اگر آپ ایک ڈیسک پر بیٹھے کام کر رہے ہیں یا ٹیکسی چلا رہے ہیں یا کوئی ٹوکری اٹھا کر چل رہے ہیں، تو کچھ لمحوں کے لیے رک جائیے اور سوچیے کہ کیا یہ سب کام کوئی روبوٹ یا مشین بہتر طر پر کر سکتی ہے؟

اور بد قسمتی سے ممکنہ جواب ہو گا کہ ’ہاں‘۔

اب یہ بحث کتابوں اور خیالوں سے باہر آ گئی ہے کہ مشینیں انسانوں کی نوکری کی ضرورت کو ختم کر دیں گی۔

بوسٹن کے ایک مشاورتی گروپ نے پیشن گوئی کی ہے کہ سنہ 2015 تک تقریباً ایک چوتھائی نوکریوں کی جگہ سمارٹ سافٹ ویئرز یا پھر روبوٹس لے لیں گے جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں موجودہ 35 فیصد نوکریوں کو 20 سال بعد مشینوں سے تبدیل کیے جانے کا خطرہ ہے۔

آفس میں روزانہ رپورٹ اور گراف بنانے جیسا کام کرنے والے افراد کو با آسانی ایسے سافٹ ویئر سے تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے علاوہ اور کون سی نوکریوں کو خطرہ لاحق ہے۔
ٹیکسی ڈرائیور




فی الوقت دنیا بھرمیں ٹیکسی ڈرائیور موبائل ایپس کے ذریعے حاصل کی جانے والی ٹیکسی سروس اوبر کے ساتھ تنازع میں الجھے ہوئے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ کہ اوبر سروس کے ڈرائیور ان کے مقابلے میں قواعد و ضوابط کی زیادہ خلاف ورزی کرتے ہیں۔

لیکن اب اوبر اور گاڑیاں بنانے والی دوسری کمپنیاں گوگل کے ساتھ مل کر ایک ایسی سروس لانےکا سوچ رہی ہیں جس میں ڈرائیور ہی سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔

ٹراوس کلانک کے چیف ایگزکٹو کہتے ہیں ’یہ سروس بہت سستی بھی ہوگی کیونکہ آپ کو ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے ڈرائیور کو ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی۔‘

اس سال کے آخر تک لندن کے ملٹن کینز کے علاقے میں خود کار ٹیکسیاں چلنا شروع ہوجائیں گی جس میں لوگ سفر بھی کرسکیں گے۔

برطانوی حکومت بغیر ڈرائیور کی گاڑیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ہائی وے کوڈ کو بھی جدید طریقوں پر استوار کر رہی ہے۔

لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی ایسوسی ایشن کے سربراہ سٹیو مکنمارا نے بی بی سی کو بتایا کہ بغیر ڈرائیور کی گاڑیوں سے ان کی نوکری کو خطرہ نہیں ہے۔

’خود کار ٹیکسیوں کو برطانیہ کی سڑکوں پر چلنے کے لیے رجسٹریشن کی ضرورت ہوگی۔ یہ ٹیکنالوجی ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور ابھی تک اس کا شہر کی مصروف شاہراہوں پر کوئی تجربہ بھی نہیں ہوا ہے اور ایسا کئی سال تک نہیں ہوگا۔

انھوں نے مزید کہا ’حقیقتاً مجھے شک ہے کہ یہ خودکار ٹیکسیاں روایتی ٹیکسیوں کے شانہ بہ شانہ چل سکیں گی۔‘
فیکٹری مزدور


چین میں پہلے ہی ایسے روبوٹ بنانے کی کوششیں جاری ہیں جو انسانوں کی جگہ کام کر سکیں۔

چین کی ڈونگوآن فیکٹری سٹی میں پہلی روبوٹ بنانے والی فیکٹری قائم کی جا رہی ہے۔

سہنزین ایوینون پریسیشن ٹیکنالوجی کے بورڈ کے چیئرمین چن زنگوئی کا کہنا ہے کہ فیکٹری روبوٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے موجودہ 1,800 افراد کے عملے کو 90 فیصد تک کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

لیکن چین میں روبوٹ ورک فورس کے لیے ارادے بہت آگے تک ہیں۔

دونگوآن کی معاشی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی بیورو کے مطابق پچھلے سال ستمبر سے اب تک ڈونگوآن میں تقریباً 505 فیکٹریاں روبوٹ ٹیکنالوجی میں430 ملین یورو کی سرمایہ کاری کر چکی ہیں۔ یہ فیکٹریاں اپنے 30,000 سے زیادہ مزدوروں کو روبوٹ سے تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔

ایپل فون جیسی مصنوعات بنانے والی فاکس کان کا بھی روبوٹ کی فوج بنانے کا منصوبہ ہے لیکن اتنی زیادہ بنیادوں پر نہیں۔ کمپنی اگلے پانچ سالوں میں اپنے تقریباً 30 فیصد عملے کو روبوٹ سے تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
صحافی


اگر آپ نے حال ہی میں فوربز پر کوئی کارپوریٹ منافع کی رپورٹ یا پھر خبر رساں ادارے اے پی کی کھیل کے بارے میں کوئی رپورٹ پڑھی ہے تو ممکن ہے کہ وہ کسی روبوٹ نے لکھی ہو۔

نیریٹو سائنس جیسی کمپنیوں نے کویل کی طرح کا ایک سافٹ ویئر متعارف کروایا ہے جو مختلف ویب سائٹس سے اعدادوشمار اٹھا کر اسے ایک قابل فہم شکل میں تبدیل کردیتا ہے۔

نیریٹو سائنس کے چیف سائنس دان کرسٹین ہامونڈ پہلے ہی کہ چکے ہیں کہ اگلے 15 سالوں میں 90 فیصد خبریں مشینوں کے ذریعے لکھی جائیں گی لیکن انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 90 فیصد صحافیوں کی نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا ’اس کامطلب یہ ہےکہ صحافی اپنی پہنچ تیز کر سکتے ہیں کیونکہ خبرون کی دنیا کا احاطہ وسیع ہوجائے گا۔‘
طبی ماہرین


ایک روبوٹ شاید بہت اچھا تیمار دار ثابت نہ ہو لیکن وہ اس قابل ضرور ہوگا کہ ایک وسیع اعداد و شمار کے سمندر سے وہ معلومات نکال لائے جو کسی خاص بیماری کے علاج میں مدد فراہم کر سکے۔

آئی بی ایم کا سپر کمپیوٹر واٹسن امریکہ کے متعدد ہسپتالوں کے ساتھ مل کر ان کو مشورے فراہم کر رہا ہے جو سرطان کے علاج میں بہترین ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان مشینوں کے ذریعے جلد کے سرطان کی ابتدائی مراحل میں ہی تشخیص کر لی جائے گی۔

روبوٹس کافی عرصے سے ڈاکٹروں کی عمل جراحی میں مدد کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر گے اینڈ سینٹ تھامس این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ میں روبوٹ ’کی ہول‘ کے ذریعے کی جانے والی گردے کی سرجری میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسے آپریشنوں میں تیزی اور پھرتی بہت معنی رکھتی ہے اور روبوٹ عطیہ کیے جانے والے گردے کو مریض کے جسم کی نالیوں کی ساتھ انسان کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔

روبوٹک سرجری میں بھی نقائص رہ جاتے ہیں اور ایک حالیہ سروے کے نتائج کے مطابق پچھلی دہائی میں مشینوں کے ذریعے کی جانے والی سرجری میں 144 اموات ہوچکی ہیں۔

فی الحال طب کے شعبے میں روبوٹ اور انسان ساتھ ساتھ کام کر رہے ہیں لیکن ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا۔

جیری کیپلان اپنی کتاب ’انسانوں کی ضرورت نہیں ہے‘ میں لکھتے ہیں ’طبی ماہرین اتنی آسانی سے اپنے مریضوں کے علاج کی ذمہ داری ان نقلی عقل رکھنے والے روبوٹ کو نہیں سونپ سکتے۔‘

لیکن کبھی کبھار جب بہتر انتخاب کی بات آتی ہے تو مریض کام کے بوجھ تلے دبے ہوئے ڈاکٹر سے زیادہ ایک چاقو چوبند روبوٹ کی خواہش کرتے ہیں۔
کاک ٹیل ویٹر


رائل کیریبئن کے پر آسائش بحری جہاز اینتھیم آف دی سی نے حال ہی میں ایک روبوٹ سے چلنے والی بار لگائی ہے۔ یہ مشین ایم آئی ٹی میں کچھ سال پہلے تخلیق کی گئی تھی۔

اس بار میں لوگ ایک کمپیٹر ٹیبلیٹ کے ذریعے مشروبات کا آرڈر دیتے ہیں اور اگر آپ زیادہ ہوشیار ہیں تو آپ اس میں درج مینو کے علاوہ اپنی پسند کا کاک ٹیل بھی آرڈر کر سکتے ہیں۔

ایک روبوٹک بازو اس کاک ٹیکل کو یکجا کرکے ایک پلاسٹک کے گلاس میں ڈال دیتا ہے۔

بی بی سی نے یہ فرق جاننے کے لیےدو روبوٹ اور دو روایتی ویٹر کے بنائے ہوئے کاک ٹیل کا موازنہ کیا۔ روبوٹ کے بنائے ہوئے کاک ٹیل ذائقے میں اتنے اچھے نہیں تھے کیونکہ وہ اپنے گاہکوں کو روایتی بار ٹینڈر کی طرح مشروب کو ایک اچھوتا ذائقہ دینے کے لیے اس پر لیموں چھڑکنے سے قاصر تھے۔
لائف اے بیچ


اگر ہمارے کام روبوٹ نے ٹھیک کام کرنا شروع کر دیے تو ہمارے پاس زیاد فارغ وقت ہوگا۔

لیکن اس سے یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ اگر روبوٹ نے انسانوں کے کام کرنا شروع کر دیے تو کیا انسانی صلاحیتوں کی ضرورت نہیں رہے گی؟

رائز آف دی روبوٹس کےمصنف مارٹن فورڈ کا خیال ہے کہ اگر ہم نے لوگوں کو بنیادی تنخواہوں جیسی آمدنی کی ضمانت دی تو ہم بیروزگاری اور معاشی گراوٹ کے ایک بہت بڑے مسئلے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

لیکن جب انسانوں کے پاس بے حساب فارغ وقت ہوگا تو وہ کیا کریں گے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ زیادہ تر وقت سمندر کے کنارے گزاریں گے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ کام کے مقامات پر انسانوں کا ہونا بھی ضروری ہے ۔

برسٹل یونیورسٹی کے پروفیسر نیلو کرسٹیانی کا کہنا ہے ’مجھے قوی امید ہےکہ استاد، ڈاکٹر اور وکیل کو روبوٹ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان شعبوں میں اکثر آپ کو کسی انسان سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours