کراچی : پیچھے کی نشست پر ایک مشین گن کے ساتھ ایکسیلیٹر پر پاؤں اور آنکھوں پر ٹاپ گن اسٹائل کے سن گلاسز جمائے اظفر محشر کراچی کے ' طالبان زدہ علاقوں میں سے ایک کے قلب میں داخل ہوتے جارہے ہیں۔قدرے فربہ پولیس اہلکار نے فخر سے کہا " یہ کبھی جنگ کا میدان تھا مگر ہم نے اسے آزاد کرالیا ہے"۔دو کروڑ سے زائد افراد کے شہر کراچی میں گزشتہ چند برسوں کے دوران ہر ایک کی زبان پر ایک لفظ بہت زیادہ سننے میں آیا جو تھا " طالبانائزیشن"۔اگر پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کی چٹانیں عسکریت پسند گروپ کے لیے کھیل کا میدان تھا تو پاکستان کا اقتصادی حب ان کے لیے پناہ گاہ اور کمانے کا ٹھکانہ تھا۔طالبان عسکریت پسند کراچی کے ان علاقوں میں داخل ہوئے تھے جہاں پشتونوں کی اکثریت تھی اور انہوں نے " نو گو زون" قائم کردیے تھے، جبکہ مقامی آبادی کو بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے ذریعے دہشت زدہ کیا گیا تھا۔مگر اب حکام کا کہنا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہے، سابق فوجی سے کراچی کے سب سے خطرناک سمجھے جانے والے مغربی حصے میں کام کرنے والے سنیئر پولیس افسر بننے والے اظفر محشر بتاتے ہیں " کراچی میں طالبانائزیشن اپنی موت آپ مرچکی ہے اور میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ اب کراچی میں کچھ طالبان تو موجود ہوسکتے ہیں مگر اب وہ اس طرح کی طاقت نہیں رکھتے جیسی ایک سال قبل یا اس سے پہلے ان کو حاصل تھی"۔

آج پولیس اہلکار بلٹ پروف جیکٹیں پہن کر شہر کی مغربی سرحد کے پہاڑیوں اور گڑھوں والی گلیوں پر مشتمل باقی ماندہ " نو گو زونز" کے اندر پیش قدمی کررہے ہیں۔ایک ڈھے جانے والے چھپر کے سامنے کھڑے ایک اہلکار نے کہا " یہ مقامی طالبان کا ہیڈ کوارٹر تھا"۔تحریک طالبان پاکستان 2007 میں اپنی تشکیل کے بعد سے ملک کے عوام کی سب سے بڑی دشمن رہی ہے۔گزشتہ سال دسمبر میں اس گروپ نے اپنا سب سے بڑا حملہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں کیا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔ٹی ٹی پی نے اسے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا انتقام قرار دیا تھا۔اس کے جواب میں حکومت نے پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کو طالبان کے زیر اثر علاقوں میں کارروائی کی اجازت دی، جس کے دوران سینکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا۔

ایک کارروائی میں شامل پولیس افسر نے بتایا " پشاور واقعہ نے دنیا کی آنکھیں کھول دیں، ہمیں کارروائی کرنا تھی چاہے اس کے لیے کوئی نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے"۔ایسا اس وقت ہورہا تھا جب فوج شمالی وزیرستان میں کامیابیاں حاصل کررہی تھی، وہیں سے کراچی کے طالبان کو احکامات موصول ہوتے تھے۔کراچی کی سیکیورٹی کے ایک ماہر ضیاءالرحمان کا کہنا تھا " کراچی اور میران شاہ کے درمیان رابطے کٹنے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہر کے پشتوں حصوں کو محفوظ اور عسکریت پسندی سے صاف کرنے میں مدد ملی"۔طالبان جنگجو پڑوسی ملک افغانستان میں پناہ لینے کی کوشش کررہے ہیں اور پاکستان میں ایک دہائی کے بعد تشدد کی شرح سب سے کم دیکھنے میں آئی ہے۔

کراچی کے علاقے منگھو پیر کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ طالبان کی بھتہ خوری اور غنڈہ گردی اب لگ بھگ ماضی کا قصہ بن چکی ہے اور یہاں کاروباری سرگرمیاں زور پکڑنے لگی ہیں۔صوفی بزرگ پیر حاجی منگھو کے مزار کے سامنے ایک معمر خاتون فاطمہ نے بتایا " اللہ کا شکر ہے کہ طالبان چلے گئے، ان کی موجودگی سے لوگ اتنے ڈر گئے تھے کہ بازاروں تک بھی نہیں جاتے تھے"۔طالبان نے اس مزار پر 2014 میں حملہ کیا تھا جہاں ایک تالاب میں درجنوں مگرمچھ موجود ہیں۔مگرمچھوں کے رکھوالے خلیفہ سجاد کے مطابق "جب طالبان نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھالا ہوا تھا تو ان مگرمچھوں کو بمشکل کچھ کھانے کو ملتا تھا، مگر اب لوگ واپس آرہے ہیں اور انہیں گوشت پیش کررہے ہیں"۔جماعت اسلامی ویسٹ کراچی کے سربراہ عبدالرزاق خان طالبان کے خلاف آپریشن کو سراہتے ہیں " اللہ جانتا ہے کہ وہ کہاں غائب ہوئے، ہوسکتا ہے وہ یہی چھپے ہوئے ہوں یا وہاں واپس چلے گئے ہو جہاں سے آئے تھے، یہ ایک غیر حل شدہ سوال ہے"۔تاہم ان کا اب بھی ماننا ہے کہ خود کو طالبان ظاہر کرنے والے جرائم پیشہ عناصر اس گروپ سے زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔

مگر اے این پی کے ایک عہدیدار رؤف خان جو گزشتہ سال اپریل میں ایک قاتلانہ حملے میں بال بال بچے تھے، کے خیال میں حالات میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ان کے بقول " اب ہم ذہنی طور پر زیادہ آزاد ہیں، ایسا پندرہ یا بیس سال پہلے محسوس نہیں ہوتا تھا، گزشتہ روز میں سینما گیا اور رات گئے گھر واپس آیا، میں نے ایسا برسوں سے نہیں کیا تھا"۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours