موبائل فون کمپنی سام سنگ، ایل جی اور گوگل نے عہد کیا ہے کہ وہ اینڈروئڈ کے آپریٹنگ سسٹم پر چلنے والے سمارٹ فونز کے لیے ماہانہ سکیورٹی اپ ڈیٹس فراہم کریں گے۔

جولائی میں سافٹ ویئر میں ایک اہم ’بگ‘ یعنی وائرس کی دریافت ہوئی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ارب فونز کے اعدادوشمار ہیکروں کو فراہم کرسکتا ہے۔

اس کو ختم کرنے میں فون بنانے والوں کو تاخیر ہوئی کیونکہ اینڈرائڈ کی کئی اقسام کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

اینڈروئڈ کے ایک ماہر نے کہا کہ یہ ’صرف وقت‘ کی بات تھی اور فون بنانے والوں نے سکیورٹی کو بہت جلد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

اینڈروئڈ اپنی ایک خامی کو دور کرنے کی سمت میں کوشاں ہے جسے ’سٹیج فرائٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہیکرز کسی فون سے صرف ایک ویڈیو میسیج بھیج کر اس کے تمام اعدادوشمار حاصل کرسکتے ہیں۔

اینڈروئڈ کی سکیورٹی کے اہم انجینیئر اینڈریئن لڈوگ نے کہا: ’میرے خیال سے یہ اپ ڈیٹ دنیا میں اکیلا ایسا وسیع اپ دیٹ ہے جو آج تک ہوا ہے۔‘

ایل جی، سام سنگ اور گوگل نے کہا ہے اس سے ان کے کئی موبائل فون سیٹ کی خرابی دور ہوگی جبکہ وہ ہر ماہ مزیڈ اپ ڈیٹس فراہم کریں گے۔

خیال رہے کہ اینڈروئڈ کھلا ہوا آپریٹنگ سسٹم ہے جس کے لیے سافٹ ویئر آسانی سے دستیاب ہیں تاکہ موبائل کمپنیاں اپنے ہینڈ سیٹ میں طرح طرح کی چیزیں پیش کر سکیں۔

ہرچند کہ گوگل کی سربراہی میں سکیورٹی فکسز جاری ہوتی ہیں لیکن یہ فون بنانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں جاری کریں۔

بعض فون میں اینڈروئڈ کے پرانے ورژن ہیں اور وہ اب اپنے فون کو اپ ڈیٹ نہیں کرتے اور بعض کمپنیاں اینڈروئڈ کا اپنا ہی مخصوص ورژن فراہم کرتی ہیں جن میں سکیورٹی اپ دیٹ فراہم کرنے میں تاخیر ہوتی ہے۔

اینڈروئڈ میگزن کے ایڈیٹر جیک پارسنس کا کہنا ہے کہ ’اینڈروئڈ کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ فون بنانے والی کمپنی اپنے سافٹ ویئر کو سب سے اوپر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے کسی سافٹ ویئر کے ہٹانے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’امریکہ میں صورت حال مزید خراب ہے کہ فون بنانے والے اس میں اپنا سافٹ ویئر بھی ڈال دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے سکیورٹی فکسز کے درمیان ایک اور دیوار حائل ہو جاتی ہے۔‘

بہر حال انھوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی بھی ولن نہیں ہے۔ یہ نظام ہی ایسا ہے تاہم سکیورٹی کے متعلق ہمیشہ خدشات رہیں گے اس لیے یہ بہتر ہے کہ بعض فون بنانے والی کمپنیاں اس سے نمٹنے کے لیے آگے آ رہی ہیں۔‘
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours