پنجاب فوڈ اتھارٹی کی غیر معیاری اور ناقص کھانے کی اشیا کی فروخت کے خلاف مہم مزید زور پکڑ رہی ہے اور جمعرات کو پنجاب کے وزیر برائے خوراک بلال یاسین نے اعلان کیا ہے کہ لاہور سے شروع کی جانے والی اس مہم کا دائرہ پورے پنجاب تک پھیلایا جا رہا ہے۔واضع رہے کہ گذشتہ دنوں میں پنجاب فوڈ اتھارٹی اور محکمہ لائیو سٹاک نے مختلف شہروں میں مشترکہ کارروائی کے دوران دو ہزار کلو سے زائد مضر صحت گوشت برآمد کیا ہے جو مختلف ریستورانوں اور دکانوں کو سپلائی کیا جاتا تھا۔ اس کارروائی میں 17 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی مہم لاہور سے شروع کی گئی اور ڈائریکٹر آپریشنز عائشہ ممتاز روایتی اور سوشل میڈیا میں اس مہم کا چہرہ بن چکی ہیں۔ بی بی سی نے ایک رپورٹ میں عائشہ ممتاز کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کی’’ گبر سنگھ ‘‘ کا خطاب دیا۔
بی بی سی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ زندہ دلانِ لاہور کی خوش خوراکی کو ایک افسانوی شہرت حاصل ہے مگر ایک خاتون افسر نے لاہور میں کھانے پینے کی جگہوں پر سرِ عام چھاپے مار کر ان میں جاری سرگرمیوں کو بےنقاب کرنے کا مشکل کام اکیلے شروع کیا۔عائشہ ممتاز اب تک مختلف مقامات پر سات ہزار سے زیادہ چھاپے مار چکی ہیں جن میں سے اکثریت کو جرمانہ کیا یا سیل کر دیا گیا۔ کئی لوگوں کو حراست میں لے کر ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا جا چکا ہے۔تاہم ان کے ناقدین سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ میڈیا تماشا ہے یا فوڈ اتھارٹی کے پاس اصلاح کا کوئی ٹھوس پروگرام بھی ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی اس مہم کو ابھی تین ماہ ہوئے ہیں لیکن شہر کی خوراک کی وسیع و عریض صنعت میں سنسنی دوڑ گئی ہے۔ حکام کے مطابق اس مہم کو وزیر اعليٰ پنجاب شہباز شریف کی مکمل حمایت حاصل ہے جس کے نتیجے میں چھوٹے ڈھابوں سے لے کر مہنگے ریستوران زد میں آ چکے ہیں۔ چند بین الاقوامی فوڈ چینز کے خلاف بھی سخت کارروائی کی گئی ہے۔بعض ریستوران مالکان کے مطابق فوڈ انڈسٹری جو لاہور کی اقتصادی ریڑھ کی ہڈی بھی مانی جاتی ہے، اس عمل سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ان کے خیال میں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی بجائے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔لاہور ریسٹورنٹ ایسوسی ایشن کے سربراہ کامران شیخ خود بھی ایک ریستوران کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’بزنس پچاس فیصد گر چکا ہے اور باقی آنے والے دنوں میں اور گر جائے گا۔‘ ان کے خیال میں اندھا دھند کارروائی کی بجائے پہلے قانون سازی کی جائے اور پھر ریستورانوں کے عملے کو بنیادی تربیت دی جائے جو کئی سال سے ایک طرح سے کام کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ’پہلے یہ تمام ادارے کیا کر رہے تھے؟‘واضح رہے کہ حال ہی میں صوبائی حکومت نے پنجاب ترمیمی آرڈیننس 2015 متعارف کیا ہے جس کے تحت ریستورانوں کے معیار کے مطابق درجہ بندی کی جائے گی اور غیر معیاری خوراک کی فروخت پر کڑی سزائیں ہیں جس میں جرمانے کے ساتھ ساتھ پانچ سال تک کی قید بھی ہو سکتی ہے۔
بہت سے ریستوران مالکان اس عمل کی حمایت بھی کر رہے ہیں اور اسے خوراک کی صنعت کے لیے مثبت سمجھتے ہیں۔جیڈ کیفے کے مالک طاہر یاسین کا کہنا ہے: ’یہ اخلاقی طور پر سب کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو صاف ستھرا کھانا دیں۔ ابھی تو جدید سائنسی ٹیسٹ نہیں شروع ہوئے اور اگر ہماری صنعت سادے جائزے پر بھی معیار پر پورا نہیں اتر پا رہی تو پھر ہمیں اس بزنس میں رہنے کا کوئی حق نہیں بنتا۔‘
لاہور کے بہت سے خوش خوراک لوگ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی مہم سے بہت خوش ہیں۔اسد شیخ فیس بک پر ’فوڈیز آر اس‘ (Foodies R US) کے نام سے ایک گروپ چلاتے ہیں۔ یہ گروپ 20 ہزار ممبران سے تجاوز کر چکا ہے۔ گروپ ہر ماہ ’فوڈ موب‘ کی شکل میں مختلف ریسٹورنٹ پر اجتماع کرتا ہے اور کھانوں کی تصاویر کے ساتھ ان پر تبصرے فیس بک پر پوسٹ کیے جاتے ہیں۔صارفین کے ایسے بہت سےفورم پر عائشہ ممتاز کا چرچا ہے۔ سوشل میڈیا پر انہیں ’دبنگ خاتون‘ کے لقب سے نوازا جا رہا ہے۔ اسد شیخ نے کہا: ’اب حال یہ ہو گیا ہے کہ جیسے مائیں بچوں کو ڈراتی تھیں کہ سو جاؤ نہیں تو گبر آجائے گا، اب گاہک ریسٹورنٹ مالکان کو کہتے ہیں بھائی کام سیدھا کر لو نہیں تو عائشہ ممتاز آجائے گی۔ ‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ مہم کڑاہی میں عارضی ابال ہے یا کوئی طویل مدتی منصوبہ جو مستقبل میں بھی خوراک کی صنعت کو اپنے معیار اونچے رکھنے پر مجبور کر سکے۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours