گزشتہ برس سولہ دسمبر کو پشاور کے ایک آرمی اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد سزاائے موت کے حوالے سے صورتحال بدل گئی ہے
پاکستان میں چار برس تک سزائے موت پر عملدرآمد نہ کیا گیا لیکن پشاور کے ایک اسکول پر حملے کے بعد ملک میں سزائے موت پر عملدرآمد پر پابندی ہٹا لی گئی۔ اب پاکستان اس سزا پر عمل کرنے والا ایک بڑا ملک بن گیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد شروع کرنے کا مقصد سزائے موت کے منتظر جنگجوؤں کع سنائی گئی سزاؤں پر عمل کرنا تھا لیکن درحقیقت اب دیگر جرائم پیشہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر بھی عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔

انسانی حقوق کے سرکردہ کارکنان کے مطابق گزشتہ برس دسمبر سے جن 226 مجرمان کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا ہے، ان میں سے صرف دس مجرم دہشت گردی کے مقدمات میں سزا یافتہ تھے۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد سے اس سزا پر عملدرآمد بدستور جاری ہے۔

حکومت پاکستان سزائے موت دیے جانے کے موضوع پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتی اور دوسری طرف شدت پسندی سے تنگ عوام بھی ان سزاؤں کے حق میں نظر آتے ہیں۔ تاہم متعدد حلقوں میں یہ گفتگو شروع ہو چکی ہے کہ سزائے موت دیے جانے سے کیا واقعی دہشت گردی کے واقعات ختم ہو جائیں گے؟ تجزیہ نگار حسن عسکری رضوی کے مطابق ان جنگجوؤں کو سزائے موت کے خوف سے نہیں روکا جا سکتا کیونکہ یہ ایک مقصد کے تحت اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔

پاکستان میں سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں 2008ء میں سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا، جس کی وجہ انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے دباؤ تھا۔ اُسی برس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان بھر میں مجموعی طور پر تقریباﹰ سات ہزار مجرم سزائے موت دیے جانے کے منتظر تھے۔

2008ء میں 36 مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد بھی کیا گیا تھا۔ 2007ء میں 134 مجرموں کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا تھا جبکہ 2006ء میں پچاسی، 2005ء میں باون اور 2004ء میں اکیس مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔

2008ء کے بعد سے فوج نے 2012ء میں صرف ایک مجرم کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا تھا۔ اگرچہ پاکستان میں ان سزاؤں پر دوبارہ سے عمل شروع ہو جانے کے بعد بھی جنگجوؤں کی کارروائیوں میں کوئی خاص کمی نوٹ نہیں کی گئی تاہم حکومت اس حوالے سے خاموش ہے۔

گزشتہ برس سولہ دسمبر کو پشاور کے ایک آرمی اسکول پر طالبان کے حملے کے بعد صورتحال بدل گئی تھی۔ اس پرتشدد کارروائی کے نتیجے میں 150 افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر اسی اسکول کے بچے تھے۔ اس واقعے کے بعد طالبان کے خلاف عوامی سطح پر غصے میں اضافہ ہو گیا تھا۔ یہی وہ واقعہ تھا، جس کے بعد پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے انتہائی سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اچھے اور برے طالبان‘ میں کوئی تقسیم نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ان شدت پسندوں کو سزائے موت دی جائے گی۔

خبر رساں ادارے اے پی نے ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں سزائے موت پر عائد پابندی کو اٹھانے کے بعد سے جن مجرمان کو تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے، ان میں زیادہ تر قتل کے مجرم تھے۔

حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ کو جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق 2014ء میں سزائے موت کے منتظر مجرمان کی تعداد سات ہزار چھپن تھی جبکہ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق یہ تعداد آٹھ ہزار سے بھی زائد ہے۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان میں سے کتنے ایسے ہیں، جن کو دہشت گردی کے الزامات میں سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours