سب جانتے ہیں کہ برف سارے کرہ ارض پر نہیں گرتی کیونکہ قدرت نے کچھ ملکوں کے درجہ حرات کا خیال رکھا ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری زمین پر بسنے والی آدھی آبادی اپنی زندگی میں برف نہیں دیکھ پاتی۔

وہ یا تو تصویروں میں برف دیکھتی ہے یا فلموں میں یا خاص طور دیکھنے کے لیے ان ملکوں یا مقامات پر جاتی ہے جہاں برف پڑتی ہے۔

برف کی شکل بھی قدرت کا ایک اچنبھا ہے۔

دنیا بھر میں پڑنے والی برف کی ایک بھی گالا دوسرے گالا سے مماثل نہیں ہوتا۔

برف کے گالے کا وزن ایک ملی گرام ہوتا ہے، بہت بڑے گالے کا ڈھائی ملی گرام۔ مگر یہ اربوں برف کے گالے جن میں سے ہر ایک عملی طور پر بے وزن ہوتا ہے تاحتٰی زمین کی گردش کی رفتار پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔


عام طور پر موسم سرما میں شمالی نصف کرہ ارض کی زمین 13500 ارب ٹن برف سے ڈھک جاتی ہے۔ سفید چمکدار برف زمین کو سورج کی تپش سے محروم کرنے کے قابل ہوتی ہے کیونکہ وہ سورج کی تقریبا" نوے فیصد حدت کو خلا میں لوٹا دیتی ہے۔

برف سفید کیوں ہوتی ہے؟ وجہ یہ ہے کہ برف کے گالے بھاپ سے بنتے ہیں۔ ان میں 95% ہوا ہوتی ہے ، عین ممکن ہے کہ روشنی کی کرنیں ان کے کناروں سے منعکس ہو کر چمکتی ہو۔ مگر برف ہمیشہ سفید نہیں ہوتی۔

©تاریخ میں ایسے بھی واقعات ہوئے کہ کسی اور رنگ کی برف پڑی۔ مثال کے طور پر 1969 میں سوئٹزرلینڈ میں گرنے والی برف سیاہ رنگ کی تھی اور وہ بھی کرسمس کے روز۔ 1955 میں کیلیفورنیا میں گرنے والی برف کا رنگ سبز تھا۔

انٹارکٹک اور بلند پہاڑوں پر گلابی، بنفشی، سرخ اور زرد رنگ کی برف بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایسا برف میں پلنے والے جرثوموں کی وجہ سے ہوتا ہے جو "کلیمیڈوموناس نیوالیس" کہلاتے ہیں۔

جب برف کے گالے پانی میں گرتے ہیں تو ایک بہت ہی مہین آواز پیدا کرتے ہیں جو انسانوں کو سنائی نہیں دیتی مگر سائنسدانوں کے مطابق یہ اواز مچھلیوں کو بالکل اچھی نہیں لگتی۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours