بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے کہا ہے کہ ان کی جان کو دائیں بازو کے نظریات کے حامل لوگوں سےخطرہ ہے۔انھوں نے برطانوی نشریاتی ادارے سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ ’جو لوگ ملک کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں اور جو فرقہ پرستی پھیلانا چاہتے ہیں ان سب سے میری جان کو خطرہ ہے۔‘انھوں نے کانگریس اور بی جے پی دونوں پر عوام کو لوٹنے کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ منموہن سنگھ اور نریندر مودی دونوں کی حکومتیں عوام کو جھانسہ دے رہی ہیں۔انھوں نے کہا کہ فرضی مقابلے کرنے والے پولیس اہلکاروں اور غیرت کے نام پر نوجوانوں کا قتل کرنے والوں کو پھانسی پرلٹکا دیا جانا چاہیے۔
جسٹس کاٹجو نے بنگلور میں معروف ماہر تعلیم پروفیسركلبرگي کے قتل کی مذمت کی اور کہا کہ بلا خوف خطر اپنے خیلات کے اظہار کے سبب ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ان کا کہنا تھا ’میں نے اپنے بلاگ میں صاف صاف لکھا ہے کہ دائیں بازو کے لوگوں سے میری جان کو خطرہ ہے۔‘وہ کہتے ہیں ’دیکھیے ایک بات سمجھ لیجیے سب کو ایک ہی زندگی ملتی ہے۔ میں اس ماہ 69 برس کا ہونے جا رہا ہوں اور اب میں کسی سے نہیں ڈروں گا۔ جو سچ ہوگا اور ملک کےمفاد میں ہوگا وہی بولوں گا۔‘
جسٹس کاٹجو کہتے ہیں کہ منموہن سنگھ کی حکومت اور مودی کی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں جھانسہ دیے کر حکومت چلا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا ’ کانگریس کی حکومت میں لاکھوں کروڑوں کے گھپلے ہو رہے تھے اور لوگ ان سے پریشان ہو چکے تھے۔ ایسے میں لوک سبھا انتخابات کے دوران جب نریندر مودی نےترقی کا نعرہ دیا تو نوجوانوں کو لگا کہ ترقی آئے گی۔ انھیں ملازمتیں ملیں گی، جو ہوا نہیں۔‘
ان کے مطابق ’جس طرح سے کانگریس نے عوام کو بیوقوف بنایا، بی جے پی کی حکومت بھی وہی کر رہی ہے۔‘
مہاتما گاندھی کو برطانوی ایجنٹ قرار دینے والے اپنے ایک بیان کے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا ’گاندھی کے متعلق کہانیاں بہت ہیں۔ وہ سنہ 1915 کے آس پاس بھارت لوٹے۔ 33 برس کی سیاست ہے ان کی۔‘انھوں نے بتایا ’ان کا کام پڑھیں۔ ہر کتاب میں وہ رام راج، گوركشا، (گائے کے تحفظ) اور آشرم کی باتیں کرتے ہیں۔ ہندو مذہبی نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ آپ سیاست میں رہ کراس طرح کی باتیں نہیں کر سکتے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ کو آزادی کس طرح سے ملی؟ کیا انھوں نے انگریزوں کو گلاب کا پھول دیا یا پھر ستیہ گرہ کیا تھا؟ جارج واشنگٹن کو بھی ان کے خلاف بندوق اٹھانی پڑی تھی۔ گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے سے ہمیں آجب ھی آزادی نہیں مل پاتی۔‘جسٹس کاٹجو کا خیال ہے کہ بدعنوان لوگوں کو پھانسی دی جانی چاہیے۔انھوں نے کہا ’ویسے تو میں پھانسی کی سزا کے خلاف ہوں لیکن بدعنوان، جہیز کے لیے عورتوں کو مارنے والے، فرضی انکاؤنٹر میں شامل پولیس اہلکار اور غیرت کے نام پر نوجوانوں کا قتل کرنے والوں کو پھانسی ہونی چاہیے۔‘
Post A Comment:
0 comments so far,add yours