ اسٹیشن خسارے میں چلنے لگا۔ جاپان ریلوے نے تین سال قبل یہ اسٹیشن بند کرنے کا فیصلہ کیا جس کے لئے متعلقہ انتظامی عہدیداروں کی میٹنگ طلب کی گئی۔ 

ریلوے حکام نے اس اسٹیشن کی کارکردگی رپورٹ میں اس اسٹیشن سے صرف ایک طالبہ کے مسافر ہونے کی رپوٹ پیش کی جو صبح کی ٹرین سے ہائی اسکول جاتی ہے اور شام ساڑھے سات بجے کی ٹرین سے واپس گھر آتی ہے۔ اجلاس کے تمام شرکا کے لئے یہ لمحہ فکریہ تھا کہ اسٹیشن بند کرنے سے گاؤں کی اس اکلوتی طالبہ یا ٹرین کی اکیلی مسافر کی تعلیم کا کیا ہوگا۔؟ جس پر بورڈ نے بچی کے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک اسٹیشن بحال رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جاپان ریلوے کے اس بورڈ نے اس سلسلے میں جاپان حکومت کے متعقلہ اعلیٰ عہدیداروں کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو جاپان حکومت نے بھی اس فیصلے کی توثیق کردی۔ کیا اور ٹرین کا ٹائم ٹیبل بھی اس طالبہ کے آنے جانے کے شیڈول کے مطابق کردیا۔ جسکے بعد سے اس اسٹیشن پر ٹرین اب دن میں صرف دو بار رکتی ہے۔