وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کے لیے ’پرامن بلوچستان‘ نامی منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔

بدھ کو وزیراعظم نے کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں ان کی سربراہی میں ایپکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔

وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک اعلامیہ کے مطابق اس اجلاس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان، گورنر بلوچستان محمود خان اچکزئی، وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اور سیفران منسٹر عبدالقادر بلوچ شریک تھے۔

وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاک چین راہداری منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ بلوچستان کو حاصل ہوگا اور یہ پاکستان کی مستقبل کی ترقی کا گڑھ ہو گا۔ اس موقعے پر انھوں نے گوادر پورٹ سٹی اور گوادر پورٹ کو معاشی مرکز بنانے کا عہد کیا۔

وزیراعظم کی جانب سے بدھ کو بلوچ رہنماؤں کو واپس قومی دھارے میں لانے کے لیے پرامن بلوچستان منصوبے کی منظوری تو دی گئی ہے۔

خیال رہے کہ جون میں بھی بلوچستان کی اپیکس کمیٹی نے کہا تھا کہ جو نوجوان ریاست کے خلاف مسلح کارروائی ترک کرنے کا یقین دلائیں ان کو عام معافی دی جائے گی۔

اس حکومتی پیشکش کو فوج کے سربراہ کی تائید بھی حاصل تھی، لیکن اسے بلوچستان میں آزادی پسند تحریک کے سب سے متحرک دھڑے بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے مسترد کر دیا تھا۔

ایک انٹرویو میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچوں کے ہتھیار ایک فکر اور نظریے کے پابند ہیں۔

ادھر برطانیہ میں مقیم خان آف قلات میر سلیمان داؤد نے گذشتہ ماہ بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ بلوچستان میں جاری شورش میں دونوں جانب سے برف پگھلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی پاکستان واپسی کے لیے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو تین شرائط بھیجی ہیں جن میں بلوچستان میں لاشوں کا سلسلہ بند ہونا، چادر اور چاردیواری کا احترام اور فوجی آپریشن کا خاتمہ شامل ہیں۔

رواں سال جون میں ہی بلوچستان کے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے بلوچستان لبریشن آرمی کے دو فراری کمانڈروں نے 57 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

تاہم بی ایل ایف اور لشکر بلوچستان کے ترجمانوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے کمانڈروں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours