تیس برس پہلے آنیا پیدا بھی نہیں ہوئی تھی، جب چرنوبل کا خوفناک حادثہ پیش آیا تھا۔ لیکن حادثے کے شکار ہونے والے پلانٹ کے قریب رہنے والے نوجوان آج بھی تابکار مادے کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔

چرنوبل کا شمار دنیا کے بدترین ایٹمی حادثوں میں ہوتا ہے اور اس علاقے کے بچے اور نوجوان آج بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسی وجہ سے چمکتی آنکھوں والی سولہ سالہ آنیا دل اور سانس کی دائمی بیماری میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اس بیماری کی وجہ تابکار مادے کے وہ اثرات بنے ہیں، جو آج بھی آنیا کے گاؤں میں زیرزمین پانی، ہوا اور دیگر اشیاء میں پائے جاتے ہیں۔

اس دیہات کی آنیا اور دیگر نوجوانوں کو ہر موسم گرما میں اس آلودہ فضا کو چھوڑنے کا موقع اس وقت ملتا ہے، جب انہیں ’صاف فضا‘ میں سانس لینے کے لیے چھٹیوں پر پرتگال کے مغربی ساحل پر بھیجا جاتا ہے۔ چرنوبل حادثے سے تقریباﹰ پینتالیس کلومیٹر دور واقع سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر فرنینڈو پینو کا ایک تحقیقی مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا، ’’متاثرہ بچوں کے ’صاف فضا‘ میں ایک ماہ گزارنے سے ان کی زندگیوں میں ایک یا دو سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر فرنینڈو سن 2008 میں شروع ہونے والے ایک منصوبے ’بلُو سمر‘ کے سربراہ ہیں۔ اس منصوبے کے تحت علاقے کے متاثرہ بچوں کو ہر برس ایک ماہ کے لیے کسی نہ کسی’صاف فضا‘ والے مقام پر چھٹیاں گزارنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح یوکرائنی بچوں میں تابکار مادے کے اثرات کم ہو جاتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بھی بہتر ہو جاتا ہے۔ متاثرہ نوجوانوں کے لیے اسی طرح کے پروگراموں کا انعقاد بیلجیم، فرانس، جرمنی، آئر لینڈ، اٹلی اور سپین میں بھی کیا جاتا ہے۔ رواں برس چونتیس نوجوانوں کو اس پروگرام کے تحت پرتگال لایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ چرنوبل کے تباہ شدہ ايٹمی ری ايکٹر کے گرد کنکريٹ اور فولاد کا ایک غلاف بنایا گيا ہے اور اس نے اب تک انتہائی جان ليوا جوہری تابکار شعاعوں کو ری ايکٹر سے خارج ہونے سے روک کے رکھا ہوا ہے۔ کنکريٹ کا یہ غلاف تقریباﹰ تیس سال قبل کے شديد ايٹمی حادثے کے بعد تعمير کيا گيا تھا۔

آنیا چرنوبل کے مقام سے کوئی چالیس کلومیٹر دوری پر رہتی ہیں لیکن زیادہ تر وہی پھل اور سبزیاں کھاتی رہی ہے، جو مقامی سطح پر اگائی گئی تھیں۔ اسی وجہ سے اب یہ دل اور سانس کی دائمی بیماری میں مبتلا ہو چکی ہے۔ یاد رہے کہ اس حادثے کے بعد تیس کلومیٹر کے قطر میں دیہات خالی کروا لیے گئے تھے اور پچاس ہزار افراد کو یہ علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours