پاکستان میں وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا سے منتخب ہونے والے ارکانِ پارلیمان نے ان علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے، ایگزیکٹیو کونسل بنانے یا علیحدہ صوبہ بنانے سے متعلق قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ میں تحریک جمع کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس بات کا فیصلہ فاٹا سے منختب ہونے والے اراکینِ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینیٹ اور ایوانِ زریں یعنی قومی اسمبلی کے اراکین نے شرکت کی۔

فاٹا سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 37 سے منتخب ہونے والے رکن ساجد حسین طوری نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا علاقہ گذشتہ 15 برس سے شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور سب سے زیادہ قربانیاں بھی اس علاقے کے مکینوں نے دی ہیں لیکن ان لوگوں کے پاس بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انھوں نے کہا کہ شدت پسندی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو جو بیرونی امداد مل رہی ہے وہ بھی اسی علاقے کی مرہونِ منت ہے لیکن یہ علاقہ ابھی بھی سب سے پسماندہ ہے۔

ساجد حسین طوری کا کہنا تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ان علاقوں کے عوام کو ان کے آئینی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس علاقے کے عوام کو اپنے مسائل اجاگر کرنے کے لیے کوئی مناسب فورم دستیاب نہیں ہے۔

ساجد حسین طوری نے کہا کہ یا تو ان علاقوں کو علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے یا پھر اس کو صوبہ خیبر پختونخوا میں شامل کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت ان کے مطالبات تسلیم نہیں کرسکتی تو کم سے کم گلگت بلتستان کی طرح ان علاقوں میں ایگزیکٹیو کونسل ہی بنا دی جائے۔

فاٹا سے منتخب ہونے والے رکنِ قومی اسمبلی غازی گلاب جمال کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان علاقوں کے عوام کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان علاقوں میں ایگزیکٹیو کونسل بنانے کے لیے سکیورٹی فورسز کے حکام سے بھی بات ہوئی ہے جنھوں نے اس ضمن میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

غازی گلاب جمال کا کہنا تھا کہ سیفران کی وزارت نے بھی اس معاملے میں کچھ حد تک رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ گورنر خیبر پختونخوا کے ماتحت فاٹاسیکریٹیریٹ نے اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کو ڈیموکریٹک علاقہ قرار دیا جائے اور ایگزیکٹیو کونسل فی الفور تشکیل دی جائے اور یہاں سے منتخب ہونے والے ارکان کو اس کونسل کا رکن منتخب کیا جائے، جبکہ سنہ 2018 میں ہونے والے عام انتخابات میں اس کونسل کے ارکان کو براہ راست منتخب کیا جائے۔

غازی گلاب جمال کا کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام بھی یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل مقامی سطح پر حل کیے جائیں کیونکہ معمولی نوعیت کے مسائل کے حل کے لیے انھیں فاٹا سیکریٹیریٹ کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours