جولائی 2015

کراچی میں جان لیوا وائرس نگلیریا (دماغ خور امیبا) میں مبتیلا ایک لڑکی ہلاک دم توڑ گئی جس کے بعد شہر میں اس بیماری سے مرنے والے افراد کی تعداد 11 ہو گئی ہے.

اورنگی کے علاقے سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ لڑکی کا علاج شہر کے ایک نجی ہسپتال میں کیا جارہا تھا۔

صوبائی محمکہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ سندھ میں رواں سال نگلیریا فاؤلری کے مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 11 ہوگئی ہے۔

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ملزم محسن علی تک رسائی کے لیے پاکستان کو خط لکھا ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ملزم محسن علی تک رسائی کے لیے پاکستان کو خط لکھا ہے تاہم محسن علی تک برطانیہ کو رسائی دینے سے متعلق پاکستان کو ابھی فیصلہ کرنا ہے۔

اس سے قبل عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ملزمان سے تفتیش کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی موجودگی میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے ملزم معظم علی سے تفتیش کی تھی۔

نئی دہلی: بھارتی کرکٹر یوراج سنگھ نے شعیب ملک کا ڈانسنگ چیلنج قبول کرلیا۔

یوراج سنگھ نے سوشل سائٹ ’ڈبزمیش‘ پر ویڈیو اپ ڈیٹ کی ہے جس میں وہ مائیکل جیکسن کے ’مون واک‘ اسٹائل میں ڈانس کررہے ہیں، ساتھ میں انھوں نے لکھا کہ ’’شعیب بھائی ایسے ڈانس کیا جاتا ہے اور ویسے بھی ہم تو ہمیشہ میدان میں ہی تھے‘‘۔ انھوں نے یہ ویڈیو شعیب ملک کی جانب سے ڈانس چیلنج کے جواب میں اپ لوڈ کی ہے۔

سری لنکا پر سیریز کامیابی کے بعد شعیب ملک نے اپنی اہلیہ ثانیہ مرزا اور چند دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ ڈانس کی ویڈیو شیئر کی تھی جس کے جواب میں یوراج نے کہا تھا کہ ’شعیب ملک اچھے کھلاڑی مگر برے ڈانسر ہیں‘۔ اس پر پاکستانی آل راؤنڈر نے انھیں چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آجاؤ میدان میں‘۔

دبئی: سری لنکا کے خلاف ون ڈے سیریز کی کامیابی سے پاکستانی کھلاڑیوں کی رینکنگ بھی بہتر ہوگئی، محمد حفیظ، احمد شہزاد، اظہر علی کو ترقی مل گئی، یاسر شاہ بھی 44 درجے کی اونچی اڑان بھرنے میں کامیاب رہے، گرین شرٹس کی آٹھویں پوزیشن کی بھی تصدیق ہوگئی۔

پاکستان نے سری لنکا کے خلاف پانچ ون ڈے میچز کی سیریز 3-2 سے اپنے نام کی جس سے وہ نویں سے آٹھویں نمبر پر پہنچ کر چیمپئنز ٹرافی میں رسائی کو محفوظ بناچکا ہے، اسے نویں نمبر پر موجود ویسٹ انڈیز پر دو پوائنٹس کی برتری حاصل مگر ساتویں پوزیشن پر حیران کن ترقی سے قبضہ کرنے والی بنگلہ دیشی ٹیم سے 6 پوائنٹس کے خسارے کا سامنا ہے، سیریز میں شکست کے باوجود سری لنکا پانچویں پوزیشن تو بچانے میں کامیاب رہا مگر تین پوائنٹس کی کٹوتی کا سامنا کرنا پڑا، ٹاپ پر آسٹریلیا 129 پوائنٹس کے ساتھ موجود ہے۔

بھارت 115 پوائنٹس کے ساتھ دوسرے اور نیوزی لینڈ اس سے تین پوائنٹس کم تیسرے نمبر پر براجمان ہے۔ آئی لینڈرز سے سیریز میں بہتر کارکردگی پر پاکستانی کھلاڑیوں کی رینکنگ میں بھی بہتری آئی ہے۔ حفیظ نے مجموعی طور پر پانچ میچز میں 273 رنز بنائے، اس طرح تین درجے ترقی نے انھیں بیٹسمین رینکنگ میں 29 ویں نمبر پر پہنچا دیا ہے۔ احمد شہزاد 5 زینے اوپر چڑھ کر 30 ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں جبکہ کپتان اظہر علی نے 8 درجے کی جست لگا کر کیریئر بیسٹ 64 ویں پوزیشن سنبھال لی ہے۔

وکٹ کیپر بیٹسمین سرفراز احمد کو 16 درجے ترقی نے 81 ویں نمبر پر پہنچادیا ہے جبکہ 5 درجے بہتری سے شعیب ملک بھی 88 ویں نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔ ٹاپ ٹین بیٹسمینوں میں کوئی بھی پاکستانی شامل نہیں ہے۔

بولرز میں سعید اجمل بدستور آٹھویں نمبر پر موجود ہیں، ایک درجہ بہتری سے عرفان نے حفیظ کو 16 ویں نمبر پر جوائن کرلیا ہے۔ لیگ اسپنر یاسر شاہ کی 44 درجے ترقی ہوئی اور وہ کیریئر کی بہترین 97 پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں۔ آل راؤنڈرز میں حفیظ کا چوتھا نمبر ہے جبکہ ٹاپ پر بنگلہ دیش کے شکیب الحسن موجود ہیں۔


لاہور: قومی ون ڈے کرکٹ ٹیم کے کپتان اظہرعلی کا کہنا ہے کہ سری لنکن ٹیم اپنے ہوم گراؤنڈ پر مضبوط ٹیم ہے لیکن امید ہے ون ڈے سیریز کی طرح ٹی ٹوئنٹی میں بھی قومی ٹیم فتح یاب ہوگی۔

سری لنکا سے واپسی پرعلامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے اظہرعلی کا کہنا تھا کہ سری لنکا اپنے ہوم گراؤنڈ میں اچھا کھیل پیش کرتا ہے لیکن قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بہت ٹیلنٹ ہے اس لئے امید ہے پاکستان سری لنکا کو محدود اوورز کی سیریز میں 0-2 سے شکست دے گا۔ انہوں نے کہا کہ سری لنکا سے ون ڈے سیریز جیتنے کا کریڈٹ پوری ٹیم کو جاتا ہے تاہم آخری ون ڈے میں ہماری کارکردگی اچھی نہیں تھی اور پانچویں میچ میں پرانے میچز جیسی کارکردگی نہ دکھا سکے۔

اظہرعلی کا کہنا تھا کہ آئرلینڈر کے خلاف بولرز نے جس طرح پرفارم کیا وہ قابل تحسین ہے، یاسر شاہ، انورعلی اورعماد وسیم نے حیران کن پرفارمنس پیش کی، اس سیریز میں کھلاڑیوں نے جس طرح کی فیلڈنگ کی قومی ٹیم میں اس طرح کی فیلڈنگ کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی سیریز بہت کم ہوتی ہیں جس میں تمام کھلاڑیوں کی پرفارمنس اچھی ہو، ون ڈے میں جب واپس آیا تو مجھ پربہت پریشرتھا لیکن ٹیم کو متحد رکھنے کے لئے کوشش کرتا ہوں کہ ہرکھلاڑی کی حوصلہ افزائی کروں۔

کابل: افغانستان کے صوبہ سرائے پل کے تحصیل کوہستانت میں رات بھر جاری رہنے والی شدید لڑائی کے بعد طالبان نے قبضہ کر لیا ہے جب کہ وہاں موجود پولیس اور دیگر عملے کویتھیار ڈالنے پر مجبورکردیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق شمالی صوبہ سرائے پل کی تحصیل کوہستانت میں گزشتہ کئی روز سے طالبان اور مقامی پولیس کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں لیکن گزشتہ رات اس میں شدت آگئی اور دونوں جانب سے بھاری اسلحہ کا استعمال کیا گیا۔ رات بھر جاری رہنے والی لڑائی کے بعد طالبان نے تحصیل کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں موجود پولیس افسر اور کئی اہلکاروں کو ہتھیار ڈٓالنے پر مجبور کردیا۔

صوبائی پولیس چیف جنرل محمد آسیر نے غیر ملکی خبررساں ایجنسی کو بتایا کہ تحصیل کوہستانت کے صوبائی دارالحکومت کے دور ہونے کی وجہ سے بروقت پولیس کی مزید نفری نہ بھیج سکی جس کی وجہ سے طالبان نے یہاں اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔

واضح رہے کہ نیٹو اورامریکی افواج کی بڑی تعداد میں انخلا کے بعد سے طالبان صوبہ ہلمند کے جنوب مشرقی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر چکے ہیں جب کہ صوبہ کنٹر کی تحصیل ماراوار میں بھی اپنا کنٹرول مضبوط کر رہے ہیں۔

اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹربابراعوان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت 5 سال پورے کرے گی اور پی ٹی آئی کو لٹکائے رکھے گی۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے بابراعوان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کو قومی اسمبلی میں ڈی سیٹ کرنے کا اختیار اسپیکر کے پاس ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو ڈی سیٹ کریں یا نہ کریں، پارلیمنٹ میں ملکی مفاد کے حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا اورعوام اس سے توقعات بھی نہ رکھیں، حکومت پانچ سال پورے کرے گی اور پی ٹی آئی کو لٹکائے رکھے گی، پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوگا وہ سیاسی مفادات کے تحت ہو گا۔

بابراعوان نے کہا کہ بھارت کے شہر گورداس پور میں جو کچھ ہوا ہے اس میں سکھ علیحدگی پسند ملوث ہیں، بھارت سر پر کھڑا ہے مگر ہماری وزارت خارجہ سری پائے کھانے میں مصروف ہے، پاکستان کی سفارت کاری کمزور ہے کہ وہ بھارت کو موثر جواب نہیں دے سکا جو شرم کی بات ہے۔

اسلام آباد: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کی کوشش کی تو شریف خاندان کی سلطنت کے در و دیوار ہل جائیں گے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیخ رشید کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیشن کے فیصلے سے عوام کی ہار اور انصاف کی جیت ہوئی ہے، وہ مفت مشورے نہیں دیتے اور نہ ہی تحریک انصاف کی کور کمیٹی میں شامل ہوئے ہیں، وہ ہمیشہ چوک اور چوراہے کی سیاست کے حامی رہے ہیں، انہوں نے تحریک انصاف کے مطالبے پر بننے والے انکوائری کمیشن کی کبھی حمایت نہیں کی، درحقیقت یہ تحریک انصاف کا اپنا فیصلہ تھا، انہوں نے تحریک انصاف کو جوڈیشل کمیشن جانے سے منع کیا تھا لیکن عمران خان نے ان کی تجویز پر عمل نہیں کیا تاہم حکومت جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو اپنی فتح سمجھتی ہے تو یہ عقل کے اندھے ہیں۔

شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین اور غیر مقبول حکومت ہے،وزیراعظم نواز شریف نے ہمیشہ ایک گولی والے پستول سے اپنے پاؤں پرخود گولی ماری ہے، وزیراعظم نواز شریف اور فوج کی الگ الگ راہیں ہیں فوج کو چاہئے کہ وہ نواز شریف کو مزید وقت دے تاکہ ان کی اصلیت کھل کر عوام کے سامنے آجائے۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار سیاسی جماعت بناکر اپنا شوق پورا کر لیں، ان کی غلط فہمی بہت جلد دور ہوجائے گی۔

لاہور: پنجاب حکومت نے لاہور میں بی آر بی نہر کے قریب کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا منصوبہ ختم کردیا ہے۔

لاہورہائی کورٹ نے بی آربی نہرکے قریب کول پاورپلانٹ لگانے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی، سماعت کے دوران درخواست گزارکی جانب سے موقف اختیارکیا گیا تھا کہ پنجاب حکومت لاہورمیں بی آربی نہرکے قریب کوئلے سے چلنے والا بجلی گھر لگانے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس کے لیے زمین حاصل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے لیکن قانون کے مطابق حکومت ایسا کوئی منصوبہ نہیں بناسکتی جس سے شہریوں کو پریشانی کاسامنا کرنا پڑے۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ماحولیاتی آلودگی اوردیگرمسائل کے پیش نظر پنجاب حکومت نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کے منصوبے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔ حکومتی موقف سننے کے بعد عدالت عالیہ نے اس سلسلے میں دائردرخواستیں نمٹا دیں۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے بی آربی کے قریب کول پاور پلانٹ لگانے کا منصوبہ بنا رکھا تھا تاہم اس کے مضر اثرات کے پیش نظر حکومتی اقدام کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا تھا۔

لبنان کی مقامی عدالت نے سابق حکمران معمرقذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام سمیت ان کے 7 ساتھیوں کو جنگی جرائم کے الزام میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق لیبین عدالت نے معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام کو جنگی جرائم اور پرامن مظاہرین پر ریاستی طاقت کے استعمال پرسزائے موت کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے سابق انٹیلی جنس چیف، سابق وزیراعظم بغدادی المحمدی سمیت دیگر 7 مجرموں کو بھی فائرنگ کر کے ہلاک کرنے کی سزا سنائی۔ پراسیکیوٹر آفس کے مطابق جنگی جرائم اورپرامن مظاہرین پر ریاستی طاقت کا استعمال کرنے کے جرم میں 8 دیگر سابق افسران کو عمر قید جب کہ 7 افراد کو 12 سال قید اور مقدمے میں نامزد 4 افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔

عدالت کی جانب سے سیف الاسلام اوران کے ساتھیوں کو سنائی گئی سزا کو اعلی عدلیہ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جب کہ عالمی عدالت انصاف اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے لیبیا کی مقامی عدالت کی جانب سے سیف الاسلام اور ان کے ساتھیوں کو دی گئی سزا پر ہونے والے ٹرائل اورملک کے ناقص عدالتی نظام پراپنے خدشات کا اظہارکیا ہے۔

واضح رہے کہ لیبیا کی عبوری حکومت نے سابق حکمران معمرقذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام کو نومبر2011 میں 2 ساتھیوں سمیت گرفتارکیا تھا۔

نئی دہلی: بھارتی میڈیا ایک مرتبہ پھر الزام تراشی پر اترآیا اور حال ہی میں کشتی واقعہ کی جعلی تصویریں چلانے پر سبکی کا سامنا کرنے والا میڈیا اب بغیر کسی ثبوت کے ایک مرتبہ پھر گورداس پور میں پولیس اسٹیشن پر حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہا ہے۔

حال ہی میں سمندر میں پاکستانی کشتی کو تباہ کرنے کی جعلی تصاویرجاری کرنے اور پھر اس پر سبکی کا سامنا کرنے والے بھارتی میڈیا نے اب نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے گورداس پورمیں پولیس اسٹیشن پر حملے سے متعلق بھارتی میڈیا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں 3 افراد کو بھارتی فوج کے یونیفارم پہنے دکھایا گیا ہے تاہم ویڈیو میں تینوں افراد کی شکلیں واضح نہیں اور بھارتی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ بھارتی فوج کی وردی میں ملبوس تینوں دہشت گرد پاکستانی علاقے سے بھارتی پنجاب میں داخل ہوئے اورانہوں نے ضلع گورداس پور میں پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا جس کا ذمہ دارپاکستان ہے۔

اس سے قبل بھی بھارتی میڈیا اپنے ملک میں ہونے والے حملوں کے چند ہی گھنٹوں بعد الزام پاکستان پر دھرتا چلا آیا ہے اوراس پر اسے کئی بار سبکی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اپنے سیکیورٹی اداروں کی نااہلی کو چھپانے کے لئے بھارتی میڈیا اورنئی دہلی حکومت کا آسان ہدف پاکستان ہوتا ہے جس پرآسانی سے تمام الزامات لگا کر بھارتی عوام کو دھوکے میں رکھ کرانہیں تسلی دے دی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز بھارتی پنجاب کےضلع گورداس پور میں تین مسلح افراد نے پولیس اسٹیشن پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایس پی گورداس پور سمیت 5 اہلکار سمیت 10 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اسلام آباد: تحریک انصاف کے ارکان کو نااہل قرار دینے سے متعلق تحاریک متفقہ طور پر آئندہ منگل تک موخر تک کردی گئی ہے۔

اسپیکرایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے پر بحث ہوئی۔ اس موقع پر وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی ارکان کی رکنیت ختم کرنے کی تحاریک کو ایک ہفتے کے لئے موخر کرنے کی تجویز ایوان میں پیش کی جسے متفقہ طورپرمنظورکرلیا گیا جب کہ قائدحزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی تجویز کی حمایت کی جس کے بعد پی ٹی آئی ارکان کی رکنیت معطل کرنے کی تحاریک کو ایک ہفتے کے لئے موخر کردیا گیا۔

ایوان میں اظہارخیال کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ معاملے کو افہام و تفہیم سے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں تاہم چاہتے ہیں کہ اپنے اتحادیوں کو بھی اعتماد میں لیں، اگر تحریک انصاف معاملہ اسمبلی کے باہر حل کرانا چاہتی ہے تو اس کے لئے بھی تیار ہیں جب کہ اس موقع پرتحریک انصاف کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے گزشتہ روزاجلاس میں کہا تھا کہ مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم منتخب رکن ہیں اورپارلیمان میں کردار ادا کرنا ہے، اگرایوان سمجھتا ہےکہ ہم ممبرنہیں رہے تو تلوار نہ لٹکائیں بلکہ ابھی فیصلہ کردیں تاہم اسپیکراسمبلی نےجس طرح یہ معاملہ ہینڈل کیا اس پر انہیں داد دیتا ہوں۔

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما رشید گوڈیل کا تحریک انصاف کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے حوالے سے کہنا تھا کہ دھرنا آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے حلق میں تلوار تھا اس لئے تحریک انصاف کے ارکان اب خود فیصلہ کریں کہ 40 دن غیرحاضری پر وہ رکن اسمبلی نہیں رہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ایوان میں قرارداد لائی جائے کہ قانون کی بالادستی ہوگی اور ملک اب آئین کے تحت چلے گا۔

روم: سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف نے اٹلی کے آرمی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا جہاں انہوں نے اطالوی مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقات کے دوران دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق جنرل راحیل شریف نے اٹلی کے آرمی ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس موقع پر سربراہ پاک فوج نے اطالوی مسلح افواج کے سربراہ سے ملاقات بھی کی جس کے دوران دفاعی شعبے میں تعاون بڑھانے سمیت دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تربیتی امورمیں تعاون بڑھانے پراتفاق کیا گیا۔

اطالوی فوج کے سربراہ نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خطے کی سلامتی کے لیے پاک فوج کی قربانیوں پر خراج تحسین بھی پیش کیا۔

اسلام آباد: قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ انکوائری کمیشن کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن کے ممبران کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں رہنا چاہیے جب کہ عمران خان کو پارلیمنٹ کا حصہ رہ کر قومی سطح پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور تمام تر تحفظات ایوان میں زیر بحث آنے چاہیئیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور ایم کیو ایم کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں لہذا حکومت انہیں کنویں میں دھکیلنے کے بجائے مذاکرات کرکے قومی دھارے میں شامل رکھے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے اراکین لاکھوں میں تنخواہ لیتے ہیں جنہیں چھوڑنا مشکل ہے لیکن عزت زیادہ اہم ہے لہذا انکوائری کمیشن کے فیصلے کے بعد انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو وزارت عظمیٰ نہیں بلکہ جمہوریت چاہیے اور ہم کبھی بھی عوامی مینڈیٹ کے خلاف نہیں جائیں گے۔

دوسری جانب قائد حزب اختلاف نے سیلاب کی صورتحال پر وزیراعظم نوازشریف کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ملک میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچادی ہے اورنیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ کمیشن کے حفاظتی اقدامات کی تعریف نہیں کی جاسکتی جب کہ این ڈی ایم سی نے وزیراعظم آفس میں 28 مئی کو اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی سے ایم کیو ایم کے وفد نے ملاقات کی جس میں کراچی آپریشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اسلام آباد میں ایم کیو ایم کے وفد نے ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی سے ملاقات کی جس میں خالد مقبول صدیقی ، کنور نوید جمیل اور بیرسٹر سیف سمیت دیگر ارکان شامل تھے جب کہ ملاقات میں سندھ بالخصوص کراچی آپریشن اور امن وامان اور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وفاقی وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ کراچی آپریشن جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے اور اس کا مقصد ایم کیوایم سمیت کسی جماعت کو دیوار سے لگانا نہیں بلکہ شہر میں امن کا قیام ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن پر ہر جماعت کے جائز تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے تاہم رینجرز کی کارروائیاں قواعد وضوابط کے مطابق ہیں جب کہ آپریشن میں رینجرز کا ساتھ دینا ملکی مفاد کا تقاضہ ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس موقع پرمتحدہ قومی موومنٹ کے وفد نے کہا کہ آپریشن کے حامی ہیں مگر ہمارے ساتھ زیادتی ہورہی ہے۔

سعودی عرب کے شاہ سلمان تین ہفتوں کی چھٹیوں پر جنوبی فرانس پہنچ گئے ہیں لیکن یہ کوئی معمولی چھٹیاں نہیں ہیں۔

شاہ سلمان کے سکون اور آرام کی غرص سے ساحل کو عام لوگوں کے لیے بند کیے جانے اور ان کے وِلا سے 300 میٹر تک کے علاقے کو خالی رکھنے پر مقامی افراد پہلے ہی ناراض ہیں۔

ان کے فرانس آنے پر بہت سے کاروباری حضرات ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت زیادہ خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سعودیوں کے آنے سے علاقے میں آمدن ہو گی۔

تو سعودی شاہ کی چھٹیوں کی فہرست اصل میں ہے کیا؟
کمرہ نظارے کے ساتھ تخت:


دنیا کے سب سے امیر شاہی خاندانوں میں سے ایک کے سربراہ کے طور پر شاہ سلمان کا عالی شان رہائش کا شوقین ہونا حیران کن بات نہیں ہے۔

ولیرئیس میں ان کا ولا ’فرنچ ریوییرا‘ کی چٹانوں کے درمیان بنا ہوا ہے جو ایک دلکش تصویر کی مانند سینکڑوں میٹر تک ساحل پر پھیلا ہوا ہے۔

اس وِلا کو سنہ 1932 میں ماہرِ تعمیرات بیری ڈائیرکس نے تعمیر کیا تھا اور ماضی میں یہاں بہت سی مشہور شخصیات قیام کرچکی ہیں۔ ان شخصیات میں ونسٹن چرچل، ریٹا ہے ورتھ اور مارلن منرو شامل ہیں۔

اب آئندہ تین ہفتوں تک یہاں شاہ سلمان کے خاندان والے اور قریبی ساتھی قیام کریں گے۔

وِلا میں نئی کھڑکیاں اور تازہ پھول لگا دیے گئے ہیں جبکہ کچھ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ شاہ سلمان کے لیے بالکنی میں ایک تخت بھی رکھا گیا ہے تاکہ شاہ کو باہر کا نظارہ کرتے ہوئے کوئی خلل محسوس نہ ہو۔
زبردست ٹرانسپورٹ:


سعودی شاہ اور تقریباً ایک ہزار افراد پر مشتمل اُن کے قافلہ کو لے کر سعودی ائیر لائن کے دو بوئنگ 747 جہاز سنیچر کو نیس کے ہوائی اڈے پر اترے ہیں۔

جس کے بعد79 سالہ شاہ اور ان کے مہمانوں کو ان کی ذاتی رہائش گاہ تک پہنچانے کے لیےگاڑیوں کی دس قطاریں پہلے سے ہی موجود تھی۔

مقامی ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ سعودی مہمانوں کے لیے تقریباً 400 لگژری سلون گاڑیاں منگوائی گئی ہیں۔

ان گاڑیوں کو شاہ کے رشتہ داروں اور دوستوں کو علاقے کے سیاحتی مقامات اور ساحلوں پر لے جانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

خبر رساں ادارے ای ایف پی کے مطابق ایک ڈرائیور کا کہنا ہے کہ’ہمیں سعودی مہمانوں کو ریستورانوں میں لے جانے کے لیے کہا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں سینٹ ٹروپے، موناکو، نیس اور مختلف وِلاز لے جانا ہے کیونکہ وہ کچھ پراپرٹی خریدنا چاہتے ہیں۔‘
اچھے ساتھی، اور وہ بھی بہت سے:


موسم گرما کی چھٹیاں اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کا بہترین موقع ہوتا ہے۔ لیکن ایک ہزار قریبیوں اور چاہنے والوں کو بلانا شاید بہت زیادہ ہے۔

شاہ سلمان کے قریبی ان کے ساتھ سمندر کے سامنے والی عالی شان رہائش گاہ میں رہیں گے جبکہ باقی 700 ساتھی کان کے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کریں گے۔

تیل سے مالا مال سرزمین سے آنے والے مہمانوں کی وجہ سے علاقے میں سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔

بعض مقامی لوگ شاہ اور ان کے مہمانوں کو بہت زیادہ توجہ دینے پر اکتائے ہوئے ہیں جبکہ باقی ان کے آنے پر خوش ہیں۔

فور سٹار ہوٹل مونٹیانی جہاں سعودیوں نے آدھے کمروں کی بکنگ کروائی ہے کے ڈائریکٹر سری رینہارڈ کا کہنا ہے کہ’اس سے ہماری معیشت پر تو اثر پڑے گا ہی لیکن اس کے ساتھ ریستوران اور ڈرائیوروں وغیرہ کو بہت فائدہ ہوگا۔‘
علیحدہ بیچ:


شاید شاہ کی فہرست میں بیچ یعنی ساحل سب سے زیادہ ہیں۔

ویلیرئس کے مینشن کے ساتھ موجود ساحل جو عام طور پر چھٹیوں پر آئے اور سن باتھ کے لیے آئے لوگوں سے کچھاکچھ بھری ہوتی ہے۔

تاہم سعودی شاہ کے سکون اور آرام کی غرص سے ساحل کو عام لوگوں کے لیے بند کیا گیا ہے اور ان کے وِلا سے 300 میٹر تک کے علاقے کو خالی رکھنے کا کہا گیا ہے۔

فرانس میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے سعودی شاہ سلمان کی آمد پر مشہور ساحلی تفریحی مقام ’فرینچ ریوییرا‘ تک عوام کی رسائی پر پابندی کے خلاف پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔






ملائیشیا کے حکام نے بتایا ہے کہ دارالحکومت کوالمپور کے قریب ایک چھاپے میں 22 پاکستانی باشندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ہفتے کی دن کی گئی اس کارروائی کے دوران ان افراد سے چونتیس کلو گرام ہیروئن برآمد ہوئی ہے۔ انسداد منشیات کے محکمے کے سربراہ مختار شریف کے مطابق ہیروئن کو مختلف ڈبوں میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منشیات پاکستانی شہر کراچی سے ملائیشیا لائی گئی تھیں، جو آگے مغربی ممالک اسمگل کی جانا تھیں۔

اسرائیلی پولیس نے ایک یہودی شہری کو پیغمبر اسلام کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرنے پر گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ دوسرا موقع تھا کہ اس شخص نے ایسی حرکت کی۔ یروشلم میں جب اس نے پیغمبر اسلام کے خلاف نعرے بازی کی تھی تو ایک اسرائیلی خاتون نے اس کی ویڈیو بنا لی تھی۔ یروشلم پولیس کے ترجمان نے اس گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی اشتعال انگیزی قابل برداشت نہیں ہے۔

بھارتی پنجاب میں ایک حملے کے بعد نئی دہلی نے پاکستان کے ساتھ سرحد پر سکیورٹی مزید سخت کر دی۔ اِس حملے میں کل دس افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ پنجاب پولیس کے ڈائریکٹر جنرل سمیدا سنگھ سینی کے مطابق 12 گھنٹوں تک جاری رہنے والی جھڑپ میں تینوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ سینیئر پولیس افسر دینکار گپتا کے مطابق پنجاب کے شہر گورداس پور میں حملہ آوروں نے، جن کے بارے میں خیال ہےکہ وہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر سے آئے تھے، ایک شخص سے ایک کار چھینی اور پھر اس کے بعد ایک بس اڈے پر فائرنگ کی اور ایک قریبی پولیس اسٹیشن میں داخل ہو گئے تھے۔ دینکار گپتا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو مزید بتایا کہ فوج اور پولیس کے اہلکاروں نے حملہ آوروں کہ ہلاک کیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے، جہاں صرف ہیپاٹائٹس کی دو اقسام، بی اور سی کے ہی ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سے آگاہی اور اس سے بچاؤ پر زور دینے کے لیے منگل 28 جولائی کو ہیپاٹائٹس کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں ’خاموش طوفان‘ قرار دیے جانے والے اس مرض کی صرف دو اقسام میں ہی ڈیڑھ کروڑ افراد مبتلا ہیں۔ گزشتہ برس عالمی ادارہ صحت کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس وائرس ہولناک صورت اختیارکرتا جا رہا ہے اور ملک میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤکے حفاظتی ٹیکے لگوانے کا رحجان کم ہے، جو ایک سنگین مسئلہ بن رہا ہے۔

اس وقت پاکستان میں سوزشِ جگر کے اس مرض میں کُل کتنے افراد مبتلا ہیں، اس بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں تاہم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی گزشتہ برس جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔

پاکستان میں حکومت کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور علاج کے لیے خصوصی پروگرام جاری ہیں، جن کے تحت صرف صوبہ سندھ میں ہی 64 مراکز قائم ہیں، اس کے باوجود صوبے میں ہیپاٹائٹس میں مبتلا افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام کے صوبائی پروگرام منیجر ڈاکٹر عبدالخالق شیخ نے صوبہ سندھ میں ہیپاٹائٹس کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’کراچی سمیت سندھ میں ہیپاٹائٹس وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد31 لاکھ تک پہنچ گئی ہے، ان میں ہیپاٹائٹس بی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 11 جبکہ سی وائرس کے مریضوں کی تعداد20 لاکھ سے زائد ہے۔‘‘

واضح رہے کہ صوبائی پروگرام منیجز کی جانب سے دیے جانے والے اعداد و شمار سن 2008ء میں کیے جانے والے ایک سروے سے حاصل کیے گئے ہیں جبکہ تازہ اعداد و شمار سرکاری سطح پر موجود ہی نہیں ہیں۔

ڈاکٹر عبدالخالق شیخ کے مطابق اب تک صوبائی پروگرام کے تحت چلائے جانے والے ان مراکز میں بڑی تعداد میں لوگ علاج کے لیے رابطہ کرتے ہیں، ‘‘دو ہزار آٹھ میں سندھ میں ہیپاٹائٹس پریوینشن اینڈ کنٹرول پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ اس پروگرام کے تحت اب تک ہیپاٹائٹس بی، سی اور ڈی کے ایک لاکھ اکسٹھ ہزار تین سو مریضوں کا علاج ہو جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ بھر کے ٹریٹمنٹ سینٹرز میں پچیس ہزار مریض زیرعلاج ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر عبدالخالق شیخ بتاتے ہیں کہ اس وقت سندھ کے چار اضلاع گھوٹکی، خیرپور، سانگھڑ اور دادو کو ہیپاٹائٹس کے حوالے سے ہائی رسک اضلاع قرار دیاگیا ہے۔ ان چاروں اضلاع میں ہیپاٹائٹس وائرس کے سب سے زیادہ متاثرہ مریض موجود ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ گندے پانی کا استعمال بھی ہے، ’’غیر محفوظ خون کی منتقلی بھی اس کی بڑی وجوہات میں شامل ہے۔ وہاں موجود بلڈ بینک خون کی اسکرینینگ کیے بغیر خون کی منتقلی کا کام کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ استعمال شدہ انجیکشن کا دوبارہ استعمال ہے۔ عطائی ڈاکٹروں سے دانت کی تکالیف لے کر جاتے ہیں تو وہ ان جراحی آلات کا ستعمال کرتے ہیں، جو مناسب طریقے سے جراثیم سے پاک نہیں کیے جاتے۔ یہ آلات بھی ہیپاٹائٹس کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ غیر محفوظ جنسی تعلقات اور ناک یا کان چھدوانے کے لیے ایک ہی آلے کا استعمال بھی اس مرض کے پھیلاؤ کی وجوہات میں شامل ہیں۔‘‘

صوبائی سطح پر اس مرض کے خاتمے اور اس سے آگاہی کے لیے کیا کام کیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالخالق شیخ کا کہنا تھا، ‘‘ملک خصوصاً سندھ کو ہیپاٹائٹس سے پاک کرنے کے لیے ہم نے ہفتہ وار مہم تو شروع کر رکھی ہے، اس ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے عالمی دن کے حوالے سے۔ اس کے علاوہ سال بھر ہماری مختلف مہمات چلتی رہتی ہیں جو لوگوں کو علاج اور اس مرض سے بچاو کے لیے آگاہی دیتی رہتی ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں ہم غیر اسکرین شدہ خون کی منتقلی کرنے والے ان بلڈ بینک پر بلڈ بینک اتھارٹی کے اشتراک سے کافی سختی کر رہے ہیں تاکہ اس کی روک تھام کی جا سکے۔ اس کے علاوہ انجیکشن لگوانے کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کرتے ہیں کہ اگر انجیکشن لگوانا اتنا ضروری ہے تو نئی سرنج کا استعمال کریں۔ عطائی ڈاکٹروں اور ناک کان چھیدنے والوں کے پاس جانے سے پرہیز کریں۔‘‘

طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں بڑھتے ہوئے ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے، جس سے آپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے ہیں۔

سندربن کے جنگلات عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ ان جنگلات میں پائے جانے والے بنگال ٹائیگرز کی تعداد کے بارے میں آخری مرتبہ اعداد وشمار سن دو ہزار چار میں اکٹھے کیے گئے تھے۔ اس وقت بتایا گیا تھا کہ ان جنگلات میں پائے جانے والے ان ٹائیگرز کی تعداد تقریباﹰ چار سوچالیس ہے۔ سندربن کے جنگلات کو ٹائیگرز کے لیے دنیا کی آخری بڑی قدرتی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔

اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹائیگرز کی تعداد سے متعلق ماضی میں لگائے گئے اندازے درست نہیں تھے۔ اب خفیہ کیمرے نصب کیے گئے ہیں اور جدید آلات کی مدد سے ان جانوروں کی زیادہ درست تعداد معلوم کی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں محکمہ جنگلی حیات سے تعلق رکھنے والے تیپن کماردے کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی برسوں سے ٹائیگرز کی تلاش خفیہ کیمروں کی مدد سے کی جا رہی ہے۔ یہ طویل سروے رواں برس اپریل میں اختتام پذیر ہوا ہے اور سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ان جنگلات میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی تعداد 83 سے 130 کے درمیان ہے اور اگر ان کی اوسط نکالی جائے تو یہ تعداد ایک سو چھ بنتی ہے۔

تیپن کماردے کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’کم یا زیادہ بنگلہ دیشی حصے کے سندربن جنگلات میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی تعداد ایک سو چھ بنتی ہے۔ یہ زیادہ درست معلومات ہیں۔‘‘ ماضی کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی حصے کے سندربن جنگلات میں پائے جانے والے ٹائیگرز کی تعداد تقریباﹰ چوہتر بنتی ہے۔ تقریباﹰ چالیس فیصد سندربن جنگلات بھارتی سرزمین پر پائے جاتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ جنگلات دونوں ملکوں کے دس ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہیں۔

بنگلہ دیش میں جہانگیر نگر یونیورسٹی کے پروفیسر اور بنگال ٹائیگرز کے ماہر سمجھے جانے والے پروفیسر منیر الخان کا کہنا تھا کہ نئے سروے سے ان کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں، ’’لگتا یوں ہے کہ ہمارے خدشات سے بھی بڑھ کر ٹائیگرز کی آبادی میں کمی واقع ہوئی ہے۔‘‘ منیر الخان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنی تحقیق کے مطابق ان کی تعداد دو سو سے زیادہ نہیں تھی۔

پروفیسر منیر الخان کا حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان ٹائیگرز کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ غیر قانونی شکار اور جنگل کے کنارے پر تیز رفتار ترقی کی وجہ سے ان کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

ورلڈ وائلڈلائف فنڈ کے مطابق نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ دنیا بھر میں ٹائیگرز کے ناپید ہونے کا خطرہ ہے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہو کر دو ہزار سے تین ہزار دو سو کے درمیان آ چکی ہے۔

بھارت کے گیارہویں صدر زین العابدین عبدالکلام شمال مشرقی ریاست میگھالیا کے صدر مقام شیلونگ میں انتقال کر گئے۔ وہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ کے طلبا سے خطاب کر رہے تھے کہ اُن کو ہارٹ اٹیک ہوا۔ اِس اٹیک کے بعد وہ فوری طور پر انتہائی علیل ہو گئے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبرد نہ ہو سکے۔ عبدالکلام پندرہ اکتوبر سن 1931ء کو بھارتی ریاست تامل ناڈو کے مقام رمیشورم میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کا تعلق ایک انتہائی غریب اور پسماندہ خاندان سے تھا۔ وہ بنیادی طور پر جنگی طیارے کا پائلٹ بننا چاہتے تھے۔ اُن کے والد کشتی بانی کرتے تھے۔

عبدالکلام نے رامیشورم ہی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے فزکس اور ایروسپیس انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ سن 1955 میں مدراس منتقل ہو گئے تھے۔ ان کو بھارتی میزائل پروگرام کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ بطور سائنسدان بھارت کے اہم ادارے ڈیفنس ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) کے ایڈمنسٹریٹر بھی رہے۔ بھارت کے سویلین اسپیس پروگرام پر بھی ان کی خاص توجہ رہی۔ وہ انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (ISPRO) کے بھی اعلیٰ انتظامی افسر رہے۔

ان اداروں کی وابستگی کی وجہ سے وہ بھارت میں ’’میزائل مین‘‘ کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ بھارتی بیلاسٹک میزائل اور لانچنگ گاڑی کی تیاری میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ بھارت کے جوہری تجربات میں بھی اُن کا تنظیمی، ٹیکنیکل اور سیاسی کردار فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ سن 1998 کے پوکھران کے مقام پر کیے جانے والے جوہری تجربوں کے پسِ پردہ اُن کا اہم کردار تھا۔ رحلت کے بعد بھارت کے سیاستدانوں، سماجی حلقوں، دانشوروں اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی سابقہ حکومت کے دوران سن 2002 میں اُن کی سائنسی و تعلیمی و سماجی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارت کے منصب کے لیے نامزد کیا۔ اُس وقت کی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے بھی اُن کی حمایت کی تھی۔ وہ سن 2002 سے لیکر سن 2007 تک بھارت کے صدر رہے تھے۔ اپنے منصب کی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد انہوں نے اپنی سابقہ زندگی کو ایک مرتبہ پھر سے اختیار کر لیا تھا۔ اِس نارمل زندگی میں تعلیمی اور دوسرے سماجی معاملات پر مضامین لکھنا اور پبلک سروس شامل تھی۔ انہیں بھارت کا اعلیٰ ترین سول اعزاز بھارت رتن سے بھی نوازا گیا تھا۔

پنجاب میں سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں اور اقلیتی مذاہب کی تنظیمیں آج کل مقامی حکومتوں کے نئے نظام کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

پنجاب حکومت نے حال ہی میں ایک آرڈیننس کے ذریعے مقامی حکومتوں کے نظام میں ترمیم کردی ہے۔ اس ترمیم کے مطابق اب مخصوص نشستوں یعنی اقیتی نمائندوں، خواتین کونسلرز، کسانوں اور نوجوانوں کو عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں جنرل سیٹوں پر منتخب ہونے والے کونسلرز ہی منتخب کریں گے۔

اس حوالے سے لاہوراور سرگودھا سمیت کئی علاقوں سے اقیلتی مذاہب سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ پیر کے روز سول سوسائٹی فورم برائے مقامی طرز حکمرانی اور ملک کی چند بڑی غیر سرکاری تنظیموں کے ایک اتحاد آواز فورم کی طرف سے لاہور میں مشترکہ پریس کانفرنس کا بھی اہتمام کیا گیا۔

اس موقعے پر فورم کے کنوینیئر سلمان عابد کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کے نظام میں کی جانے والی حالیہ ترامیم بد نیتی پر مبنی ہیں اور ان ترامیم کے ذریعے عورتوں، اقلیتوں، کسانوں اور نوجوانوں کو براہ راست ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یونین کونسل کے 25000 ووٹرز سے ان کے نمائندوں کے انتخاب کا حق لے کر آٹھ افراد کو دے دینا غیر آئینی ہے۔ اس سے مقتدر سیاسی جماعتوں کے لیے چور دروازے سے یہ نشستیں حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ ان کے بقول حیرت کی بات یہ ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور سندھ میں مقامی حکومتوں کا جو نظام ہے اس میں ان مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لیئے براہ راست ووٹنگ کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

سلمان عابد کے بقول حکومت کا مقامی حکومتوں کے انتخابات مرحلہ وار کروانے کا فیصلہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ حکومت پہلے اپنے مضبوط حمایت والے حلقوں میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے مرضی کے نتائج حاصل کرے گی پھر ضمنی انتخابات کی طرح اسی ٹرینڈ کو فالو کیا جائے گا۔

اس موقعے پر عورت فاونڈیشن کی صوبائی سربراہ ممتاز مغل کا کہنا تھا کہ عام طور پر پاکستان میں کوئی ایک لاکھ کے قریب خواتین مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیتی رہی ہیں، صرف 2001 کے انتخابات میں جیتنے والی خواتین کی تعداد 36000 اور 2005 کے انتخابات میں جیتنے والی خواتین کی تعداد 26000 کے قریب تھی، اب براہ راست انتخاب کا حق چھین کر ان خواتین کواس سیاسی عمل میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے

ممتاز مغل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ خواتین کو براہ راست ووٹوں سے منتخب نہ ہونے دینا اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ ان انتخابات کے لیے خواتین بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی جمع کروا چکی ہیں۔ ان کے بقول کسی خاتوں کے لیے عام ووٹرز سے ووٹ لینا آسان ہوتا ہے بجائے اس کے کہ وہ منتخب کونسلر سے ووٹ لے جو کہ پاکستانی حالات میں بہت "مہنگا" ہوتا ہے۔

ممتاز مغل بتاتی ہیں کہ سب سے زیادہ مشکل اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں لوگوں کو پیش آئے گی۔ جنرل سیٹوں پر منتخب ہونے والے مسلمان نمائندے اپنی پارٹی کے فیصلوں کے مطابق (اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں) کو منتخب کر لیں گے۔ یہ اقلیتی برادری کی درست نمائندگی نہیں ہو گی۔

یاد رہے پاکستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات 2009 میں ہونا تھے لیکن سیاسی حکومتوں کی طرف سے گریز کی وجہ سے یہ بار بار ملتوی ہوتے رہے، اس سے پہلے ان انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد کرانے اور اپنی مرضی کی حلقہ بندی کرنے کے حکومتی فیصلوں کو عدالت مسترد کر چکی ہے۔ اب یہ معاملہ بھی عدالت میں جانے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ عدالت نے 20 ستمبر کو پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق پنجاب میں سیلاب کی صورت حال کی وجہ سے سرکاری عملہ الیکشن ڈیوٹی کے لیے دستیاب نہیں ہوگا، اس لیئے حکومت اس کا مزید التوا چاہتی ہے۔

سول سوسائٹی نیٹ ورک پاکستان کے سربراہ عبداللہ ملک نے بتایا کہ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ جمہوری حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام سے گریز کرتی ہیں اور یہ نظام ہمیشہ غیر جمہوری دور میں ہی مضبوط ہوا ہے۔

پاکستان میں ماہ رمضان کے دوران سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد عارضی پابندی ختم ہونے کے بعد دو مجرمان کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے۔ دونوں مجرموں کو ملتان کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ قتل کے جرم میں سزا پانے والے فاروق الیاس فاروقہ اور کریم نواز کو ستائیس جولائی پیر کے دن پھانسی دے دی گئی۔ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد ایک ماہ کے لیے روک دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے یہ پابندی ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد آج ان دو مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔

صوبہ پنجاب میں قیدیوں کے امور سے متعلق ایک اعلٰی حکومتی اہلکار چوہدری ارشاد سعید نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’فاروق الیاس فاروقہ اور کریم نواز کو قتل کے مختلف واقعات میں مجرم ثابت ہو جانے کے بعد سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انہیں آج پیر کی صبح ملتان سینٹرل جیل میں پھانسی دے دی گئی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ رمضان کی وجہ سے ان کی سزا پر عملدرآمد ایک ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ان دو مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد گزشتہ دسمبر سے اب تک مجموعی طور پر 176 مجرمان کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جا چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ حکومت پاکستان نے پشاور کے ایک اسکول پر دہشت گردانہ حملے کے بعد گزشتہ برس دسمبر میں ملک میں سزائے موت دیے جانے پرعائد چھ سالہ پابندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے بعد سزائے موت کا عدالتی حکم پانے والے مجرمان کی سزاؤں پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا تھا۔

پاکستان میں آٹھ ماہ قبل جب سزائے موت پر عملدرآمد پر عائد پابندی ختم کی گئی تھی تو ابتدا میں صرف دہشت گردی کے مقدمات میں سزائے موت پانے والے مجرمان کی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا تھا تاہم اس سال مارچ میں ایسے تمام مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا تھا، جنہیں عدالتوں نے پھانسی کا حکم سنایا تھا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے نظام میں پولیس کی طرف سے تشدد اور مناسب قانونی مدد کی عدم موجودگی کے باعث کئی ملزمان شفاف عدالتی کارروائی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال سزائے موت پانے والا مجرم شفقت حسین بھی ہے۔ اس مجرم کے وکلاء اور اہل خانہ کا کہنا ہے کہ جب اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا تھا، تو اس کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے اعتراف جرم کروانے کے لیے پولیس کی حراست میں اس پر تشدد بھی کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں اس نے اقبال جرم کر لیا تھا۔

شفقت حسین کے کیس کو عالمی سطح پر بھی توجہ حاصل ہوئی جبکہ انسانی حقوق کے اداروں نے زور دیا کہ اس مجرم کے کیس کو دوبارہ سے پرکھا جائے۔ یورپی یونین، امریکا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت دیے جانے پر دوبارہ پابندی عائد کی جانا چاہیے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں آٹھ ہزار قیدی سزائے موت کے انتظار میں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کی اپیلیں مسترد کی جا چکی ہیں۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آئندہ دور پاکستان یا پھر چین میں ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کہیں بھی ہوں، اصل معاملہ ان کے نتائج کا ہے۔

پاکستان کی بری فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات تیس اور اکتیس جولائی کو پاکستان میں منعقد ہوں گے۔ تاہم اس حوالے سے ابھی تک سرکاری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم دوسری جانب اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کے ذرائع کا افغان امن کونسل کے ارکان کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ مجوزہ مذاکرات چین کے شہر ارمچی میں ہوں گے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کہیں بھی منعقد ہوں اصل معاملہ ان کے نتائج کا ہے۔ سفارتی امور کے تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) اسد منیر نے کہا کہ اس سے بڑی اہم اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ اس ماہ کے آغاز میں ہونے والی بات چیت کا دوسرا دور بھی رواں ماہ کے اختتام پر منعقد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہر کوئی مذاکرات کے اس دوسرے دور سے پہلے کی نسبت زیادہ پرامید ہے۔ پہلے مذاکرات میں جن لوگوں نے طالبان کی نمائندگی کی، وہ سابق طالبان حکومت کے اہم عہدیدار تھے اور ان میں سے ایک جلال الدین حقانی کے بھائی بھی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ افغان طالبان کی قیادت کے اعتماد کے لوگ ہیں اور مذاکرات کا تسلسل بھی اس بات کی علامت ہے کہ طالبان قیادت نے لچک دکھائی ہے اور وہ بات چیت کے لئے تیار ہیں حالانکہ شروع میں وہ کہ رہے تھے کہ نیٹو اور امریکی فوجیوں کی موجودگی میں مذاکرات نہیں ہو سکتے۔"

مذاکرات کے دوسرے دور میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جنگ بندی کا معاملہ ایجنڈے پر ہونے سے متعلق خبروں کے بارے میں بریگیڈئیر اسد منیر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ایجنڈے پر تو ضرور ہو سکتا ہے لیکن اس کی کامیابی کے زیادہ امکان نظر نہیں آتے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "فی الحال یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ افغان حکومت 2004 ء کے افغان آئین میں طالبان کی مرضی کے مطابق چند تبدیلیاں کرنے پر راضی ہوجائے یعنی اسلامی شقوں کے حوالے سے لیکن مذاکرات کے دوسرے دور میں پورے ملک میں جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانا میرے خیال سے اس کے زیادہ چانس نہیں۔"

خیال رہے کہ اس ماہ کی چھ اور سات تاریخ کو پاکستان، امریکا اور چین کے نمائندوں کی موجودگی میں افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے نمائندوں کے درمیان اسلام آباد سے پینتالیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع سیاحتی مقام مری میں امن مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا۔

اجلاس کے اختتام پر پاکستانی دفترخارجہ نے کہا تھا کہ مذاکرات کا اگلا دور فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے رمضان کے بعد منعقد ہو گا۔ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کہ شرکاء نے افغانستان میں قیام امن اور مفاہمت کے طریقہ کار اور زرائع پر تبادلہ خیال کیا۔

بیان کےمطابق "شرکاء نے امن اور مفاہمت کےعمل کے لئے ساز گار ماحول پیدا کرنے کے سلسلے میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔‘‘پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں افغان وفد کی سربراہی نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے کی تھی جبکہ دیگر اہم رہنماؤں میں صدر اشرف غنی کے مشیر حاجی دین محمد اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے نمائندے محمد نطیقی شامل تھے۔

دوسری جانب افغان طالبان کی سربراہی طالبان دور کے اٹارنی جنرل ملا عباس نے کی تھی جو افغان طالبان کے سربراہ ملا عمر اور طالبان شوریٰ کے اراکین کے کافی قریب خیال کیے جاتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر طاہر خان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوسرے دور کے بارے میں اندازہ اس کے شرکاء کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’سنا ہے کہ اس مرتبہ دونوں جانب سے مزید اہم عہدیدار اور نمائندے بھی شریک ہو رہے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بات کچھ اور آگے بڑھی ہے۔ کیونکہ طالبان کے دوحہ میں قائم دفتر کے کچھ لوگوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بھی مذاکرات کے دوسرے دور میں شریک ہو سکتے ہیں۔"

اس سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دو ہزار تیرہ میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے براہ راست مذاکرات وہاں قائم طالبان کے دفتر پر ان کا جھنڈا لہرانے اور دفتر کے باہر تختی آویزاں کرنے جیسے تنازعات کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ تاہم اس کے بعد چین کے شہر ارمچی میں فریقین کے درمیان رسمی مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لئے بات چیت کا ایک دور منعقد کیا گیا تھا۔ پاکستانی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی اس سال فروری میں دورہ کابل کے دوران افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی یقین دہانی کرائی تھی۔

طاہر خان کا بھی ماننا ہے کہ مذاکرات کے مقام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ "خواہ ارمچی ہو، مری ہو یا کابل، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بات چیت میں پاکستان، امریکا اور چین کے نمائندے بھی موجود ہیں اور یہاں کسی طرح سے بھی ایسا نہیں ہے کہ مذاکرات کا مقام تبدیل کرنے سے ان کا ایجنڈا بھی بدل جائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا مقصد ایک اور بہت واضح ہے اور وہ افغانستان میں دیر پا قیام امن کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔

یونان کو ہنگامی قرضے دینے والے اداروں کے طور پر یورپی یونین اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے تکنیکی ماہرین اعلٰی یونانی حکام کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکج کی حتمی تفصیلات سے متعلق مذاکرات کے لیے ایتھنز پہنچ گئے ہیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایتھنز اور برسلز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے پیر ستائیس جولائی کے روز بتایا گیا کہ یونین اور آئی ایم ایف کے یہ مذاکراتی ماہرین آج ہی یونانی دارالحکومت پہنچے، جہاں اپنی آمد کے فوری بعد انہوں نے مالیاتی بحران کے شکار یونان کی حکومت کے ساتھ اپنی بات چیت شروع کر دی۔

اے ایف پی کے مطابق برسلز میں یورپی کمیشن کی خاتون ترجمان مینا آندریوا نے قبل از دوپہر ایک پریس کانفرنس میں کہا، ’’یونان کو قرض دینے والے اداروں کے نمائندے ایتھنز پہنچ چکے ہیں، اور انہوں نے فوری طور پر یونانی حکام کے ساتھ اپنی مکالمت بھی شروع کر دی ہے۔‘‘

دوسری طرف یونانی حکومت کے ذرائع سے ملنے والی رپورٹوں میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرض دہندہ اداروں کو ایتھنز حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ابھی بھی کس طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق، ’’قرض دہندہ اداروں کے تکنیکی ماہرین کی ٹیموں اور یونانی حکام کے ساتھ بات چیت کا آغاز کل منگل کے دن سے ہو گا، نہ کہ آج پیر سے۔‘‘ ان ماہرین کو کئی روز پہلے ہی مذاکرات کے لیے یونان پہنچنا تھا لیکن ان کی آمد کئی مختلف وجوہات کی بناء پر تاخیر کا شکار ہو گئی تھی۔

یورپی ممالک سے خوراک کے لدے ٹرکوں کو فرانسیسی کسان اپنے ملک میں داخل ہونے پر روکنے کے ساتھ ساتھ واپس بھی کر رہے ہیں۔ کسانوں نے تقریباً چوبیس گھنٹے کا احتجاج اتوار، مؤرخہ چھبیس جولائی سے شروع کیا ہے۔

فرانس کے کسانوں کی ایسوسی ایشن FNSEA فارمنگ یونین کی جانب سے آج پیر کے روز کہا گیا کہ اُس میں شامل کسانوں نے جرمنی سے خوراک لانے والے تین سو ٹرکوں کو روک کر واپس بھیج دیا ہے۔ فرانس میں مقامی کسانوں کی تیار کردہ فوڈ پراڈکٹس کی گرتی قیمتوں کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کا مؤقف ہے کہ جو مصنوعات فرانس میں پیدا کی جاتی ہیں، اُن کی کھپت حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ فرانسیسی کسانوں نے جرمنی اور فرانس کے درمیان رابطے کی چھ سڑکوں پر چیک پوائنٹس قائم کر رکھے ہیں۔ اِن کسانوں نے اتوار سے شروع ہونے والے احتجاج کو پیر، ستائیس جولائی کی شام تک جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

فرانسیسی کسانوں کی تنظیم FNSEA فارمنگ یونین کے مقامی سربراہ فرانک سانڈر نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اُن سے مسابقت کرنے والے دوسرے یورپی ملکوں کے کسانوں کی مصنوعات کے کئی سو ٹرکوں کو فرانس میں داخل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔

فرانک سانڈر کے مطابق اِس احتجاج میں تقریباً ایک ہزار کسان شامل ہیں۔ کسانوں کی تنظیم FNSEA اور حکومتی نمائندوں کے درمیان اِس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے مکالمت جاری ہے۔ پلان کے مطابق پیر مؤرخہ 27 جولائی کی شام تک کسان اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ایسے خدشات بھی سامنے آئے ہیں کہ وہ اپنے احتجاجی عمل کو طول دے سکتے ہیں۔ احتجاج کے دوران فرانس کے جنوب مغربی علاقے اُوٹ گرون میں ایک سو سے زائد کسانوں نے اسپین سے آنے والے ٹرکوں کو روک کر اُن کی تلاشی بھی لی۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ اگر ان پر فرانیسی مارکیٹوں کے لیے ہسپانوی گوشت، پھل اور سبزیاں لدی ہوں گی تو انہیں سڑک پر اتار کر پھینک دیا جائے گا۔

فرانس کے ینگ فارمرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل گُولیوم ڈورو نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اُوٹ گرون علاقے سے گزرنے والی بڑی شاہراہ کو کم از کم دس ٹرکوں سے بند کیا گیا ہے۔ کسانوں کا احتجاج گزشتہ ہفتے کے دوران ملکی خوراک کی مصنوعات کی گرتی قیمتوں کے خلاف شہروں میں کیے گئے مظاہروں کا اگلا مرحلہ ہے۔ احتجاج کے دوران کسانوں نے شہروں کی کئی سڑکوں کو جانوروں کے فضلے سے تیار کھاد سے بھی بند کیا۔ اسی طرح انہوں نے فرانسیسی سیاحتی مقامات کا رُخ کرنے والے سیاحوں کی حوصلہ شکنی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ پیرس حکومت کے مطابق فرانس میں دس فیصد کاشت کاری کے یونٹ دیوالیہ پن کے قریب ہیں اور یہ ایک بلین یورو سے زائد کے بینک قرضوں کے بوجھ تلے بھی ہیں۔ فرانسیسی صدر اولانڈ نے کسانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔

شام میں فعال کردوں کی مرکزی ملیشیا نے کہا ہے کہ ترکی نے سرحد پار شیلنگ کرتے ہوئے اس کے فائٹرز کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم انقرہ حکومت نے اس الزام کی تردید کر دی ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی نے شامی کرد ملیشیا ’کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترک فوج کے ٹینکوں کی طرف سے اتوار کی رات سرحد پار شلینگ میں اس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ملیشیا شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سرگرم عمل ہے جبکہ اسے امریکی اتحادی فضائیہ کی معاونت بھی حاصل ہے۔

بتایا گیا ہے کہ ترک فوج کی طرف سے جرابلس اور تل فندائر نامی علاقوں میں کی گئی شیلنگ میں کرد فائٹرز کی ایک گاڑی کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ علاقہ کوبانی کے مشرق میں واقع ہے، جہاں ان فائٹرز نے حال ہی میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو پسپا کیا تھا۔

ترکی نے جمعے کو شام سے شروع کردہ اپنی کارروائیوں میں شام میں فعال اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے علاوہ شمالی عراق میں کرد باغیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ یوں شام کی پیچیدہ خانہ جنگی میں انقرہ حکومت کا کردار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ شام میں جہادیوں کے خلاف جاری لڑائی میں شامی کرد فائٹرز انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ترکی کو خطرہ ہے کہ یہ کرد طاقت جمع کرتے ہوئے بعدازاں ترکی میں بھی ایک آزاد ریاست کی مسلح جدوجہد شروع کر سکتے ہیں۔

ترک حکام نے کہا ہے کہ ترک فوج شام میں صرف جہادیوں اور شمالی عراق میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے خلاف عسکری کارروائی کر رہی ہے۔ ایک حکومتی بیان کے مطابق باغی گروہ پی کے کے اور جہادیوں کے خلاف کارروائی دراصل ترکی کو لاحق سکیورٹی خطرات کے پیش نظر کی جا رہی ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انقرہ حکومت ایسے الزامات کی تفتیش کر رہی ہے کہ شام میں کی جانے والی کارروائی میں کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے ارکان بھی متاثر ہوئے ہیں۔

تاہم کرد ملیشیا نے انقرہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس کے مسلح ارکان کے خلاف حملے روک دے۔ اس ملیشیا کے مطابق ترک افواج نے جہادیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے ان کے ارکان پر حملہ کیا ہے۔ انہی فائٹرز نے پیر کے دن شمالی شام کے ایک اہم علاقے سارین میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کو پسپا بھی کر دیا ہے۔ غیر سرکاری ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتایا ہے کہ کئی ماہ کی لڑائی کے بعد سارین کا کنٹرول حاصل کیا گیا ہے۔ ان کے بقول حکمت عملی کے حوالے سے یہ علاقہ انتہائی اہم ہے کیونکہ یہی وہ مقام ہے، جو جہادیوں کے لیے ایک سپلائی لائن کا کام دیتا تھا۔ یہ علاقہ کوبانی کے قریب ہی واقع ہےدریں اثناء ترک وزیر اعظم احمد داؤد آؤلو نے پیر کے دن ہی کہا ہے کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائی جاری رکھی جائے گی لیکن وہاں زمینی فوج روانہ نہیں کی جائے گی۔ شام اور شمالی عراق میں کارروائی کے تناظر میں ترک حکومت نے نیٹو کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ انقرہ کی درخواست پر منگل کے دن ایک خصوصی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔

ترک وزارت خارجہ کے مطابق اس اجلاس میں نیٹو ممالک کو جہادیوں اور کرد باغیوں کے خلاف جاری عسکری کارروائی کے بارے میں تفصیلات بتائی جائیں گی۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگیرینی نے جہادیوں کے خلاف کارروائی میں ترکی کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

نیپال میں پولیس نے ایک ایسے اڑتیس سالہ شہری کو گرفتار کر لیا ہے، جس پر الزام ہے کہ وہ ایک خاتون کو قتل کرنے کے بعد اس کا گوشت کھانے کا مرتکب ہوا تھا۔ پولیس نے مقتولہ کی مسخ شدہ لاش بھی برآمد کر لی ہے۔

کھٹمنڈو سے پیر ستائیس جولائی کو ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس مشتبہ آدم خور کا نام رامیش بی کے بتایا گیا ہے اور اس پر الزام ہے کہ اس نے پہلے ایک 58 سالہ خاتون کو قتل کیا اور پھر مبینہ طور پر اس کے جسم کے مختلف حصے کھا گیا۔

نیپال میں ضلع دانگ کی پولیس نے بتایا کہ مبینہ آدم خور قاتل کو گرفتار کرنے کے علاوہ پولیس نے مقتولہ کی لاش بھی برآمد کر لی ہے، جس میں سے دل، جگر اور آنتیں غائب تھیں۔ دانگ پولیس کے ایک افسر رنجیت سنگھ نے ٹیلی فون پر ڈی پی اے کو بتایا، ’’ہم نے اس ملزم کو اتوار چھبیس جولائی کے روز ستباڑیا کے جنگلاتی علاقے سے گرفتار کیا، جہاں وہ اس خاتون کو قتل کرنے کے بعد چھپا ہوا تھا، جو اس کی آدم خوری کا نشانہ بنی۔‘‘

پولیس کے مطابق علاقے کے مکینوں نے تفتیشی اہلکاروں کو بتایا کہ یہی ملزم مبینہ طور پر مقامی باشندوں کی ملکیت ایسے مویشی بھی چراتا رہا ہے، جنہیں وہ بعد میں ہلاک کر کے ان کے دل اور جگر کھا جاتا تھا۔

پولیس اہلکار رنجیت سنگھ نے بتایا، ’’مقامی دیہاتیوں نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ ملزم رامیش مبینہ طور پر ایک قریبی قبرستان سے تازہ دفنائے گئے مردوں کی لاشیں بھی نکال لیتا تھا تاکہ ان کے سر، دل اور جگر کھا سکے۔‘‘

فرانس میں ایک ہی وقت میں 433 گرم غبارے فضا میں چھوڑ کر عالمی ریکارڈ قائم کیا گیا ہے۔

جب ان گرم غباروں کو فضا میں چھوڑا گیا تو یہ چار کلومیٹر کے علاقے تک آسمان پر دکھائی دیے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل 391 گرم غباروں کو فضا میں چھوڑنے کا عالمی ریکارڈ بنایا گیا تھا۔

یہ ریکارڈ دو سال قبل فرانس کے مشرقی علاقے میں شانگبلے پر منایا گیا تھا۔ حالیہ ریکارڈ بھی اسی مقام پر منایا گیا ہے جس میں 40 ممالک کے شائقین نے حصہ لیا۔

رنگا رنگ غباروں کو فضا میں چھوڑنے کا یہ تہوار برطانیہ، امریکہ، جرمنی اور فرانس کے علاوہ بہت سے ممالک میں ہر سال دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ شمالی افغانستان میں ایک شادی کی تقریب میں فائرنگ کے واقعے کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہو گئے ہیں۔

بغلان صوبے کے گورنر جاوید بشارت نے بتایا کہ اتوار کی شب ضلع اندرابمیں دو گروہوں کے درمیان شادی کی تقریب میں فائرنگ کاتبادلہ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مہمان تھے جن کی عمرین 16 سے 60 سال کے درمیان تھیں۔

پولیس چیف کرنل گلستان کاسانی کا کہنا ہے کہ دونوں گروہوں کے درمیان کئی سال پرانی دشمنی تھی۔

انھوں نے کہا کہ تصادم تب ہوا جن صوبائی پولیس افسر کو شادی کی تقریب کے دوران قتل کیا گیا۔

بتایا گیا ہے کہ یہ شادی ایک مقامی مولوی کے بیٹے کی تھی اور ایک گھر میں 400 کے قریب مہمان جمع تھے۔

پولیس چیف کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے لاشوں کو اکھٹا کیا تو یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ جون قاتل تھا اور کون مقتول کیونکہ وہاں ہتھیار موجود نہیں تھے۔

پاکستان میں گذشتہ تقریباً پانچ سالوں سے آنے والے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کا سلسلہ ہر سال مسلسل بڑھتا جارہا ہے تاہم حکومت کی جانب سے موثر منصوبہ بندی کے فقدان اور روک تھام کا جدید نظام نہ ہونے کی وجہ سے ان آفات کے نقصانات کو کم نہیں کیا جاسکا ہے۔

رواں برس بھی ملک کے دو صوبے خیبر پختونخوا اور پنجاب سیلاب کی زد میں ہیں اور اب تک ان علاقوں میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصانات ہوچکے ہیں جبکہ مزید بارشوں اور سیلاب کے خطرات ابھی موجود ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موثر منصوبہ بندی اور مربوط نظام کے فقدان کے باعث نہ صرف ہر سال سیلاب اور دیگر قدرتی آفات آتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ہونے والے بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصانات کو بھی کم نہیں کیا جاسکا ہے۔

پشاور یونیورسٹی میں سینٹر فار ڈیزاسسٹر پریپیرڈنس اینڈ منجمینٹ کے ڈائریکٹر اور حیاتیاتی سائنس کے شعبے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر امیر نواز خان نے بتایا کہ پاکستان میں ہر سال لوگ قدرتی آفات کا نشانہ بنتے ہیں اور بڑا واویلا بھی کیا جاتا ہے لیکن جب خطر ٹل جاتا ہے تو اس کے بعد پھر سے ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ قدرتی آفات آنے کے بعد حکومت ہر سال بحالی اور تعمیر نو پر بڑی رقم خرچ کرتی ہے لیکن اگر اس رقم کا آدھا حصہ بھی پہلے خرچ کرکے مسائل کے روک تھام پر توجہ دی جائے تو کافی حد تک نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔‘

ان کے مطابق صوبہ پنجاب میں سیلاب کا جدید وارننگ نظام موجود ہے جس سے بارشوں اور سیلاب کا پہلے سے پتہ چل جاتا ہے لیکن خیبر پختونخوا میں اس نظام کا کوئی وجود نہیں۔

ان کے بقول دریا سندھ سے نکلنے والے مشرقی معاون دریاؤں راوی ، چناب اور دیگر چھوٹے بڑے دریاؤں میں جب سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے تو اس کےروک تھام کےلیے پہلے سے انتظام اور منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

پروفیسر امیر نواز خان نے کہا کہ مالاکنڈ ڈویژن ’فلیش فلڈ‘ کے ضمن میں انتہائی حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں سیلاب اور بارشوں کی شدت پہلے سے معلوم کرنے کےلیے کوئی ریڈار سسٹم موجود نہیں جس سے اکثر اوقات نقصانات ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ لوگ ان علاقوں میں لوگ گھر بنا رہے ہیں جہاں دریا بہتے ہیں یعنی دریاؤں پر قبضہ کیا جارہا ہے اور ظاہر ہے جب تیز بارشیں ہونگی تو پھر ایسے گھر تو نہیں بچیں گے۔

پروفیسر ڈاکٹر امیر نواز خان کے مطابق پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کےلیے جو ادارے قائم ہیں وہاں پیشہ ور ماہرین کی بھی شدید کمی پائی جاتی ہے جس سے مسائل پر قابو پانے کےلیے مربوط منصوبہ بندی نہیں ہورہی۔

’ یہ تمام آفات انسان کی پیدا کردہ ہیں، اگر ہم جنگلات کو ختم نہیں کرینگے، دریاؤں پر قبضہ نہیں کرینگے ، پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے مناسب انتظام کریں گے اور مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کریں گے تو ایسی صورتحال میں پھر ہر قدرتی آفت سے آسانی سے نمٹا جاسکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہر سال یہ نقصانات بڑھتے جائیں گے کم نہیں ہونگے۔

خیال رہے کہ پاکستان گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے قدرتی آفات کے زد میں رہا ہے۔ ملک میں سنہ 2005 میں آنے والے تباہ کن زلزلے کی وجہ سے تقریباً 90 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔

اس کے علاوہ سنہ 2010 ، 2011، 2012 اور 2013 میں آنے والے ملکی تاریخ کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی جس میں سینکڑوں افراد ہلاک اور بنیادی ڈھانچے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔