چین میں کی جانے والے ایک تحقیق کے مطابق روزانہ 40 منٹ باہر کھیل کھود میں گزارنا بچوں کی دُور کی نظر کی کمزوری یا مایوپیا کی شرح کو گھٹانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے لیے چھ سکولوں کو تین برسوں تک اس طریقے پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا گیا ا اور اس کے فائدہ مند نتائج سامنے آئے۔

جاما میں آنے والے نتائج اس نظریے کی حمایت کرتے ہیں کہ بچوں کو’قریب سے دیکھنے والے کام‘ جیسے مطالعہ اور دور سے دیکھنے والی سرگرمیوں میں توازن پیدا کرنا ہو گا۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ مایوپیا یا دُور کی نظر کی کمزوری اب بہت عام ہوچکی ہے لیکن اس کا سبب اب بھی معلوم نہیں ہوسکا۔

خیال رہے کہ دُور کی نظر کی کمزوری یا مایوپیا سے برطانیہ میں ہر تین میں سے ایک شخص متاثر ہے اور روز بروز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مایوپیا میں آنکھ نارمل انداز میں توجہ مرکوز نہیں کرپاتی اور فاصلے پر موجود کوئی بھی چیز دُھندلی نظر آتی ہے۔

یہ موروثی بیماری ہوتی ہے لیکن اس میں ماحولیاتی عوامل بھی شامل ہوتے ہیں جیسے کمپیوٹر پر یا مطالعے کے دوران بہت زیادہ وقت صرف کرنے سے بھی نظر کمزور ہو سکتی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ کیا کسی شخص کا ماحول تبدیل کردینےسے مایوپیا (کوتاہ نظری) کے خدشات کم ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

ڈاکٹر مینگوانگ اور ان کے ساتھیوں نے جانچ کے لیے چین کے 12 پرائمری سکولوں کو تین سالہ طویل تحقیق میں شامل کیا۔

چھ سکولوں کو ہر روز میدان میں کھیلنے کے لیے 40 منٹ کے لازمی سیشن ترتیب دینے کے لیے کہا گیا جبکہ دیگر چھ سکولوں کو معمول کی کلاسوں میں ہی مصروف رہنے کے لیے کہا گیا۔

بچوں اور ان کے والدین کو بھی ہفتے کے اختتام پر پورے ہفتے باہر کھیل میں گزارے گئے اوقات سے متعلق ڈائری بنانے کی ہدایت دی گئی۔

اس کے بعد تحقیق کاروں نے سکول کے بچوں میں مایوپیا کی علامات کی جانچ شروع کی۔ اندراج میں ہر گروپ میں شامل دو فیصد سے کم بچوں کو مایوپیا یا دُور کی نظر کی کمزوری کا مسئلہ درپیش تھا۔

مطالعے کے دوران معمول کی سرگرمیاں انجام دینے والے گروہ سے تعلق رکھنے والے 853 میں سے 259 بچے یعنی 30 فیصد بچوں میں جبکہ دوسرے گروہ میں 40 فیصد بچوں کی آنکھوں کے معائنے کے دوران 0.5 کی انعطافی کمی کی تشخیص ہوئی۔

محقیقین کے مطابق اگرچہ تناسب کا یہ فرق بہت زیادہ نہیں ہے لیکن یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اور اگر آپ دوسرے عوامل جیسے خاندان میں مایوپیا کے مسئلے کی موجودگی کو بھی دیکھیں تو یہ اہم ہے۔

جاما کے محققین کاکہنا ہے کہ’طبعی طور پر یہ بہت اہم ہے کیوں کہ چھوٹے بچے جنھیں ابتدائی عمر میں ہی مایوپیا کا مسئلہ ہوجاتا ہے ان میں اس کے بڑھنے کا بہت امکان ہوتا ہےاور ان میں پیتھا لوجیکل مایوپیا کے خدشات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ جبکہ بڑے بچوں میں تاخیر سے مایوپیا کے آغاز سے ان کے آگے بڑھنے کے عمل میں تیزی آتی ہے اور اس سے انھیں آنکھ کی صحت کے حوالے سے طویل مدتی فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔‘

اسی تحقیقی جرنل کے ایک اداریے میں جان ہوپکنز یونیورسٹی کے مائیکل ریپکا کہتے ہیں کہ ان نتائج کی تصدیق اور ان کو سمجھنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ہوگا کہ باہر گزارے جانے والے مقررہ وقت میں سے کتنا وقت’قریب سے‘ کی جانے والی سرگرمیوں پر صرف کیا جارہا ہے یا یہ کہ دن کی زیادہ روشنی آنکھ کی نشوونما اور اس کے فعل میں مددگار ثابت ہوتی ہے یا نہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours