بھارت کے 91 سالہ ’سیکسپرٹ‘ یا جنسی مسائل کے ماہر کا کہنا ہے کہ ایسے مسائل کے بارے میں اب صرف مرد ہی ان سے سوالات نہیں کرتے بلکہ خواتین بھی اب اپنے مسائل کے حل کے لیے ان کی مشاورت چاہتی ہیں۔

مہیندر واستا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ممبئی مرر‘ میں چھپنے والے جنسی مسائل کے حل کے سلسلے میں گو اب بھی زیادہ تر سوالات مرد حضرات ہی کی جانب سے آتے ہیں۔ واستا کے مطابق، ’’جب میں نے ابتداء میں ’آسک دی سیکسپرٹ‘ لکھنا شروع کیا، تو کوئی بھی ایسا خط نہیں آتا تھا جو کسی خاتون کی طرف سے لکھا گیا ہو، مگر اب 30 فیصد تک خطوط خواتین کی طرف سے آتے ہیں۔‘‘ بھارت کے معروف ترین ماہر جنسی مسائل مہیندر واستا روز تقریباﹰ 80 سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔

بھارت جہاں معاشرے میں جنسی مسائل پر بات چیت کرنا پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھا جاتا وہاں گائناکالوجسٹ اور اوبسٹریشن واستا ایسے مسائل کے جوابات میں جنسی اعضاء کے لیے کوئی متبادل لفظ استعمال کرنے کی بجائے ان کے اصل نام استعمال کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس سے لوگوں میں ایسے مسائل کے بارے میں بات کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ واستا کہتے ہیں، ’’بھارت کی بہت سی ریاستوں میں ابھی تک طلبہ کو جنسی تعلیم نہیں دی جاتی جس سے وہ اس معاملے پر بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘

مہیندر واستا کہتے ہیں، ’’مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس بارے میں معلومات کہاں سے حاصل کریں؟ یہاں تک کہ بھارت میں موجود زیادہ تر ڈاکٹر حضرات کے پاس بھی جنسی مسائل سے نمٹنے کے لیے بہت کم تجربہ ہے۔‘‘

واستا نے جنسی تعلیم فراہم کرنے کی ابتداء بھارت کی فیلمی پلاننگ ایسوسی ایشن کے ساتھ اپنے کام سے کی تھی۔ تاہم بعد میں انہوں نے ایک کالم کے ذریعے مشورے دینے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ان کے اس کام کو بھارت میں موجود قدامت پسند عناصر کی طرف سے تنقید اور مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے کیریئر کے آغاز میں انہوں اس سلسلے میں ورکشاپس منعقد کرتے ہوئے مزاحمت کا بھی سامنا کیا: ’’ابتداء میں لوگ اس وقت بہت پریشان ہوتے جب میں مردانہ جنسی عضو کی سلائیڈ دکھاتا، تاہم پھر وہ بتدریج اس کے عادی ہوتے گئے۔‘‘

واستا کے مطابق ’ممبئی مرر‘ میں چھپنے والے ان کے کام کے خلاف چند ایک مرتبہ پولیس میں شکایت بھی درج کرائی گئی جس میں کہا گیا کہ ’بچے اسے پڑھتے ہیں اور غلط خیالات حاصل کرتے ہیں۔‘‘ مہیندر واستا آئندہ برس فروری میں 92 برس کے ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک اخبار کی طرف سے اس کالم کی خواہش برقرار رہے گی وہ لوگوں کو ان کے جنسی مسائل کے حل کے لیے لکھتے رہیں گے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours