یہ تصویر کمبوڈیا کے دارالحکومت پنوم پنہ کی ہے، جہاں کم سن لڑکیاں رقص سیکھ رہی ہیں
کمبوڈیا میں انسانوں کی تجارت کرنے والوں اور اس تجارت کا شکار ہو کر گوناگوں مصائب اور آلام کا سامنا کرنے والی کم عمر لڑکیوں کی داستان ’دی سٹورم میکرز‘ کے نام سے ایک نئی دستاویزی فلم میں بیان کی گئی ہے۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک تازہ جائزے میں کمبوڈیا کے شہریوں کے اس احساس کو بیان کیا گیا ہے کہ جب انسانوں کے تاجر کسی گاؤں میں پہنچتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ ایک طوفان اور آنسو لے کر آتے ہیں اور یہ کہ یہی تجربہ ’آیا‘ نامی لڑکی کو بھی ہوا، جسے سولہ برس کی عمر میں فروخت کر کے غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا اور جس کے لیے یہ تجربہ ناقابلِ فراموش ہے۔

اس لڑکی کی داستان کو پیر اکتیس اگست کو ریلیز ہونے والی فلم ’دی سٹورم میکرز‘ میں مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ یہ فلم بیک وقت فرانس اور کمبوڈیا کی شہریت رکھنے والے بتیس سالہ فلمساز گیوم سوؤن کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جو تین سال تک اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کمبوڈیا میں کیمرے اور مائیکروفون سے لیس ہو کر انسانی تاجروں اور انسانی تجارت کا شکار ہونے والی لڑکیوں کے حالات کو فلم بند کرتے رہے۔

اس فلم میں انسانی تجارت میں ملوث خفیہ گروہوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ اس فلم میں جہاں ایک طرف ’آیا‘ جیسی اُن لڑکیوں کی کہانی دکھائی گئی ہے، جو برسوں تک بیرونِ ملک غلامی کی زندگی گزارنے کے بعد وطن لوٹی ہیں، وہیں اس میں اُن لڑکیوں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جواپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے اور کچھ پیسہ کمانے کی امیدیں لیے اس انجانے سفر پر روانہ ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

اس فلم میں ایک انسانی تاجر پاؤ ہوئی کی کہانی بھی بیان کی گئی ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ اُس نے کمبوڈیا کی پانچ سو سے زیادہ لڑکیوں کو فروخت کیا لیکن کبھی پولیس کے ہاتھوں گرفتار نہیں ہوا:’’مَیں انتہائی غریب لوگوں کو اپنا نشانہ بناتا ہوں۔ ان لوگوں کو جال میں پھنسانا آسان ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ ان کی کسی کو ضروت نہیں ہوتی، یہ فیکٹریوں کے بھی کسی کام کے نہیں ہوتے، میرے البتہ یہ بہت کام کے ہوتے ہیں۔‘‘ اپنے اسی ’کاروبار‘ کے باعث یہ ایجنٹ ایک پُر تعیش زندگی گزار رہا ہے۔ دنیا بھر میں انسانوں کی تجارت کے کاروباری حجم کا تخمینہ 150 ارب ڈالر سالانہ لگایا گیا ہے۔

اس فلم سے یہ بات بھی واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ کمبوڈیا کو اس مسئلے کا کیوں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کمبوڈیا کے شہریوں کی تقریباً بیس فیصد تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے۔ اس غربت سے نکلنے کے لیے خاص طور پر کمبوڈیا کے دیہی علاقوں کے ہزارہا شہری تھائی لینڈ، تائیوان اور ملائیشیا کا رُخ کرتے ہیں جبکہ اب زیادہ سے زیادہ مشرقِ وُسطیٰ بھی جانے لگے ہیں۔

’آیا‘ کی عمر اب بیس برس سے کچھ زائد ہے، اُسے ایک گھریلو ملازمہ کے طور پر ملائیشیا میں فروخت کر دیا گیا تھا، جہاں سے وہ اب شمال مغربی کمبوڈیا کے صوبے باٹم بانگ میں واپس پہنچی ہے۔

’آیا‘ کے والدین معذور تھے اور کنبے کی کفالت نہیں کر سکتے تھے۔ ایسے میں ایک ایجنٹ نے اُن سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ’آیا‘ کو ملائیشیا میں ایک محفوظ ملازمت مل سکتی ہے، جہاں کام کر کے وہ اپنے گھر بھی پیسے بھیج سکے گی۔

ملائشیا میں ’آیا‘ کا واسطہ اپنے ایک ایسے مالک سے پڑا، جو اُسے بدسلوکی کا نشنہ بناتا تھا۔ وہ جس رات وہاں سے بچ کر بھاگی، اُسی رات وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بن گئی اور حاملہ ہو گئی۔

’کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے کہ اسے بیچ دوں‘، یہ الفاظ ’آیا‘ کی والدہ کے ہیں، جو وہ ’آیا‘ کے اُس ننھے بیٹے کے بارے میں کہتی ہے، جو پاس ہی ایک جھولے میں پڑا ہے۔ یہ خاتون اس بچے کو پسند نہیں کرتی کیونکہ اس کی صورت میں گھر میں ایک اور ایسے فرد کا اضافہ ہو گیا ہے، جس کا پیٹ بھرنا ہو گا۔

’آیا کہتی ہے کہ کاش وہ وہیں مر جاتی۔ اُسے بھی یہ بچہ پسند نہیں کیونکہ یہ اُس پُر تشدد جنسی زیادتی کی نشانی ہے، جس کا اُسے سامنا کرنا پڑا۔ ’آیا‘ کے مطابق جب کبھی اُسے اس بچے کے باپ اور اُس کے کرتوت یاد آتے ہیں، وہ اس بچے کو مارنے لگتی ہے۔ اب ’آیا‘ برتن مانجھتی ہے اور ایک ڈالر روزانہ کے عوض ایک زیرِ تعمیر عمارت پر اینٹیں ڈھونے کا کام کرتی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours