وقت آگے بڑھتا ہے تو زخم بھی بھر جاتے ہیں لیکن کسک باقی رہ جاتی ہے۔
ٹھیک پانچ سال پہلے 28 اگست 2010 ءکی صبح لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو اننگز اور225 رنز کی صورت میں اپنی تاریخ کی سب سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس بوجھل فضا میں اس شکست سے زیادہ تکلیف دہ وہ واقعہ تھا جو ایک رات پہلے پیش آیا تھا جب لندن پولیس نے ٹیم ہوٹل پر چھاپہ مارا تھا۔
اس چھاپے کا ہدف تین کرکٹرز سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف تھے جن کے بارے میں برطانوی اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے انکشاف کیا تھا کہ وہ جان بوجھ کر نوبال کرانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں جس کا انہیں معاوضہ بھی ملا ہے ۔
ان تینوں کرکٹرز پر نہ صرف آئی سی سی نے پابندی عائد کی بلکہ لندن کی عدالت نے بھی انہیں مجرم قرار دیا جس کے نتیجے میں انہیں جیل بھی دیکھنی پڑگئی۔
آج یہ تینوں کرکٹرز آئی سی سی کی جانب سے عائد پابندی کی مدت ختم ہونے کے بعد دوبارہ بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے فوری طور پر ان کرکٹرز کی واپسی کو خارج ازامکان قرار دے دیا ہے لیکن اس نے ان کرکٹرز کی بحالی کا جو مرحلہ وار پروگرام ترتیب دیا ہے وہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ یہ واپسی بہرحال ہونی ہے اگر تینوں کی نہیں توکم ازکم محمد عامر کو پاکستان کرکٹ بورڈ ضرور واپس لائے گا کیونکہ سلمان بٹ اور محمد آصف کے مقابلے میں محمد عامر کے لیے وہ ہمیشہ نرم گوشہ رکھے ہوئے ہے اور ان کی پابندی کی مدت ختم ہونے سے قبل ڈومیسٹک کرکٹ شروع کرانے کے لیے بھی خاصا متحرک رہا ہے۔
محمد عامر نے آئی سی سی کی پابندی وقت سے پہلے ختم ہونے کے بعد پیٹرنز ٹرافی گریڈ ٹو کھیلی لیکن فائنل کے آتے آتے ان کی فٹنس جواب دے گئی۔
سلمان بٹ اور محمد آصف نے ابھی باقاعدہ کرکٹ شروع نہیں کی ہے لہذا ان تینوں کی فٹنس اور فارم صحیح طور پر اسی وقت سامنے آئے گی جب وہ ڈومیسٹک کرکٹ کے بڑے میچز کھیلیں گے۔
اسپاٹ فکسنگ میں سزایافتہ ان کرکٹرز کی ٹیم میں واپسی کے بارے میں پاکستانی کرکٹ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔
اگر وسیم اکرم اور محمد یوسف محمد عامر سے ہمدردی رکھتے ہوئے انہیں دوبارہ پاکستانی ٹیم میں دیکھنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب رمیز راجہ، راشد لطیف اور عاقب جاوید اس واپسی کو پاکستانی کرکٹ کو دوبارہ تباہی کے دہانے پر لے جانے کے مترادف سمجھتے ہیں۔
سزایافتہ کرکٹرز کی واپسی کے حق میں کرکٹرز کا موقف یہ ہے کہ چونکہ انھوں نے اپنے کیے کی سزا بھگت لی ہے لہذا انہیں دوبارہ کھیلنے کی آزادی ہونی چاہیے۔
تینوں کرکٹرز کی واپسی کے مخالف سابق کرکٹرز کی دلیل یہ ہے کہ یہ واپسی ان کھلاڑیوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہوگی جنہوں نے ایمانداری سے کرکٹ کھیلی ہے اور ان تینوں کی موجودگی ڈریسنگ روم کا ماحول پھر سے خراب کرے گی اور پوری ٹیم خود پر غیرضروری دباؤ محسوس کرے گی۔ کیونکہ دنیا اب بھی ان تینوں کرکٹرز کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھتی رہے گی قطع نظر اس بات کے کہ وہ دوبارہ اس طرح کی کوئی حرکت نہیں کریں گے جو انھوں نے ماضی میں کردی۔
مخالف کرکٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس حد تک تو سزایافتہ کرکٹرز کے ساتھ نرمی برتی جاسکتی ہے کہ وہ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلیں لیکن انہیں ہرگز پاکستانی ٹیم میں شامل نہیں کیاجانا چاہیے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر اتنے اہم ہیں کہ آنے والے برسوں میں پاکستانی ٹیم ان کے بغیر مکمل نہیں ہوسکے گی؟۔
ہمیں یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ اسپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث تینوں کرکٹرز نے پاکستانی کرکٹ پر جو داغ لگایا اسے صاف کرنے میں بہت وقت لگا ہے جس کا کریڈٹ موجودہ کپتان مصباح الحق اور کوچ وقاریونس کے ساتھ ساتھ ان کرکٹرز کو جاتا ہے جنہوں نے مشکلات میں گھری پاکستانی ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرنا شروع کیا اور جیت کے ساتھ ساتھ اپنے مثبت طرز عمل سے آج وہ پاکستانی ٹیم کو اس شکل میں لے آئے ہیں جسے دنیا مثبت انداز میں دیکھتی ہے۔
اظہرالدین، سلیم ملک اور ہنسی کرونئے بھی اپنے دور کے بہت بڑے کرکٹرز تھے ۔اگر ان کے جانے کے بعد بھی ان کی ٹیموں کا جیتنا نہیں رکا تو پھر اب ہم یہ کیوں سوچ رہے ہیں کہ یہ تین کرکٹرز ہی ہمارا مستقبل ہوسکتے ہیں؟۔
Post A Comment:
0 comments so far,add yours