سیاست دانوں کے ڈلیٹ کر دیے جانے والے ٹویٹس کو محفوظ کرنے کے ایک پراجیکٹ کے بانی نے اپنے اکاؤنٹ کے بند کیے جانے پر ٹوئٹر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

تاہم انھوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ جو کام کر رہے تھے وہ نٹورک کے اصول کے منافی تھا۔

ٹوئٹر کے اس قدم سے عوام کے خادم کہلانے والے سیاست دانوں کی جانچ کے پروجیکٹ کو دھچکہ لگا ہے۔ ٹوئٹر نے پولٹ ووپس (Politwoops) نامی 31 اکاؤنٹس کو بند کر دیا ہے۔ یہ لوگ ایسے سیاست دانوں کی عادات اور حرکات و سکنات پر نظر رکھتے تھے جو اپنے پوسٹ ڈلیٹ کر دیا کرتے تھے۔

وہ ایسا ایک چالاک سافٹ ویئر کے ذریعے کیا کرتے تھے جو ان سیاست دانوں کے ٹویٹس پر نظر رکھتا اور یہ بتاتا کہ اسے کب ڈلیٹ کیا گیا۔ اس کے بعد پالٹ ووپس نامی سافٹ ویئر ان کو از خود ٹویٹ کر دیتا معنوں ڈلیٹ بٹن کے برعکس وہ کام کرتا تھا۔

ٹوئٹر کا کہنا ہے کہ ’پولٹ ووپس ان کے قواعد کی خلاف ورزی‘ کر رہا تھا اور ’سیاست دانوں کے خلاف جاتا تھا۔‘

خیال رہے کہ ٹوئٹر پر کسی کو کسی بھی وجہ کے تحت اپنے پوسٹ ہمیشہ کے لیے ڈلیٹ یا ختم کرنے کی شروع سے ہی آزادی رہی ہے۔

کمپنی نے ایک بیان میں اپنے صارفین کے لیے ہمیشہ سنجیدہ رہنے اور ان کی قدر کرنے کی بات کہی ہے جبکہ نیدر لینڈ میں ووپس سائٹ شروع کرنے والے اوپن سٹیٹ فاؤنڈیشن کے بانی ارجن الفساد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ٹوئٹر کے اقدام کو ’جلد بازی سے تعبیر کیا۔

انھوں نے کہا: ’ہم سیاست دان اور منتخب نمائندوں اور عام صارفین کے فرق کو سمجھتے ہیں۔ ہر چند کہ یہاں ڈلیٹ کا بٹن ہوتا ہے لیکن جب وہ کسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہیں تو وہ اس کے بعد اسے ڈلیٹ نہیں کر سکتے لیکن اپنے پیغام کو ڈلیٹ کرکے آپ کچھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ آپ کی سوچ یا پالیسی میں تبدیلی لانے کے لیے کوئی سکینڈل نہیں بلکہ آپ کو اپنے بارے میں کھلے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘

خیال رہے کہ پولٹ ووپس نے سیاسی دنیا میں کئی بار تہلکہ مچایا ہے۔ نیدر لینڈ کے پارلیمان کو ایک ڈلیٹ کیے ہوئے ٹویٹ کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

افغانستان میں طالبان کی قید سے آزاد ہونے والے امریکی فوجی بووی برگڈال کے بارے میں ٹویٹ پر چھ امریکی سیاست دانوں کے ٹویٹ کو پولٹ ووپس نے اٹھا لیا تھا۔ خیال رہے کہ پہلے برگڈال کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور ان لوگوں نے اپنے ٹویٹ سے اس کی حمایت کی تھی لیکن اب جبکہ ان کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے تو ان لوگوں نے اپنے ٹویٹ ڈلیٹ کر دیے۔

اب جبکہ ٹوئٹر بہت مقبول ہو چکا ہے ایسے میں عام لوگ بھی سیاست دانوں کے ٹویٹس میں بہت دلچسپی لیتے ہیں اور ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آيا سیاست دانوں کو اپنے ٹویٹس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کی اجازت ہونی چاہیے؟
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours