سن انیس سو ستر کی دہائی میں کینیڈا میں مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والی خواتین کی زبردستی نسبندی کی گئی تھی۔ ایک جائزے کے مطابق کینیڈا کے حکام نے اس امر کا علم ہونے کے باوجود اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک جائزے کے مطابق 1970ء کی دہائی میں مقامی خواتین کی نسبندی کے واقعات اس سے قبل لگائے جانے والے اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں پیش پیش کیرن اسٹوٹ کہتی ہیں کہ اس دور میں حکومت کو اکثر واقعات کا علم تھا اور اس نے ان پر پابندی لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اسٹوٹ کے مطابق 1971ء سے 1974ء کے مابین تقریباً بارہ سو’ ریڈ انڈین‘ خواتین کی نسبندی کی گئی تھی اور تاریخی دستاویزات میں یہ درج نہیں ہے کہ ان میں سے کتنی خواتین کو زبردستی یا دھوکہ دے کر اس آپریشن کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔وہ مزید کہتی ہیں کہ تاہم شواہد کچھ مختلف ہیں۔’’ نسبندی کے فارم مقامی زبانوں میں دستیاب نہیں تھے اور ان خواتین کو اس بارے میں ضروری طور پر یہ علم ہی نہیں تھا کہ ڈاکٹر ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے جا رہا ہے۔‘‘ تھوماس روئٹرز فاؤنڈیشن سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ کچھ علاقوں میں سرکاری ڈاکٹرز مقامی’ انڈیجیز‘ قبائل کی تعداد کو محدود کرنے کے لیے پیدائش کی شرح پر قابو پانے کی مہم چلا رہے تھے۔ ’’ نسبندی وسیع نوآبادیاتی نظام کی ایک علامت ہے‘‘۔اسٹوٹ کے اس جائزے کا نام ’’An Act of Genocid: Colonialism and Sterilization of Aboriginal Women ‘‘ ہے۔ یہ اس موضوع پر ترتیب دیا جانے والا کوئی پہلا جائزہ نہیں ہے لیکن محققین کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ اس سے کہیں بڑا ہے، جس کا ذکر دستاویزات میں کیا گیا ہے۔ تاہم جب کینیڈا کے محکمہ برائے قدیمی باشندوں سے اس سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو کوئی بھی اہلکار انٹرویو دینے پر راضی نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق زبردستی یا جبری نسبندی خواتین کے ساتھ نسلی امتیاز کی ایک قسم ہے اور یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ کیرن اسٹوٹ کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کینیڈا کے کچھ حصوں میں جبری نسبندی کے واقعات 1974ء تک جاری رہے تھے۔ کینیڈا کے علاقے البیرٹا کے حکام مقامی خواتین کی زبردسستی نسبندی پر معافی مانگ چکے ہیں اور زر تلافی بھی ادا کر چکے ہیں۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours