’مسٹر پرفیکٹ‘، ’دا الٹیمیٹ واریئر‘ اور ’راؤڈی‘ روڈی پائپر جیسے نام بظاہر کسی کامکس کی کتاب کے نام لگتے ہیں لیکن صاحب ذوق انھیں پیشہ ورانہ پہلوانی کے سابق سپرسٹارز کے طور پر جانتے ہیں۔

یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ ان کی موت اچانک ہوئي ہے اور وہ بھی نسبتا کم عمری میں۔

مسٹر پرفیکٹ کی موت 44 سال کی عمر میں کوکین کے شدید نشے کی وجہ سے سنہ 2003 میں ہوئی تھی۔ دا الٹیمیٹ واريئر کا انتقال 54 سال کی عمر میں گذشتہ سال دل کا دورہ پڑنے سےہوا۔

ابھی حال ہی میں 31 جولائی کو ’راؤڈی‘ روڈی پائپر کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا، وہ 61 سال کے تھے۔

تو کیا پہلوان دوسرے کھیلوں سے منسلک ایتھلیٹ کے مقابلے کم عمری میں انتقال کرتے ہیں؟

مانچسٹر یونیورسٹی کے جون موریارٹی کا کہنا ہے، ’ہاں، جب ہم پہلوانوں کی موت کی شرح کے اعداوشمار دیکھتے ہیں تو دوسرے سپورٹس اور عام آبادی کے مقابلے ان کا انتقال جلدی ہو تا ہے۔‘

موریارٹی کی طرح کے ریسرچروں کو اس طرح کے اعدادوشمار حاصل کرنے میں دقت کا سامنا ہے کیونکہ کوئی بھی سرکاری ادارہ اس طرح کے اعدادوشمار یکجا نہیں کرتا۔

انھوں نے دوسرے محققین کے نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔

انھوں نے ایسٹرن میشیگن یونیورسٹی کے تحقیقی مطالعے کا ذکر کیا جس میں 557 سابق پہلوانوں کی زندگی کا مطالعہ کیا گیا تھا۔

اس میں سنہ 1985 سے 2011 کےدرمیان انتقال کرنے والے 62 پہلوانوں میں سے 49 پہلوانوں کا انتقال 50 سال سے کم عمر میں ہو گیا تھا۔ جبکہ 24 ایسے تھے جن کا انتقال 40 سے بھی کم عمر میں ہوا تھا اور دو تو 30 سال کی عمر سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔

مطالعے میں یہ سامنے آیا کہ امریکی آبادی میں 45 سے 54 سال کے درمیان مرنے والوں میں پہلوانوں کی موت کی شرح 2.9 فی صد زیادہ تھی۔

ان کی موت کی وجوہات میں دل کی بیماری عام تھی۔ لیکن یہ دوسرے امریکی سپورٹس سے کس طرح مناسبت رکھتے ہیں؟

سنہ 2014 میں بینجمن مورس نے فائو تھرٹی ایٹ کے بلاگ کے لیے اس کی جانچ کی جس میں انھوں نے سنہ 1998 میں یا اس سے قبل اپنے کريئر کا اختتام کرنے والے پہلوانوں پر نظر ڈالی ہے۔

انھوں نے یہ دیکھا کہ سنہ 2010 میں جو پہلوان 50 یا 55 کے ہوتے ان میں سے 20 فی صد کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ اس عمر کے سابق امریکی فٹبالروں میں موت کی شرح چار فی صد تھی۔
آخر ایسا کیوں ہے؟

دونوں مقابلوں میں شامل کھلاڑیوں کو جسمانی نقصان پہنچ سکتا ہے اور دونوں قسم کے کھیلوں (امریکی فٹبال اور ریسلنگ) کی تربیت سزا سے کم نہیں ہوتی۔

لیکن نیویارک میں کام کرنے والے پہلوانی کے میدان کے صحافی ایرک کوہن نے ان دونوں کھیلوں میں اہم فرق کا ذکر کیا۔

انھوں نے کہا: ’ریسلنگ میں کوئی بھی آف سیزن نہیں ہوتا۔ امریکی فٹبالرز ایک سیزن میں 16 گیمز کھیلتے ہیں۔ اور انھیں نصف سال کی چھٹی رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلوانوں کو ایک ہفتے میں پانچ یا چھ بار اکھاڑے (رنگ) میں ہونا پڑتا ہے۔‘

دوسرا فرق رنگ یا فیلڈ کے باہر کی سرگرمی سے تعلق رکھتا ہے۔

کوہن کا کہنا ہے کہ ’سنہ 1970 اور 80 کی دہائيوں میں مقابلہ کرنے والے پہلوان کسی راک سٹار کی طرح رہتے یا پارٹی کرتے تھے۔ اور پہلے اس میدان میں سٹیروائڈس اور دوسری تفریحی منشیات کے استعمال کا بہت مسئلہ تھا۔‘

پائپر نے سٹیروائڈ اور کوکین لینے کی بات تسلیم کی تھی اور کشتی کے مقابلے کے دوران مہ نوشی کی بات بھی کی۔

ڈبلیو ڈبلیو ای (ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ) نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کے بعض ملازمین کے عادتیں ان کی بعد کی زندگی پر اثرانداز ہوئی ہیں۔

ایک ترجمان نے بی بی سی کو دینے جانے والے ایک بیان میں کہا: ’بعض سابق کھلاڑی اس نسل کا حصہ تھے جنھوں نے غیر صحت مند اور خراب طرز زندگی کو اپنایا تھا۔ جبکہ آج کے ایتھلیٹ اپنی صحت پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور سنہ 2006 میں ڈبلیو ڈبلیو ای نے ٹیلنٹ ویلنیس پروگرام متعارف کرایا۔‘

کوہن کا کہنا ہے کہ حالات پہلے سے بہتر ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا: ’شکر ہے کہ پہلے کے مقابلے اب پہلوانوں کی وفات 20 یا 30 سال کی عمر میں نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات بہت عجیب نظر آئے گی کہ حال ہی میں میکسیکو میں ایک پہلوان کی رنگ میں ہی موت ہو گئی تھی۔‘

پہلوانی میں دلچسپی رکھنے والوں کو امید ہے کہ آج کے سپرسٹار اپنے پیش روؤں سے زیادہ عمر تک زندہ رہیں گے۔ لیکن روڈی پائپر اور دیگر کی موت پیشہ ورانہ پہلوانی کے تاریک پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours