ہنگری کے حکام وسط اگست سے مہاجرین اور تارکین وطن کو بین الاقوامی ٹرینوں میں سوار ہونے سے روک رہے تھے۔ پیر سے انہیں شینگن زون میں اپنی من چاہی منزل کی طرف سفر کرنے کی اجازت مل گئی۔

حالیہ عرصے کے دوران ہنگری پہنچنے والے تارکین وطن اور مہاجرین وہاں گزشتہ دو ماہ سے محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ وہ شینگن زون کے ایسے ممالک پہنچ جائیں، جہاں وہ ایک بہتر زندگی شروع کر سکیں۔ لیکن ہنگری کے حکام نے انہیں وہاں روک رکھا تھا۔ تاہم اکتیس اگست بروز پیر ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر عجب منظر دیکھنے میں آیا۔ اچانک ہی وہاں سے سکیورٹی اہلکار غائب ہو گئے اورسینکڑوں کی تعداد میں مہاجرین اور تارکین وطن ٹرینوں میں بیٹھ کر جرمنی اور آسٹریا کی طرف نکل پڑے۔

بوڈا پیسٹ کے کیٹیلی ریلوے اسٹیشن پر موجود اٹھارہ سالہ شامی مہاجر ایہاب یاسین نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی حیرت کا اظہار کچھ یوں کیا، ’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ میں جرمنی جا رہا ہوں‘۔ ٹرین میں سوار ہونے سے قبل فزکس کے طالب علم نے بے چینی سے مزید کہا کہ اسے یہ پرواہ نہیں کہ وہ جرمنی کے کس شہر پہنچے گا لیکن ملک جرمنی ہونا چاہیے۔ یاسین نے البتہ یہ ضرور کہا کہ وہ ہیمبرگ میں رہنے کو ترجیح دے گا۔

ان مہاجرین اور تارکین وطن میں سب سے زیادہ تعداد شامی باشندوں کی ہے، جو وہاں گزشتہ چار برس سے جاری خونریز تنازعے سے جان بچا کر یورپ میں پناہ لینے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن ان افراد میں افغانستان، پاکستان اور بالخصوص شمالی افریقی ممالک کے شہری بھی شامل ہیں۔ یہ افراد ایک مرتبہ یورپی یونین کے شینگن زون معاہدے والے ملک پہنچ گئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ اس یورپی معاہدے کے رکن چھبیس ممالک میں سے کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ ہنگری بھی شینگن زون کا حصہ ہے، تارکین وطن اور مہاجرین اس ملک میں اسی لیے داخل ہوتے ہیں کہ وہ کہیں آگے نکل سکیں۔

ہنگری کے حکام نے بتایا ہے کہ صرف اگست میں ہی وہاں داخل ہونے والے مہاجرین کی یومیہ تعداد دو ہزار رہی۔ ان مہاجرین کے لیے وہاں عارضی پناہ گاہیں بنائی گئی ہیں۔ ہنگری میں زیادہ تر مہاجرین سربیا کے راستے داخل ہوتے ہیں۔ اسی لیے بوڈا پیسٹ نے غیر قانونی تارکین وطن اور مہاجرین کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے سربیا کی سرحد پر ایک باڑ لگانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔

بوڈا پیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر موجود ایک پاکستانی نے کہا، ’’میں یہاں ٹرین کا انتظار کروں گا، چاہے کتنی دیر ہی کیوں نہ ہو جائے۔‘‘ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے مزید کہا کہ وہ پاکستان میں طالبان کی پرتشدد کارروائیوں سے تنگ آ چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ شدت پسند کئی مرتبہ اس کی دوکان لوٹ چکے ہیں۔ آسٹریا میں ٹرک کے سانحے کو یاد کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک جانے کے لیے ٹرک میں نہیں بیٹھے گا۔ گزشتہ ہفتے ہی آسٹریا میں ایک ایسا ٹرک ملا تھا، جس میں اکہتر مہاجرین کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔

تارکین وطن اور مہاجرین کی ٹرینیں جب ویانا پہنچیں تو وہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان بے گھر افراد کا پرتپاک استقبال کیا۔ بتایا گیا ہے کہ بیس ہزار افراد ان بے بس اور لاچار افراد کو خوش آمدید کہنے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر موجود موجود تھے۔ ویانا پہنچنے والے یہ افراد بعد ازاں بذریعہ ٹرین جرمن شہر میونخ اور سالزبرگ کے لیے روانہ ہوئے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ رواں برس یورپ پہنچنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کی تعداد تین لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ شمالی افریقی اور مشرق وسطی کے ممالک میں جاری خونریز تنازعات کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں سے فرار ہو کر یورپ پہنچنا چاہتی ہے۔ لاچاری اور بے بسی کے عالم میں یہ افراد ایک خوشحال زندگی کی خاطر کشتیوں میں سوار ہو کر بھی یورپ پہنچنے کی کوششوں میں ہیں۔ اس دوران بحیرہ روم میں کئی کشتیوں کے غرق ہونے کی وجہ سے سینکڑوں افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین اس بحران پر قابو پانے کے لیے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کی کوشش میں ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours