نائجیریا کے حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم بوکوحرام کو جلد شکست ہو جائے گی لیکن خود کو دولت اسلامیہ کہلانے والی تنظیم کے ساتھ تعلقات کا مطلب ہے کہ شاید اِس کے جنگجو پڑوسی ممالک میں چلے جائیں۔

حالیہ چند ہفتوں میں نائجیریا کی فوج بوکو حرام کے خلاف جنگ کے حوالے سے اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کافی کوششیں کر رہی ہے۔

فوج کا کہنا ہے اُنھوں نے جہادیوں کو گھیر لیا ہے اور تنازع جلد اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے۔ یہ وہی موقف ہے جو صدر محمد بوہاری کی جانب سے دیا گیا ہے کہ نومبر کے وسط تک بحران ختم ہوجائے گا۔

بوکو حرام کے ترجمان ابوبکر شیکاو نے فروری سے کوئی ویڈیو بیان جاری نہیں کیا ہے جب اُنھوں نے انتخابات میں خلل ڈالنے کی دھمکی دی تھی۔

اِس مہینے اُن کی جانب سے ایک آڈیو پیغام میں انھوں نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے بیعت کا عہد کیا تھا۔

شیکاو نے ان کی ہلاکت کی خبروں کے بعد ایسا ہی ایک دوسرا آڈیو بیان بھی جاری کیا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے ان کے منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے فوج میں قیاس آرائیاں جنم لے رہی ہی کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں جو کہ فوج کئی موقعوں پر اِن کی ہلاکت کا دعویٰ کرچکی ہے۔

شیکاو کے منظر عام سے غائب ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوکو حرام جس کو شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا مغربی افریقی صوبہ بھی کہا جاتا ہے اب دولت اسلامیہ کے تنظیمی ڈھانچے سے مزید احکامات لے رہی ہے۔

حالیہ دنوں میں شیکاؤ کا منظر عام پر آنے اور نائجیریا کی حکومت کو ہلاکت کی خبر کے غلط قرار دینے کا موقع تھا۔

وزارت دفاع کے ترجمان کرنل ربی ابو بکر نے شیکاؤ کو ’غیر اہم‘ قرار دیتے ہوئے نائجیریا کے شہریوں کو کہا تھا کہ ’کمزور دہشت گرد کے آڈیو پیغام پر اپنی نیند برباد نہیں کریں۔ یہ معمول کی بات ہے کہ ایک ڈوبتا ہوا شخص اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کسی چیز کی تلاش میں ہے جس کو وہ تھام سکے۔

مجموعی طور پر اِس سال کے آغاز سے ہی بوکوحرام کی تشہیری مہم ماند پڑچکی ہے جب یہ لوگ سوشل میڈیا پر بیانات اور حملوں کی ویڈیوز شائع کرتے تھے۔

بوکوحرام کی جانب سے حالیہ ویڈیو ستمبر کے آخر میں عید کے موقع پر جاری کی گئی تھی۔ جس کا معیار بہت خراب تھا اور اِس میں جنگجو کو دکھایا گیا تھا لیکن اِس کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ یہ ویڈیو کتنی نئی یا پرانی ہے۔

اِس بات کو دو سال ہوگئے جب امریکہ نے شیکاو کے سر پر 70 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا لیکن نہ ہی وہ اور نہ اُن کی اعلیٰ قیادت کو اب تک ڈھونڈا جاسکا ہے۔

جب تک یہ کامیابی نہیں ملتی بوکو حرام کو دوبارہ سے بھرتیاں کرنے، مسلح ہونے، کام کرنے کے نئے طریقوں کے بارے میں سوچنے کا وقت مل جائے گا۔

جہادیوں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اپنے حملوں سے ضرب لگاتے رہیں گے چاہے حملے کم ہوں لیکن جان لیوا ہوں۔

حال ہی میں بوکو حرام نے بورنو کے دارالحکومت میڈیگری میں تین حملوں میں 100 سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔ یاد رہے کہ بورنو ہی میں اس تنظیم کا قیام 2002 میں ہوا تھا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours