ایران میں شوہر خواتین کے لیے مساوی حقوق سے متعلق اپنے عزم کا اظہار کرنے کے لیے اپنی تصاویر لے رہے ہیں اور اس بارے میں ہزاروں لوگ اپنے پیغامات سوشل میڈیا کی ویب سائٹ فیس بک پر شیئر کر رہے ہیں۔

نیلوفر اردلان ایران میں خواتین ان ڈور فٹبال ٹیم کی کپتان ہیں اور ’لیڈی گول‘ کے نام سے معروف ہیں۔ گذشتہ ماہ کے اوائل میں انھیں ملائیشیا میں اپنی ٹیم کی نمائندگی کرنی تھی لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کر سکیں کیونکہ، ایک ایرانی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو کے مطابق ان کے شوہر نے انھیں ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

ایران میں نکاح کے وقت جس نئے معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں اس میں شوہر کو اس طرح کی شرائط رکھنے کی اجازت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ملک سے باہر سفر کرنے کی اجازت دیں گے یا نہیں، وہ کہاں رہیں گے، بیوی کو کام کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں یا پھر اسے طلاق لینے کا حق حاصل ہوگا یا نہیں۔

اردلان کے شوہر کھیل کے معروف صحافی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ان کے شوہر مہدی طوطشانی نے ان سے اپنے بچے کے سکول کے پہلے دن پر وہاں موجود رہنے کے لیے کہا تھا۔

لیکن شوہروں کو نکاح نامے کے معاہدے میں رکھی گئی شرائط کو چھوڑنے کا بھی حق حاصل ہوتا ہے اور اب اردلان کی کہانی سے رغبت پانے والے ایسے درجنوں ایرانی مردوں نے، جنھوں نے حال میں شادیاں کی ہیں، صنفی برابری کے حقوق کے لیے سوشل میڈیا پر اپنی تصویریں شیئر کر رہے ہیں۔

وہ اپنی تصویریں امریکہ میں مقیم ایرانی صحافی مسیح النجد کو بھیجتے ہیں جنھوں نے فیس بک پر خواتین کے حقوق کے لیے ’مائی سٹیلدھی فریڈم‘ نامی ایک خصوصی صحفہ تیار کیا تھا۔ یہ صفحہ گذشتہ برس خواتین کی آزادی، جیسے اسکارف یا حجاب نا پہننے کے اختیار سے متعلق تھا جو ایران میں باہر نکلنے پر خواتین کے لیے لازمی ہے۔

النجد کا کہنا ہے کہ پہلے وہ بھیجی گئی تصاویر کی مردوں سے تصدیق کرتی ہیں پھر اسے صفحے پر پوسٹ کرتی ہیں۔ یہ اب تک مجموعی طر پر تقریباً ایک لاکھ بار یا تو شیئر کی گئی یا پھر لائیک کی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے ایسی بہت سی تصویریں ہر روز آرہی ہیں لیکن انھوں نے ہر روز ایسی دو تصویریں شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس مہم کو جتنا طویل ہوسکے کھینچا جا سکے۔ انھوں نے اس کا نام ’اٹس مینز ٹرن‘ دیا ہے۔

النجد نے بی بی سی ٹرینڈنگ کو بتایا کہ بہت سے خواتین کو یہ تک نہیں معلوم ہے کہ وہ اپنے نکاح نامے کے معاہدے میں، اس پر دستخط کرنے کے بعد بھی، ترمیم کرنے کی گزارش کرسکتی ہیں۔

انھوں نے کہا ’انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح کے معاہدے پر دستخط کر رہی ہیں اور وہ یہ کہ انھیں اپنے حقوق واپس لینے کا حق حاصل ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ملک میں دقیانوسی قوانین کے باوجود ’ایران میں آزاد خیال مردوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو خواتین کے حقوق کی حامی ہیں۔‘

اس مہم کے تحت ابتدا میں مردوں سےگزارش کی گئی تھی کہ وہ اپنی خواتین پر بیرون ملک سفر کرنے کی صلاحیتوں پر پابندیاں عائد نہیں گریں گے۔ لیکن اس کے جواب میں بہت سے مردوں نے جو پوسٹ بھیجیں اس میں انھوں نے اپنی بیویوں کو ان کے تمام حقوق، بشمول کام کرنے اور طلاق دینے کے، واپس کرنے کا ذکر کیا ہے۔

ایک شخص نے لکھا ’میں اپنی ساتھی کو تمام حقوق واپس کرتا ہوں۔‘ دوسرے نے لکھا ’میں اس کا مالک نہیں بلکہ زندگی کا ساتھی ہوں۔‘ جبکہ ایک تیسرے شخص نے لکھا ’ایک انسان کے طور پر تمام حقوق رکھ کر میں شرمندہ ہوں۔‘

بعض نے اس کے ثبوت میں اپنے نکاح نامے کے وہ صفحات بھی شیئر کیے جس میں حقوق کے لیے ترامیم کی گئی ہیں۔
Share To:

S Farooq

Post A Comment:

0 comments so far,add yours