دوسری سالانہ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کا ہر تیسرا فرد غذائی کمی کا شکار ہے اور یہ مسئلہ کسی ایک ملک کا نہیں بلکہ ہر ملک اس کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ رپورٹ 22 ستمبر کو نیویارک میں شائع کی جائے گی اور اس میں کہا گیا ہے کہ بہتر غذائیت تبدیلی میں معاون اور کم غذائیت ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے موثر طریقے دستیاب ہیں لیکن وسائل اور صلاحیتوں کی کمی یا سیاسی دباؤ کی وجہ سے ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ کے مصنف اور انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر محقق لارنس ہداد کا کہنا ہے کہ اگر ہر تین میں سے ایک فرد کمزور ہوگا تو ہم خاندانوں، آبادیوں اور معاشروں کے طور پر ترقی نہیں کر سکتے۔ ’اس سے نہ صرف غذائی کمی کے شکار افراد کی زندگی خطرے میں پڑتی ہے بلکہ وسیع تر دیرپا معاشی ترقی پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غذائی کمی کو پورا کیے بغیر افراد اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کر سکتے۔ رپورٹ میں بچوں میں وزن کی کمی اور نشوونما کے مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے 16 کروڑ سے زائد بچے اپنی عمر کے لحاظ سے چھوٹے یا کم وزن کے حامل ہیں جبکہ پانچ کروڑ سے زائد بچوں کا وزن ان کے قد کی مناسبت سے کم ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے سینٹر آف ایکسیلینس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی ڈائریکٹر ذوالفقار بھٹہ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ ممالک میں غذائی کمی کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، بالخصوص پاکستان میں جہاں ماؤں اور بچوں میں غذائیت کی کمی اور موٹاپا ایک مستقل اور دوہرا مسئلہ ہے ۔

نیوٹریشن رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں غذائی کمی کو ختم کرنے کی عالمی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ ماحول میں آنے والے معمولی اور موسمی تغیرات بھی غذا کی دستیابی اور امراض کے پھیلاؤ پر ایسے اثرات ڈال سکتے ہیں جن کی وجہ سے بچوں کی بقا اور نشوونما پرخطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ کے صحرائی علاقے تھر میں مسلسل قحط سالی کی وجہ سے بچوں اور ماؤں میں غذائیت کی کمی ہوگئی ہے، جس کے باعث گزشتہ ایک سال میں 1000 سے زائد بچوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ کے مطابق کینیا واحد ملک ہے جو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے پانچوں غذائی اہداف کے حصول کی راہ پر گامزن ہے جبکہ پاکستان کا شمار ان 20 ممالک میں ہوتا ہے جو صرف ایک ہدف حاصل کر پائے ہیں۔ گلوبل نیوٹریشن رپورٹ کا اجرا اس وجہ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اسی مہینے کے اواخر میں اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں پائیدار ترقی کا منصوبے یعنی سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز (ایس ڈی جیز) پر عمل درآمد کا عہد کر رہی ہیں۔ غذائیت کی کمی ان میں سے بہت سے مجوزہ اہداف سے جڑی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں جب پانچ سال سے کم عمر 45 فی صد بچوں کی اموات غذائی کمی کے باعث ہورہی ہوں تو ضروری ہے کہ فیصلہ سازی کرتے وقت عالمی رہنما اس مسئلے کو سرفہرست رکھیں۔



ایس ڈی جیز کا دوسرا ہدف بھوک کا خاتمہ، خوراک کے تحفظ کا حصول، بہتر غذائیت اور دیرپا زراعت کا فروغ ہے۔ رپورٹ کے مطابق2030 تک رکن ممالک اس ہدف کو حاصل کرسکتے ہیں تاہم اس کے لیے انھیں سیاسی عہد، خوراک کے موجود ہ نظام میں تبدیلی، نئے شراکت داروں خاص طور پر نجی شعبے کی شمولیت، اعداد وشمار میں خلا کی نشاندہی اور احتساب کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کے سینٹر آف ایکسیلینس ان ویمن اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے بانی ڈائریکٹر ذوالفقار بھٹہ کا کہنا ہے کہ ایس ڈی جیز کی مدد سے حکومت پاکستان اور سیاسی رہنماؤں کو غذائیت کا قومی ایکشن پلان مرتب کرنے میں مدد ملے گی۔




Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours