پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نے گذشتہ چھ ماہ میں 236,534 افراد کے پاکستانی شناختی کارڈ بلاک کر دیے ہیں۔نادرا حکام کی جانب سے موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ افراد کے شناختی کارڈوں کو مشکوک قرار دیتے ہوئے بلاک کیا گیا ہے، جبکہ 29 ہزار 393 افراد کو ’ایلین‘ کا درجہ دیتے ہوئے ان کے کارڈ منسوخ کر دیے گئے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ 65 سے 70 ہزار افراد کے شناختی کارڈوں کی چھان بین جاری ہے۔دسمبر 2014 میں سکول حملے کے بعد نافذ العمل قومی ایکشن پلان کے تحت وزارت داخلہ نے نادرا کو شناختی کارڈوں کی تصدیق کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد اس عمل میں تیزی آ گئی ہے۔
اس سلسلے میں نادرا کے ڈائریکٹر جنرل سید مظفر علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کسی کی پاکستانی شہریت منسوخ کرنے کا اختیار نادرا کے پاس نہیں ہے۔‘ان کے بقول ’یہ اختیار نادرا کے پاس نہیں بلکہ صرف مشترکہ تحقیقاتی سیل کے پاس ہے جو آئی ایس آئی، آئی بی اور سپشل برانچ کے اہکاروں پر مشتمل ہے۔‘نادرا کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا: ’نادرا ان کی تفتیشی رپورٹ کو حتمی مانتا ہے۔ اگر وہ کسی کو پاکستانی قرار دیتے ہیں تو وہ ہمارے لیے اتنا ہی معتبر شہری ہے لیکن اگر وہ کسی کو مشکوک قرار دیتے ہیں تو پھر اس کی شناختی کارڈ کی درخواست ہمیشہ کے لیے رد کر دی جاتی ہے۔‘وزارت داخلہ کی ہدایت پرصوبائی سطح پر جوائنٹ ویرفیکشن سیلز کا قیام کیا گیا ہے۔ شناختی کارڈوں کی چھان بین کے لیے یہ سیلز چاروں صوبوں میں قائم ہیں۔
نادرا کا کہنا ہے کہ شہریوں کی شناخت کی تصدیق اس لیے بھی کی جا رہی ہے کہ افغان شہریوں کو پاکستانی شناخت حاصل کرنے سے روکا جائے، مگر اس کی زد میں بیشتر ایسے پشتون خاندان بھی آرہے ہیں جنھوں نے بی بی سی کو ایسے مطلوبہ دستاویزات دکھائی ہیں جو 1952 کے پاکستانی ایکٹ کے تحت انھیں پاکستانی قرار دینے کے لیے بظاہر کافی ہیں۔خفیہ سکیورٹی اداروں کی جانب سےمشکوک قرار دیے جانے والے بیشتر افراد نے اپنے پاکستانی نہ ہونے کے درجے کو عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ان مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم نے کہا: ’یہ مسئلہ اس لیے متنازع بن گیا کیونکہ عدالت میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ناکافی معلومات پر بعص شہریوں کی پاکستانی شہریت منسوخ کی گئی۔ عدالت کے حکم پر نادرا نے جب دوبارہ تفتیش کرنے کے لیے قبائلی علاقے کی پولیٹیکل انتظامیہ سے رابطہ کیا تو ثابت ہوا کہ موکل پاکستانی ہی ہے۔غیر معمولی سکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظر وہ مشترکہ تحقیقاتی سیل قائم کرنے کو اہم سمجھتے ہیں مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’اس نظام کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ایسی قانون سازی بھی ضروری ہے جس کے تحت خفیہ ایجنسیوں یا نادرا کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے کسی معصوم شہری کی حب الوطنی پر بلاجواز شک کیا۔‘ ریٹائرڈ کرنل انعام الرحیم کے مطابق ’خفیہ ایجنسیوں کے پاس کسی کو بھی پاکستانی ثابت کرنے کا اختیار نہیں بلکہ یہ اختیار صرف عدالتوں کے پاس ہے۔‘انھوں نے مزید کہا: ’ہم چیف جسٹس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شناختی کارڈوں کی تصدیق عدالتی نگرانی میں کی جائے اور اس کے لیے عدالتوں کا نظام بھی وضع کیا جائے۔‘ان کے بقول: ’اگر ایسے مقدمات کو نمٹانے میں عدالت نے تاخیر کی تو اس سے متاثرہ شہریوں میں غم و غصہ پیدا ہو گا اور اگر جیل کاٹنے کے بعد وہ پاکستانی ثابت ہو بھی گئے تو ان کی دل جوئی ہو گی۔ تو پھر ایسے میں ان کی حب الوطنی کس کام کی؟‘
Post A Comment:
0 comments so far,add yours