ماروتی چل: بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ کے ایک گاؤں میں پہلے کبھی بڑی تعداد میں شراب نوشی کا راج تھا اور اب وہاں لوگوں فارغ اوقات میں شطرنج کھیلنا پسند کرتے ہیں یا شطرنج کی بساط پرنئی چالوں کے بارے میں بات کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ سوتے وقت بھی شطرنج کی بات ہی کرتے ہیں۔

1960 سے 1970 کی دہائی سے یہ گاؤں شراب نوشی کے حوالے سے مشہور ہوا اور کچھ سال قبل تک بھی یہاں کی اکثریت سستی اور کچی شراب کی عادی تھی۔ شراب نوشی کے عام ہونے سے یہاں کی سماجی اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوگئی، یہاں گھریلو زندگی برباد ہوکر رہ گئی جس کے بعد لوگوں نے پولیس اور دیگر مجاز اداروں سے رابطہ کرکے درخواست کی کہ وہ شراب خانے بند کراکر تمام شراب کو قبضے میں لے۔

ابتدا میں دسویں جماعت کے طالب علم نے اس گاؤں میں شطرنج متعارف کرایا کیونکہ وہ امریکی شاطر بابی فشر سے متاثر تھا جس نے 16 برس کی عمر میں گرانڈ ماسٹر کا اعزاز جیتا تھا، اس نوجوان نے پہلے خود اس کھیل کو سیکھا اور اس کے بعد دوسروں کو مفت میں شطرنج سکھایا جس کے بعد گاؤں کا ہرفرد اس کے پاس شطرنج کھیلنے کے لیے آگیا اور یوں یہ اس گاؤں کا من پسند کھیل بن گیا۔ 40 سال میں اس گاؤں کے 600 افراد شطرنج کے بہترین کھلاڑی بن چکے ہیں اور شراب نوشی سے دور ہیں کیونکہ وہ شطرنج کو ہی سب سے بڑا نشہ سمجھتے ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours