امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جانب سے ڈرون طیاروں کی مدد سے کیےگئے حملوں کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2015 میں پاکستان میں گذشتہ آٹھ برس کے مقابلے میں سب سے کم ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔

بیورو آف انویسٹگیٹو جرنلزم کی جمعے کو جاری ہونے والی سالانہ ڈرون رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس پاکستان کے قبائلی علاقوں میں صرف 13 ڈرون حملے ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں 60 سے 85 کے درمیان افراد مارے گئے جن میں سے عام شہریوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ پانچ تھی۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حملوں کی یہ تعداد سنہ 2014 (26 حملے) کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد کم ہے جبکہ سنہ 2010 (128 حملے) کے مقابلے میں سنہ 2015 میں دس گنا کمی دیکھی گئی ہے۔

بی آئی جے کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر اوباما کے دور میں پاکستان کو صدر بش کے دور کے مقابلے میں سات گنا زیادہ مرتبہ ڈرون طیاروں کی مدد سے نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ان حملوں کی تعداد 370 تک پہنچ گئی ہے۔

رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے میں القاعدہ کے زیرِ قبضہ ایک امریکی اور ایک اطالوی شہری کی ہلاکت بھی سی آئی اے کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملوں میں کمی کی ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔

امریکی ڈاکٹر وارن وان سٹائن اور اطالوی شہری جیوانی لو پورتو جنوری 2015 میں پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں امریکی ڈرون کے میزائل حملے میں مارے گئے تھے۔

امریکی صدر براک اوباما نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کے بعد کارروائی کی پوری ذمہ داری لیتے ہوئے اس آپریشن کے مکمل اور غیرجانبدارانہ جائزے کا اعلان کیا تھا۔

اس حملے کے علاوہ رپورٹ میں افغانستان، شام اور عراق جیسے دیگر محاذوں پر ڈرون کے استعمال میں اضافہ بھی پاکستان میں ان حملوں میں کمی کی ممکنہ وجہ قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی جاسوس طیاروں کے ذریعے شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز سنہ 2004 میں ہوا تھا جو اب بھی وقفے وقفے سے جاری ہے۔

ان حملوں کے خلاف پاکستان میں احتجاج بھی ہوتے رہے ہیں اور پاکستان سرکاری سطح پر بھی ان حملوں کی مذمت کرتا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان نے اپریل 2015 میں ہی ملکی سطح پر تیار کردہ ڈرون طیارے ’براق‘ کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔

پھر ستمبر 2015 میں یہ بتایا گیا کہ پاکستانی فوج کے اس ڈرون نے پہلی بار قبائلی علاقے شوال میں دہشت گردوں کے ایک احاطے کو نشانہ بنایا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours