اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے رکن متعدد ممالک نے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے حق استرداد (ویٹو) کے استعمال کو محدود کرنے کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔فرانس کی اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ پانچ مستقل رکن ممالک نسل کشی اور قتل عام کے کیسوں میں سلامتی کونسل میں قراردادوں پر رائے شماری کے وقت اپنے ویٹو کے اختیار کو استعمال نہیں کریں گے۔

یورپ ،افریقا ،لاطینی امریکا اور براعظم ایشیا کے پچھہتر ممالک نے اس تجویز کی حمایت کی ہے۔فرانسیسی حکام نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ مزید ممالک بھی اس کی حمایت پر آمادہ ہوجائیں گے۔اس وقت اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی کل تعداد ایک سو ترانوے ہے۔

فرانسیسی وزیرخارجہ لوراں فابیئس نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام جیسی صورت حال کےخاتمے کے لیے مزید حمایت کا اظہار کیا جائے گا۔شام میں متحارب فورسز کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے باوجود اس ویٹو اختیار کی وجہ سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوئی اقدام نہیں کرسکی ہے اور وہ شام کے معاملے میں محض عضو معطل ہوکررہ گئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ''فرانس پہلے ہی یہ پختہ وعدہ کرچکا ہے کہ وہ قتل عام اور نسل کشی کی صورت میں اپنا حق استرداد استعمال نہیں کرے گا۔توقع ہے کہ دوسرے ممالک بھی فرانس کی پیروی کریں گے''۔تاہم سلامتی کونسل کے چار دوسرے مستقل ارکان امریکا ،چین ،برطانیہ اور روس نے ابھی تک اس فرانسیسی اقدام پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

حق استرداد (ویٹو) کے اختیار کو محدود کرنے سے متعلق فرانس کے تیارکردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ''ہم سمجھتے ہیں کہ سلامتی کونسل کوقتل عام جیسی صورت حال کے خاتمے کے لیے قرارداد کو ویٹو کا اختیار استعمال کرکے مسترد نہیں کردینا چاہیے۔ہم اس امر کی ضرورت پر بھی زور دیں گے کہ ویٹو کوئی امتیازی سہولت نہیں ہے بلکہ ایک بین الاقوامی ذمے داری ہے''۔

روس اور چین نے شام سے متعلق قراردادوں کی سلامتی کونسل میں منظوری کو رکوانے کے لیے چار مرتبہ اپنا حق استرداد استعمال کیا تھا اوریوں اس کو کسی اقدام سے روک دیا تھا۔ان میں تین قراردادوں میں شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب پر پابندیوں کی دھمکی دی گئی تھی اور ایک قرارداد میں شام میں انسانیت مخالف جرائم اور جنگی جرائم کا معاملہ ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت میں بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ میں متعین سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ نے اس اقدام کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اس پر مثبت انداز میں غور کررہا ہے جبکہ روس اور چین دونوں کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours