صوبہ سندھ میں جاری رینجرز کے آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد ایک سوال سیاسی حلقوں میں زیربحث ہے اور وہ یہ کہ کیا بدعنوانی کے الزامات کے تحت سیاستدانوں کے خلاف کارروائی صوبہ سندھ اور پیپلز پارٹی تک محدود رہے گی یا باقی صوبے اور سیاسی جماعتیں بھی اس کا شکار ہو سکتی ہیں؟۔ بی بی سی نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ معاملات سے باخبر تجزیہ کار اور بعض اہم سیاسی کھلاڑی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ کارروائی صرف سندھ یا پیپلز پارٹی تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پنجاب اور حکمران جماعت مسلم لیگ کے کچھ لوگ بھی بد عنوانی کے خلاف اس کارروائی کے نشانے پر آ سکتے ہیں۔گویا ’بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔‘
سابق پاکستانی صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کو جمعرات کے روز رینجرز کے اہلکاروں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کر کے ان پر بدعنوانی سے رقم بنانے اور یہ رقم مسلح تنظیموں کو فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے ہیں۔انھیں ایک روز قبل کراچی سے فوج کے انٹیلی جنس ادارے کے اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا۔ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور ان پر دہشت گردی کے الزامات پر پیپلز پارٹی نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم پر ہاتھ ڈالنے کا مطلب آصف زرداری پر ہاتھ ڈالنا ہے۔ ’اور آصف زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا تو پھر جنگ ہو گی۔‘یہ اعلانِ جنگ کس کے خلاف ہو گا اس کی وضاحت کرتے ہوئے پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے پاکستانی فوج کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی حکومت کو بھی متنبہ کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔’میں واضح طور پر قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ جنگ ہو گی تو وہ یہ جنگ ہو گی کہ اگر ہم پر دہشت گردی کا الزام لگایا گیا یا شک کیا گیا تو اسے ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ خواہ وہ کوئی ادارہ ہو یا وہ حکومت ہو۔‘پیپلز پارٹی کی جانب سے فوج اور رینجرز کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز کی حکومت کو ہدف تنقید بنانے پر بعض سیاسی حلقوں میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کی وجہ سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خلیج پیدا ہو گی اور دوبارہ دھرنے جیسا سیاسی بحران پیدا ہونے کی صورت میں پیپلز پارٹی دوبارہ نواز حکومت کی حمایت نہیں کرے گی۔
مصنف اور سینیئر صحافی زاہد حسین اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ بلکہ ان کا موقف اس تجزیے سے بالکل مختلف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ نواز حکومت نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی سے اپنے آپ کو جس طرح الگ رکھا ہے اس سے ان دونوں جماعتوں میں مفاہمت اور بڑھے گی۔’وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی کو صاف پیغام دیا ہے کہ ڈاکٹر عاصم یا پارٹی کے دیگر لوگوں کے خلاف سندھ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر وفاقی حکومت نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف کارروائی کرنا ہوتی تو اس کے لیے نیپ کو استعمال کیا جاتا۔‘
پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان جاری مفاہمتی پالیسی ختم نہ ہونے کے امکان کے حق میں ایک دلیل اور بھی دی جا رہی ہے۔ اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ نواز بھی اسی صورتحال کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس جانب اشارہ خود مسلم لیگ کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک نجی ٹیلی وژن چینل کو انٹرویو میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ جو کچھ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ان کی جماعت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔’یہ چیزیں جیسا کہ کرپشن وغیرہ یہ کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہتیں۔ اگر ایسے لوگ ہماری صفوں میں بھی ہیں تو ان کی باری بھی آ جائےگی۔ ہم اس سے مبّرا نہیں ہیں یا ہمیں اس سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔‘
عام انتخابات میں صوبہ سندھ تک محدود ہو جانے والی پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف ان کارروائیوں کے بعد کہا جا رہا ہے کہ اس جماعت پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ تجزیہ کار زاہد حسین اس رائے سے بھی متفق نہیں۔’پیپلز پارٹی کا انحطاط بہت پہلے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن جب اس کے رہنماؤں پر دہشت گردی کے الزامات لگیں گے تو فوری طور پر تو شاید اسے دباؤ محسوس ہو لیکن طویل مدت میں اس سے پارٹی کو فائدہ ہی ہو گا۔ جب بھی کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف اس طرح کے اقدمات کیے جاتے ہیں تو اس سے اس جماعت کو نئی زندگی ملتی ہے۔‘زاہد حسین کے مطابق پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات سے نا صرف اس جماعت کو نئی زندگی مل رہی ہے بلکہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان تعلقات اور مفاہمت مزید بڑھے گی۔ کیونکہ بلآخر یہ دونوں جماعتیں ایک ہی کشتی کی سوار ہیں۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours