برطانیہ کی حزبِ اختلاف کی جماعت لیبر پارٹی نے بائیں بازو کے نظریات کے حامی سینیئر سیاستدان جیریمی کوربن کو اپنا نیا سربراہ منتخب کر لیا ہے۔ ازلنگٹن سے برطانوی دارالعوام کے رکن منتخب ہونے والے کوربن نے کہا ہے کہ لیبر کے سربراہ کے طور پر ان کا سب سے پہلا کام پناہ گزینوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت ہوگی۔ ابتدائی طور پر کوربن کو اس الیکشن کے لیے اہم امیدوار نہیں سمجھا جا رہا تھا تاہم انھوں نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ اس عہدے کے لیے ان کا مقابلہ سابق وزرا اور اینڈی برنہیم، ایویٹ کوپر اور شیڈو منسٹر لز کینڈل جیسے اہم لیبر رکن پارلیمان سے تھا۔ لیبر پارٹی نے پہلی مرتبہ اپنے رہنما کے انتخاب کے لیے ’ایک ممبر ایک ووٹ‘ کے نئے قانون کے تحت مقابلہ کروایا۔ یہ قانون سنہ 2014 میں نافذ کیا گیا تھا۔ لیبر پارٹی کے سربراہ کے چناؤ کے لیے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق تھا اور ووٹنگ کی شرح 76 فیصد رہی۔ کوربن نے الیکشن میں دو لاکھ 51 ہزار چار سو سترہ ووٹ لیے جو کہ کل ڈالے گئے ووٹوں کے 59 فیصد تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف اینڈی برنہیم کو صرف 19 فیصد ووٹ ملے۔ ایویٹ کوپر نے اس الیکشن میں 17 فیصد جبکہ لز کینڈل نے صرف ساڑھے چار فیصد ووٹ لیے۔ انتخاب کے نتائج کے اعلان کے لیے جب جیریمی کوربن ملکہ الزبتھ دوم کانفرنس سینٹر پہنچے تو ان کے حامیوں نے سوشلسٹ ترانہ دی ریڈ فلیگ گا کر ان کا استقبال کیا۔
اس موقع پر اپنی تقریر میں انھوں نے کہا لیبر پارٹی کی قیادت کی انتخابی مہم سے ظاہر ہوا کہ ’ ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لیے ہماری جماعت اور تحریک مکمل طور پر پرعزم، متحد اور جذبات سے پُر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ برطانیہ کو ایک زیادہ برداشت کا مادہ رکھنے والا اور مل کر چلنے والا ملک بنانے کے لیے کوشش کریں گے اور معاشرے میں موجود خوفناک عدم مساوات کے خاتمے کے لیے بھی کوشاں رہیں گے۔
اس انتخاب کے لیے مہم تین ماہ تک جاری رہی تھی جس میں مستقبل میں جماعت کی راہ کے بارے میں تنازعات بھی سامنے آئے۔ کوربن 32 سال سے برطانوی پارلیمان کے رکن ہیں لیکن ہمیشہ سے وہ پارلیمان میں ’بیک بینچر‘ ہی رہے۔ لیبر پارٹی کے کئی سینیئر رہنما پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ جیریمی کوربن کے تحت شیڈو کابینہ میں کام نہیں کریں گے اور شیڈو وزیرِ صحت اور کوربن کے ناقد جیمی ریڈ نے اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ لیبر پارٹی میں نئے رہنما کے انتخاب کی ضرورت مئی میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد پارٹی کے اس وقت کے رہنما ڈیوڈ ملی بینڈ کے استعفے کے بعد پیش آئی تھی۔ ان انتخابات میں لیبر پارٹی نے انتہائی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours