ہنگری کے دارالحکومت بڈاپیسٹ کے ریلوے سٹیشن پر ہزاروں کی تعداد میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کے مسئلے پر بات کرنے کے لئے ہنگری کے وزیراعظم اور یورپی یونین کے حکام برسلز میں ملاقات کررہے ہیں۔

یورپی یونین کے ممالک کو تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس لیے بڈا پیسٹ ریلوے سٹیشن پرموجود تارکین وطن کو ہنگری سے آگے جانے والی ٹرینوں پر سوار ہونے سے روگ دیا گیا ہے۔

بڈاپیسٹ کے کیلیٹی ریلوے سٹیشن پر تقریبا 2000 تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں۔ گذشتہ رات کچھ تارکین وطن نے پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی بھی کی۔

یہ تارکین وطن پیر کو اس اعلان سے قبل ہی ٹکٹ خرید چکے تھے جس میں ہنگری نے کہا تھا کہ یورپی یونین کا فیصلہ آنے تک تارکین وطن کی رجٹریشن کو عارضی طور پر بند کیا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں موجود تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کو ویانا اور جنوبی جرمنی جانے والی ٹرینوں میں سوار ہونے سے روک دیا گیا۔

شام سے آئے ہوئے ایک تارک وطن نے امریکی نیوز ایجنسی اے پی سے بات کرتے ہوئے کا کہ ’ہم ہنگری میں نہیں رہنا چاہتے، ہم اپنے مرضی کے ملک جانا چاہتے ہیں۔ یہ ہمیں یہاں رہنے پر مجبور کرہے ہیں۔‘

اس سے قبل بڈاپسٹ کے کیٹلی ریلوے سٹیشن کے باہر اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان صورتحال کشیدہ رہی ہے۔

بہت سارے تارکین وطن ٹکٹیں خرید چکے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ انھیں جرمنی یا کسی دوسرے ملک جانے کی اجازت دی جائے۔ تاہم ہنگری کا کہنا ہے کہ وہ یورپی یونین کے قوانین پر عمل درآمد کر رہا ہے۔

دوسری جانب جرمنی، اٹلی اور فرانس نے یورپی یونین میں مہاجرین کی ’منصفانہ تقسیم‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

اٹلی کے وزیرخارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مشترکہ اعلامیے میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے یورپ میں پناہ حاصل کرنے سے متعلق قوانین پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

افریقہ اور مشرق وسطیٰ سے ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن یورپ کا رخ کر رہے ہیں، جس کے باعث یورپی یونین کے رکن ممالک کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

اٹلی اور یونان کا کہنا ہے ان کے ساحلوں پر بڑی تعداد میں تارکین وطن پہنچے ہیں، جبکہ دیگر ممالک بشمول جرمنی بھی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم کئی ممالک بشمول برطانیہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ترکی کے ساحل کے قریب یونان جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے پانچ بچوں سمیت 12 پناہ گزیں ڈوب گئے ہیں ۔

یورپ کے سرحدی ادارے فرنٹیکس کا کہنا ہے کہ صرف گذشتہ ہفتے کے دوران یونان پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد 23 ہزار رہی ہے جو کہ اس سے پچھلے ہفتے سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ رواں برس اب تک مجموعی طور پر ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ تارکینِ وطن نے یونان کا رخ کیا ہے۔

خیال رہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور ظلم و جبر سے تنگ آ کر ہزاروں تارکین وطن شمالی یورپ پہنچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاکہ وہاں جا کر پناہ حاصل کریں جبکہ دوسری جانب یورپی یونین کے ممالک اس کا حل تلاش کرنے کے لیے مسلسل سفارتی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

بی بی سی کے کرس مورس کا کہنا ہے کہ اس بحران نے پناہ گزینوں کے متعلق یورپی یونین کے نظام میں موجود کمی کو اجاگر کیا ہے۔

تارکینِ وطن سے متعلق یورپی یونین کے اصول ’ڈبلن ضابطہ‘ کے مطابق پناہ گزینوں کو اس ملک میں پناہ حاصل کرنی چاہیے جہاں وہ سب سے پہلے داخل ہوئے ہیں۔

تاہم اٹلی اور یونان جیسے ممالک نے کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی کثرت تعداد کے پیش نظر انھیں سنبھالنے سے قاصر ہیں، اس لیے تارکین وطن اب شمال کا رخ کر رہے ہیں۔

ایسے ہی دو ہزار تارکین وطن بدستور ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ کے ایک اہم ریلوے سٹیشن کی بندش کے بعد وہاں پر پھنسے ہوئے ہیں۔

مقامی پولیس نے انھیں یورپ کے کسی دوسرے ملک جانے سے روکنے کے لیے منگل کو کیٹلی کا سٹیشن بند کر دیا تھا۔

یہ افراد آسٹریا کے راستے جرمنی جانا چاہتے ہیں اور بدھ کو دوسرے دن احتجاج کے دوران مشتعل بھیڑ نے پھر ’جرمنی، جرمنی‘ کے نعرے لگائے اور ہوا میں اپنے ٹکٹ لہرائے۔

خیال رہے کہ صرف جولائی میں یورپ میں داخل ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک لاکھ سات ہزار تک پہنچ گئی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔

جرمنی کا اندازہ ہے کہ رواں سال اس کے یہاں آٹھ لاکھ پناہ گزین پہنچیں گے جو گذشتہ سال سے چار گنا زیادہ ہیں۔

جرمنی کے وزیر محنت آندریا ناہلیز نے کہا کہ آئندہ سال 24 ہزار سے 46 ہزار تک پناہ گزین سماجی فوائد حاصل کرنے کے اہل ہوں گے جس کا مطلب حکومت کو اربوں یورو کا بار اٹھانا ہوگا۔

جرمنی نے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ دوسرے یورپی ممالک سے آنے والے شامی پناہ گزینوں کو ان کے ملک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دینے کی اجازت ہوگی۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours