چرس صرف ایک ایک گرام کے وزن کے بند لفافوں میں فروخت کی جا سکے گی
امریکی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا میں قبائلی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ علاقے میں ایک جگہ بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں جو امریکہ میں اپنی نوعیت کی ایسی پہلی جگہ ہو گی جہاں سیاح کھلے عام چرس کا استعمال کر سکیں گے۔

چار سو باشندوں پر مشتمل ’سانتی سیوکس‘ قبیلہ پہلے ہی ساوتھ ڈکوٹا کے مذکورہ علاقے میں ایک جواخانہ، ایک ہوٹل اور جانوروں کا ایک باڑہ چلا رہا ہے اور قبیلے کو امید ہے کہ چرسیوں کی مجوزہ آماجگاہ یا چنڈو خانے سے ان کے موجودہ کاروبار میں ایک اچھا اضافہ ہو گا جس سے وہ مزید منافع کما سکیں گے۔

اس امریکی ریاست میں میریوانا یا چرس کا استعمال غیر قانونی ہے تاہم اس سال جون میں مقامی قبیلے کو بھنگ کاشت کرنے اور اسے فروخت کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ بھنگ سے چرس اور دوسرے نشہ آور مادے تیار کیے جاتے ہیں۔

مجوزہ چنڈو خانہ یا ’میروانا ریزورٹ‘ آئندہ سال کے پہلے دن یعنی نیو ایئر کی شام کھول دیا جائے گا اور مقامی قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ چرس صرف اسی سیرگاہ یا ریزورٹ پر فروخت کریں گے۔

قبائلی نمائندوں کا کہنا ہے وہ خود چرس اپنے کھیتوں میں اگائیں گے جسے صرف اس سیرگاہ پر آنے والے سیاحوں میں فروخت کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ سیرگاہ پر قائم لاؤنج میں کھیلوں کی سہولت، کھانے پینے کی اشیاء اور شراب بھی دستیاب ہو گی اور پھر بعد میں یہاں جُوا کھیلنے کی مشینیں اور موسیقی کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔قبیلے کے صدر انتھونی ریڈر کے بقول ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ جگہ بالغوں کے کھیلوں کے لیے مختص کی جائے۔ امریکہ بھر میں ایسی اور کوئی جگہ نہیں ہے جہاں یہ تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔‘

قبائلی نمائندوں کا اندازہ ہے کہ اس سیرگاہ سے قبیلے کو 20 لاکھ ڈالر ماہانہ تک کی آمدنی ہو گی۔

قبیلے نے اس وقت ایک فیکٹری میں بھنگ کاشت کر رکھی ہے اور لوگوں کو امید ہے کہ ان کی یہ فصل فروخت کے لیے 31 دسمبر کی رات کو نیو ایئر کے جشن کے موقع پر تیار ہو گی۔

ریاست ساؤتھ ڈکوٹا کے محکمۂ انصاف نے حال ہی میں ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے جس کے تحت قدیم مقامی قبائل کو اسی طرح چرس کاشت اور فروخت کرنے کی اجازت ہو گی جس طرح سنہ 2014 میں ریاست کولاراڈو اور کئی دیگر امریکی ریاستوں کے قبائل کو یہ اجازت دے دی گئی تھی۔

بھنگ کی کاشت اور فروخت کی اجازت کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل پر یہ پابندی ہے کہ وہ چرس کم عمر افراد کو فروخت نہیں کر سکتے اور نہ ہی سرکاری زمین پر اسے کاشت کر سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ چرس صرف ایک ایک گرام کے وزن کے بند لفافوں میں فروخت کی جا سکے گی اور ہر پیکٹ کی قیمت ساڑھے 12 ڈالر ہو گی، اور کوئی شخص ایک وقت میں ایک سے زیادہ لفافے نہیں خرید سکے گا۔

قبیلے کے صدر انتھونی ریڈر کے بقول ’ قبیلے کو اس طرح کے ذرائع آمدن کے موقعوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ اپنے ماضی کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے حال کو بھی بہتر کرنا ہے۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours