مشرق وسطی کے تارکین وطن کا پہلا گروپ سربیا اور کروئیشیا کی سرحد پر پہنچا ہے جسے یورپی ممالک میں جانے کا نیا راستہ کہا جا رہا ہے۔

ہنگری نے جب سربیا کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کر دیا تو تارکین وطن کو لے کر کئی بسیں سیڈ شہر کی جانب روانہ ہوئیں جبکہ ہزاروں افراد جو جرمنی جانے کی کوشش میں ہیں وہ اس فیصلے سے محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔

خیال رہے کہ بہت سے تارکین وطن کی منزل جرمنی ہے جبکہ کروئیشیا نے کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کو اپنی سرحد سے اس طرح گزرنے نہیں دے گا۔

سرحدوں پر نافذ کی جانے والی نئی پابندیوں اور یورپی ممالک میں کوٹے کے تحت تارکین وطن کو پناہ دینے کے معاملے پر یورپی ممالک میں پناہ گزین کے مسئلے پر شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔

ہنگری کی حکومت کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے بعد سینکڑوں تارکینِ وطن ہنگری اور سربیا کی سرحد پر محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور انھیں رات کھلے آسمان کے نیچے یا عارضی خیموں میں گزارنی پڑی ہے۔ بہت سے لوگوں نے آگ جلانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کیں۔

سرحد بند کرنے کے اقدام کی وجہ تارکینِ وطن کو یورپی ممالک میں داخلے سے روکنا ہے۔

گذشتہ شب نئے قانون کے اطلاق کے بعد سے پولیس نے ان ریلوے لائنوں کو بھی بند کر دیا جنھیں ہزاروں تارکینِ وطن استعمال کر رہے تھے۔

یہاں آنے والے بہت سے لوگ اس خار دار باڑ کو عبور کرنے کا راستہ تلاش کر رہے ہیں جبکہ دیگر لوگ احتجاجاً کھانے کو پھینک رہے ہیں۔

ہنگری کے وزیرِ دفاع پیٹر سزیجاترو نے کہا ہے کہ ان کا ملک تارکینِ وطن کو اپنی سرحد کے باہر رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ تارکینِ وطن ہنگری میں داخلے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔

وہاں موجود ایک گروپ جس کا تعلق افغانستان سے ہے، میں شامل ایک لڑکے نے ایک عارضی کیبن کے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ شاید یہ یورپی یونین میں داخل ہونے کا کوئی نیا دروازہ ہے۔

قریب ہی موجود تارکینِ وطن خود کو ملنے والی خوراک اور پانی کو پھینک رہے ہیں۔ احتجاج کرنے والوں میں سے ایک شخص نے چلا کر کہا ’ ہمیں تب تک کھانا یا پانی نہیں چاہیے جب تک ہم سرحد عبور نہ کرلیں‘

نامہ نگار کا کہنا ہے کہ احتجاج کے باوجود ایسا نہیں دکھائی دیتا کہ انھیں باڑ کو عبور کرنے کی اجازت دی جاسکے گی۔

یورپی یونین کی باڈر ایجنسی کے مطابق رواں سال اب تک پانچ لاکھ سے زائد تارکینِ وطن ممبر ممالک میں پہنچے جبکہ گذشتہ برس یہ تعداد تین لاکھ سے کم تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو سمندری راستہ عبور کر کے یہاں آئے۔

تاہم دوسری جانب سربیا کے وزیرِ الایکسندر ولین نے کہتے ہیں کہ ہنگری کی جانب سے سرحد کو بند کرنا غیر موزوں اقدام تھا۔

بی بی سی سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہنگری کی حکومت نے انھیں سرحد بند کرنے سے قبل آگاہ نہیں کیا تھا اور دونوں ممالک کے حکام کے درمیان بہت کم ہی رابطہ ہے اور بات چیت باڑ کے اطراف سے ہی ہو رہی ہے۔

منگل کے روز ہی ایک لکری کی کشتی جس میں چار بچے بھی شامل تھے ڈوب گئی۔

ہنگری نے ملک کی دو جنوبی کاؤنٹیز میں ایمرجنسی نافذ کر رکھی ہے۔ جو بھی سرحد کو غیر قاونی طور پر پار کرنے کی کوشش کرے گا اسے سزا ہوگی اور سزا دینے کی ڈیوٹی 30 جج صاحبان کو سونپی گئی ہے۔

پناہ کی تلاش میں آنے والوں کی درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں تاہم اگر کسی کی درخواست مسترد ہوگئی تو انھیں واپس سربیا آنا ہوگا۔

ہنگری کے حکام کا کہنا ہے کہ نو ہزار سے زائد افراد سرحدوں کو سیل کیے جانے سے قبل ملے تھے۔

ادھر یورپی کمیشن ہنگری کے نئے قانون کو دیکھ رہی ہے کہ آیا وہ پناہ کی تلاش والوں سے متعلق یورپی قانون کے مطابق ہے یا نہیں۔

پولیس کا کہنا تھا کہ انھوں نے 60 افراد کو سرحد پر موجود باڑ کو ہٹانے کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours