شام کے صدر بشارالاسد کا کہنا ہے کہ انھیں اس بات کا یقین ہے کہ انھیں حلیف ممالک، ایران اور روس کی حمایت اب بھی حاصل ہے۔
شام کے چار سالہ تنازعے کو حل کرنے کے لیے نئے سرے سے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے بعد قیاس آرائی کی جا رہی ہے کہ بحران کے حل تک پہنچنے کے لیے بشارالاسد کو صدارت سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن بشار الاسد کا کہنا ہے کہ روس اور ایران نے اپنے دوستوں کا ساتھ نھیں چھوڑا ہے۔
دریں اثنا فرانس کا کہنا ہے کہ تنازعے کے خاتمے کے لیے شامی رہنما کی ’طاقت کا خاتمہ‘ ضروری ہے۔
فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کا کہنا ہے ’ ہمیں شدت پسندی کو کم کرنے کے لیے اسد کو ہٹانا ہوگا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں۔‘
دوسری جانب ایران اور روس اس بات پر مصر ہیں کہ مسئلے کے سیاسی حل کے لیے بشارالاسد کو شامل کرنا ضروری ہے۔
حال ہی میں ایران اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے کے بعد شام کے تنازعے کے حوالے سے سفارتی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
حزب اللہ کے زیراثر چلنے والے لبنانی ٹیلی وژن سٹیشن، المنار سے گفتگو کرتے ہوئے بشارالاسد کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی اہم پیش رفت ہوتی نظر نھیں آرہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تنازعے کا حل صرف اُس وقت ممکن ہو سکے گا جب باہر کی دنیا ’شدت پسندی‘ کی حمایت کرنا بند کردے گی۔ شدت پسندی کی اصطلاح وہ حزب اقتدار کی سرگرمیوں اور منظم مسلح جنگجوؤں کے بارے میں استعمال کرتے رہے ہیں۔
بیروت میں بی بی سی کے نامہ نگار، جم میور کہتے ہیں اگرچہ کہ اسد کی فوج کو سخت مشکلات کا سامنا ہے لیکن اسد کی بیان کردہ صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
شام کا تنازع 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں کی صورت میں شروع ہوا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ یہ تنازعہ کثیرالجماعتی ہونے کے ساتھ خونی شکل بھی اختیار کر گیا جس میں اب تک ڈھائی لاکھ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سفارتی نمائندے سٹیفان ڈی مسٹورا، نے باضابطہ امن مذاکرات کی جانب بڑھنے کے لیے اہم جماعتوں کے درمیان مشاورت کی تجویز پیش کی ہے۔
دوسری جانب اپنے انٹرویو میں اسد، اقوام متحدہ کے سفیر کو جانبدار قرار دے چکے ہیں۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours