ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 90 فیصد کے قریب آبی پرندے پلاسٹک کھا لیتے ہیں جس کی کافی مقدار اُن کی آنتوں میں جمع ہو جاتی ہے۔

تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ جب تک سمندروں میں کوڑا کرکٹ کے بہاؤ کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔

تحقیق کار ایرک وان سیبل کہتے ہیں کہ سمندر اب پلاسٹک سے بھر چکے ہیں اور ’یقینی امکان‘ ہے کہ 2050 میں اگر کوئی مردہ آبی پرندہ ملتا ہے تو’اس کے معدے میں پلاسٹک کی کچھ مقدار موجود ہو گی۔‘

ڈاکٹر وان سیبل اور ان کے ساتھیوں کی یہ تحقیق سائنسی جریدے پی این اے ایس میں شائع ہوئی ہے۔

ایک طرف تو یہ تحقیق چونکا دینے والی ہے لیکن دوسری طرف اس کے نتائج پریشان کُن حد تک جانے پہچانے ہیں۔

متعدد تحقیقات میں اب تک یہ بتایا جا چکا ہے کہ پلاسٹک کا زیادہ سے زیادہ کوڑا سمندر میں بہا دیا جاتا ہے، اور اس کے سمندری ماحول پر نہایت مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

گھاس پھونس کھانے والے پرندے پلاسٹک کے سگریٹ لائٹر یا بوتل کے چمکدار ڈھکن کو مچھلی سمجھ بیٹھتے ہیں، اور وہ اگر اسے نگل لیں تو وہ لائٹر اس کی آنتوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے جس سے پرندے بیمار پڑ سکتے ہیں۔

ایک نئے تخمینے کے مطابق ہر سال سمندر میں 80 لاکھ ٹن پلاسٹک کا کوڑا بہا دیا جاتا ہے، جس سے قدرتی حیات کو خطرہ لاحق ہے۔

پی این اے ایس میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق آسٹریلوی اور برطانوی سائنس دانوں نے آبی پرندوں کے پلاسٹک سے متاثر ہونے کے عمل کو سمجھنے کے لیے کئی دہائیوں سے کی جانے والی والی تحقیقات کا دوبارہ جائزہ لیا۔

اس سے پہلے سنہ 1960 کے مشاہدات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت پانچ فیصد سے بھی کم تعداد میں پرندوں کے پیٹ سے پلاسٹک کے ذرے ملتے تھے۔ لیکن آج یہ مقدار تقریباً 90 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس صورت حال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ پیٹ میں موجود پلاسٹک کے ذرات کی یہ مقدار دنیا کے آبی پرندوں کی 99 فیصد نسلوں کو متاثر کرے گی اور تقریباً ہر آبی پرندے پر اس کے ضرر رساں اثرات مرتب ہوں گے۔

جنگلی حیات سے متعلق سی ایس آئی آر او نامی ایک تحقیقی جرنل میں وفاقی ریسرچ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے مذکورہ تحقیق کے سربراہ کِرس ولکوس آسٹریلوی نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ہر جگہ آبی پرندوں میں پلاسٹک موجود ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ زیادہ خطرات والے علاقے وہ نہیں ہیں جہاں جمع شدہ پلاسٹک پانی پر بہتا ہے۔ بلکہ زیادہ خطرات والے حصے وہ ہیں جہاں زیادہ تر آبی پرندے پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور جنوبی امریکہ کے جنوب میں واقع علاقے سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہیں۔

ایک خیال ہے کہ اس علاقے میں خالص پانی پایا جاتا ہے، لیکن اب یہ بڑی حد تک آلودہ ہو چکا ہے اور یہ قوی خدشہ ہے کہ اس فضلے کے باعث بڑی تعداد میں پرندے پلاسٹک سے متاثر ہوں گے۔

ڈاکٹر وان سیبیل لندن کے امپیریل کالج سے منسلک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خالص سمندر اب برقرار نہیں رہ سکتا۔‘

’ہر سمندر اب پلاسٹک سے بھر چکا ہے۔ کچھ خطوں میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ آلودہ ہیں۔ لیکن اب ہم یہ جان چکے ہیں کہ وہ سمندر جو پلاسٹک کے سلسلے میں مشہور نہیں اُن میں بھی پلاسٹک کی کچھ مقدار موجود ہے اور اس سے حقیقتاً نقصانات ہو سکتے ہیں کیوں کہ اس جگہ پرندے رہتے ہیں۔‘

تحقیق سے ایک اور اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مسئلے کے حل کی ضرورت ہے۔ اگر پلاسٹک کے کوڑا کرکٹ کو سمندروں میں آنے سے روکا جائے تو آبی پرندے جلد شفایاب ہو سکتے ہیں۔

امریکہ کی جارجیا یونیورسٹی کی جینا جیم بیک پلاسٹک کوڑا کرکٹ کے مسائل کی ماہر ہیں۔ وہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے ذریعے زمین پر ٹھوس فضلے کو ٹھکانے لگانے کے طریقوں، سمندر میں جانے والی پلاسٹک اور عالمی سمندروں میں اس کے اثرات میں تعلق کو عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

’اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اگر ہم سمندورں میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کی مقدار کم کر دیں آبی حیات کی انفرادی زندگیوں پر ہونے والے اثرات کم کر سکتے ہیں۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours