نیپال کی آئین ساز اسمبلی نے پیر کو ووٹنگ کے ذریعے ہندو قوم پرستوں کی جانب سے نیپال کو دوبارہ ہندو ریاست بنانے کی کال مسترد کر دی ہے، جس کے بعد پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا۔

نیپال میں صدیوں پہلے جب بادشاہت کا دور تھا تو اس وقت نیپال ہندووں کی ریاست کہلاتا تھا لیکن 2006 میں جب بادشاہت ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی نیپال ایک سیکولر ریاست کے طور پر ابھرا۔

اتوار کے دن نئے آئینی مسودے پر ووٹنگ کے لیے جب اسمبلی کے ممبران اکٹھے ہوئے تو ان میں سے دو تہائی سے زیادہ ممبران نے اس تجویز کے خلاف ووٹ دیا کہ نیپال کو دوبارہ سے ہندو ریاست بنا دیا جائے۔ اس تجویز کے لیے دو تہائی سے زیادہ ممبران کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس تجویز کو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جو خود بھی نیپال میں بادشاہت چاہتی ہے۔

اس تجویز کے خلاف ووٹ دیے جانے پر ہزاروں کی تعداد میں ہندومظاہرین نے اسمبلی کے باہر احتجاج کیا، جن کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ان پر تیز دھار پانی برسایا اور لاٹھی چارج بھی کیا۔

مظاہرین نے آس پاس سے گزرنے والی گاڑیوں پر بھی حملے کیے جس میں ایک گاڑی اقوام متحدہ کی بھی تھی، جو کسی اہلکار کو لے کر ائیرپورٹ کی طرف جا رہی تھی۔ اس حملے میں ڈرائیور اور سرکاری اہلکار دونوں محفوظ رہے۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں کسی کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔

نیپال کا آئین کئی سالوں سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتو ں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے تاخیر کا شکار رہا ہے۔ اب کہیں جاکر تین بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق کے بعد نئے آئین کی تیاری اور منظوری کا عمل دوبارہ شروع ہوا ہے۔

نئے آئین میں نیپال کو سات وفاقی صوبوں میں تقسیم کرنے کی تجویز ہے جسے کئی نسلی گروہوں نے مسترد کردیا ہے۔

اس نئے آئینی مسودے کے خلاف ہفتوں سے جنوبی نیپال میں مظاہرے جاری ہیں جو اب پر تشدد ہوگئے ہیں اور اب تک مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم چالیس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ حکام نے جنوبی نیپال کے کئی قصبوں میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours