ایئر بس ہائپرسونک نے ایک ایسے مسافر طیارے کی تیاری کے لیے ایک پیٹنٹ حاصل کر لیا ہے جو لگ بھگ ایک گھنٹے میں لندن سے نیویارک تک پرواز کر سکتا ہے۔

کونکورڈ دوم نامی یہ جیٹ طیارہ آواز کی رفتار سے چار گنا تیز اڑنے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔

تو کیا فضائی نقل وحمل کی دنیا میں کوئی انقلاب برپا ہونے کو ہے؟

امریکی پیٹنٹ آفس کی دستاویزات کے مطابق جیٹ ماک 4.5 یا آواز کی رفتار سے ساڑھے چار گنا زیادہ تیز پرواز کرے گا۔ کونکورڈ کی رفتار ماک ٹو تھی۔

پیٹنٹ کے لیے دی گئی درخواست کے مطابق جہاز میں مختلف نوعیت کے انجن نصب ہوں گے جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوں گے اور اس کے لیے توانائی جہاز میں محفوظ ہائیڈروجن سے آئے گی۔

ٹیک آف کے لیے جہاز میں دو ٹربو جیٹس اور پچھلے حصے میں ایک راکٹ موٹر نصب کی جائے گی اور یہ خلائی جہاز کی طرح عمودی سمت میں اوپر اٹھے گا۔

جب ایک بار یہ اڑان بھر لے گا تو ٹربو جیٹس بند ہو جائیں گے اور پھر راکٹ موٹر اس جہاز کو ایک لاکھ فٹ کی بلندی تک پہنچا دے گی۔

بلندی پر پہنچنے کے بعد ریم جیٹس استعمال کیے جائیں گے جو عام طور پر میزائلوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ریم جیٹس کے ذریعےجہاز کی رفتار ماک 4.5 کی رفتار تک پہنچ جائے گی۔
مسافر کیسا محسوس کریں گے؟

پیٹنٹ کی وضاحت کے لیے مخصوص ویب سائٹ ’پیٹنٹ یوگی‘ کے مطابق جو بھی جیٹ پرواز میں سفر کرے گا اس کے لیے وہ دنیا کے سب سے بلند ترین رولر کوسٹر کی سواری بن جائے گی ۔

اگر مسافر پرسکون انداز میں سفر کرنا چا ہتے ہیں تو طیارے میں مسافروں کے بیٹھنے کی لیے جھولا نما سیٹیں ہوں گی۔

جہاز میں سینکڑوں افراد سوار نہیں ہو گے بلکہ صرف 20 مسافروں کی جگہ ہو گی۔

یہ آئیڈیا صرف کمرشل پروازوں کے لیے ہی محدود نہیں کیا جائے گا بلکہ پیٹنٹ میں ایئر بس کی جانب سے فوجی جیٹ کا بھی ذکر ہے۔
کونکورڈ کی طرح یہ ناکام ہوگا یا کامیاب ہو گا؟

ایئر بس نے سنہ 2003 میں کونکورڈ پر آنے والی بہت زیادہ آپریٹنگ لاگت کے باعث کونکورڈ بنانے بند کر دیے تھے۔

سنہ 1970 میں سپر سونک جیٹ کو اس کے چار ٹربو جیٹ انجنوں کی وجہ سے شور اور آواز کی آلودگی پھیلانے سے متعلق شکایتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

نتیجتاً آبادی والے علاقوں سے اس کے گزرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جس کے باعث اسے مالی فائدہ نہیں ہوا۔

کونکورڈ ٹو کی درخواست میں شور کے مسئلے کو حل کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ عمودی سمت میں پرواز کرنے کی وجہ سے شور مختلف سمتوں میں منتشر ہو جائے گا اور زمین تک نہیں پہنچ پائے گا۔
میں اپنی فلائٹ کب بک کرا سکتا ہوں؟

ابھی زیادہ پرجوش ہونے کی ضرورت نہیں۔

پیٹنٹ کے لیے دی گئی درخواستوں کی ایک بڑی تعداد حقیقی مصنوعات کے طور پر نظر نہیں آتیں۔ تاہم یہ ٹیکنالوجی ایئر بس کی کچھ مصنوعات میں مل سکتی ہے۔

ایئربس اس پیٹنٹ کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔

دراصل یہ آئیڈیا سب سے پہلے سنہ 2011 میں شائع کیا گیا تھا اور اب اس کی تشہیر اس لیے کی جا رہی ہے کہ اسے امریکی پیٹنٹ آفس کی جانب سے منظوری مل گئی ہے۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours